اسے سیاست سمجھیں یا سازشی ہتھکنڈے لیکن اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ خوش قسمت ہے اور بہت ساری زندگیاں لے کر پیدا ہوأ ہے۔ کرکٹ سے لے کر سیاست تک وہ سازشوں کا حصہ رہا لیکن فتح ہمیشہ صرف اس کی ہوئی۔ اس کے ’دوست‘ اور ’محسن‘ صرف منہ تکتے رہ گئے۔ اس کے مخالفین اور اس پر داؤ لگانے والوں کے حصے میں صرف پچھتاوا آیا۔ وہ کیسا خوش قسمت انسان ہے کہ اس کے لئے ہمیشہ بساط بچھائی گئی اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہمیشہ ہر طاقتور نے یہ دھوکہ کھایا کہ وہ بہت سادہ اور کمزور ہے لہٰذا وہ احسان کے زیر بار رہے گا۔
2018 کے الیکشن کے ذریعے اس کی ایسے سلیکشن ہوئی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ اس کے وزیر اعظم بننے پر شادیانے بجائے گئے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ (آمرانہ ادوار نکال کر) تمام ادارے اور محکمے ایک ہی صفحے پر ہیں۔ لیکن اسے احساس تھا کہ جلد ہی یہ صورتحال ایسی نہیں رہے گی۔ لہٰذا اس نے سلیکٹڈ اور لاڈلے کے طعنے تو سنے لیکن انہی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تمام بڑے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا شروع کر دیا۔ چیئرمین نیب کی متنازع ویڈیو ٹیپ اور ’مشترکہ دشمن‘ کی فہرست نے یہ کام اور آسان کر دیا۔
اگر سمجھانے کی کوشش بھی ہوئی کہ جناب عالی اقتدار مل گیا ہے، اب یہ کام چھوڑ کر اصل کام کیجئے تو وہ ناراض ہو گیا۔ اسے احساس ہے کہ اس نظام کے تحت اس کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس نے حکومت چلانے کے لئے کوئی تیاری کر رکھی تھی۔ اس نے کرپشن کے خلاف اپنا نعرہ زندہ رکھا ہے تاکہ اپنے چاہنے والوں کو بعد ازاں تأثر دے سکے کہ اس نے پوری کوشش کی لیکن نظام نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ اپنی اس کوشش میں اس نے ایسا بندوبست کیا کہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن تا حال کسی اور ’حل‘ کی طرف نہیں بڑھ سکے۔
مولانا فضل الرحمٰن وہ واحد سیاستدان ہے جس سے وہ خائف ہے لیکن وہ نہ تو مشترکہ دشمنوں کی فہرست کے معیار پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن جیسی جماعت کا لیڈر ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے نے ہی اس تک یہ بات پہنچائی کہ شاید مارچ میں اس کا بوریا بستر گول کرنے کا وعدہ ہو گیا ہے۔ قرائن بھی یہی بتا رہے تھے کہ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے لیکن ہمیشہ کی طرح اب کی بار افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا سمجھوتہ اور کرونا کی وبا اس کے لئے غیبی امداد کے طور پر پہنچ گئے اور ساتھ ہی اس نے اپنے احتساب کا رخ ان لوگوں کی طرف موڑ دینے کا فیصلہ کیا جو بظاہر اس کے ساتھ ہیں لیکن ہدایات کہیں اور سے لیتے ہیں۔
اسے پتہ ہے کہ جہانگیر ترین کا اب کوئی مستقبل نہیں اور پیسے کے علاوہ اس کے پاس تو ذاتی حلقہ بھی موجود نہیں۔ اس کا خواب پورا ہو چکا تو اب جہانگیر ترین کے پیسوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ لہٰذا اپنی سرشت کے مطابق جہانگیر ترین کی قربانی میں کیا حرج ہے؟ خسرو بختیار اور مونس الٰہی تو ’کسی‘ کی آنکھ کا تارا ہیں اور اب اسے ایک حقیقی خطرے کا احساس ہے۔ ایک ہی صفحے کا تصور ختم ہو چکا تو شوگر اور آٹا سکینڈل پر بری بھلی کارروائی سے وہ اپنے چاہنے والوں کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف سینہ سپر ہے اور مقتدر حلقوں کے لئے پیغام ہے کہ خسرو بختیار اورچوہدریوں کی جان بخشی کے عوض آئندہ کے معاملات پر بات ہو سکتی ہے اور معاملات اگر زیادہ خراب ہوں تو عثمان بزدار پر بھی بات ہو سکتی ہے یا اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کی آفر پر بھی کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ کچھ اور ’اپنے‘ بندے لگانے پر بھی معاملہ طے ہو سکتا ہے۔
اس سے زیادہ اس کی کامیابی کیا ہوگی کہ وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب ہے کہ میرا کوئی نعم البدل نہیں لیکن عین اسی وقت انکوائری رپورٹ کے اقدام کے ذریعے جنوبی پنجاب محاذ کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیتا ہے۔ پیغام بڑا واضح ہے کہ جو میرا وفادار اور تابع ہے وہی چلے گا، دھونس دکھا کر کام نہیں چلے گا۔ اب یہ پیغام اس نے کس کو دیا ہے وہ جنوبی پنجاب محاذ اور اس کے چاہنے والے بخوبی جانتے ہیں۔
دراصل کرونا وبا کے خلاف سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن نے رہا سہا پردہ بھی ختم کر دیا۔ سندھ حکومت کی وجہ سے اسے قوم سے خطاب کے دوران لاک ڈاؤن کی مخالفت کا ویسا ہی مؤقف اپنانا پڑا جیسا کہ اس نے طالبان کے خلاف لیا تھا یعنی پاکستان میں بم دھماکوں کی مذمت کرنی ہے لیکن کبھی ان دھماکوں کے ذمہ داران کا نام نہیں لینا بلکہ ان سے اچھے تعلقات بھی قائم رکھنے ہیں۔ قوم سے خطاب کے کچھ ہی دیر بعد کسی ’نامعلوم‘ ہاتھ نے اس کے مؤقف کے برعکس پورے ملک میں لاک ڈاؤن کروا دیا اور یکایک تمام صوبوں میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج بھی طلب کر لی گئی۔ بس یہی وہ لمحات تھے جب اس نے اپنی چومکھی لڑائی تیز کر دی اور اپنی مسلسل کوششوں سے پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں لاک ڈاؤن کو مذاق ڈاؤن میں بدل کر رکھ دیا۔
دوسری طرف سندھ حکومت کے خلاف اپنے وزرا سے ایسی مہم چلوائی کہ مولوی اور تاجر حضرات ان کی جان کے درپے ہو گئے۔ وفاق کی سطح پر ہونے والی میٹنگز کا احوال بھی مختلف نہیں۔ جن لوگوں کی مداخلت سے وہ تنگ ہے، ان کے لئے پیغام ہے کہ مجھے نظرانداز کرنے سے حالات خراب ہوں گے۔
اس تاثر کو قائم کرنے کے لئے بھی اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ اگر اسے اسی طرح نظرانداز کیا گیا تو وہ اس سارے نظام کو دھڑام سے زمین بوس بھی کر سکتا ہے۔ حالیہ ’تین بڑوں‘ کے درمیان ملاقات میں اس کا بیٹھنے اور بات کرنے کا انداز شہریاروں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ اس کی خوش قسمتی اس سے بڑی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے مدمقابل شہباز شریف اور زرداری جیسے سیاستدان ہیں۔ جس سے اسے خطرہ تھا اسے فرمائش پر گھر بٹھا دیا گیا لیکن وہ کرونا کی وبا کے باوجود بھی شہباز شریف سمیت اپنے کسی مخالف کو رعایت نہ دینے پر ڈٹا ہوأ ہے۔
ان لوگوں کی اس کے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔ اصل اپوزیشن پاکستان میں جہاں سے آتی ہے اس کا اسے مکمل ادراک ہے۔ وہ سیاستدان ہے۔ اس کے چاہنے والے بھی موجود ہیں اور قدرت بھی اس کی مدد کر رہی ہے۔ اس کا تجربہ ہے کہ جو سب سے زیادہ طاقتور نظر آتا ہے دراصل وہی سب سے زیادہ خطرے میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کی اصل توجہ بھی ادھر ہے۔ اسے اقتدار میں لانے والوں کے پاس بھی اس وقت اس کے علاوہ کوئی حل نہیں اور یہی اس کی کامیابی ہے۔ ان کے پاس فی الوقت اس ناکام تجربے کا ملبہ اٹھانے کی ہمت ہے اور نہ ہی ہمیشہ کی طرح کوئی اور نسخہ کیمیا لانے کا اس نے ان کے لئے کوئی راستہ چھوڑا ہے۔
ان تمام باتوں اور اقدامات سے بظاہر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو اسے کرونا وبا کی تباہ کاری کا ادراک نہیں یا وہ جان بوجھ کر اس غفلت کا مرتکب ہوا ہے۔ منفی سوچ سہی لیکن 144 ارب روپے کی تقسیم اور کرونا کی وجہ سے غیر ملکی امداد کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں اسے زیادہ دلچسپی ہے۔ اسے کسی ’وجہ‘ سے گمان ہے کہ کرونا جون میں ختم ہو جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو اسے کنٹرول کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے پر اسے تسلی ہے کہ صرف وہ نہیں بلکہ اس نظام کے تمام خوشہ چینوں کا تیا پانچہ ہو جائے گا۔
اس کے لئے تو کرونا اس کے اقتدار کے دوام کی نوید ہے۔ یہ بے رحمی ہے لیکن کیا اس سازشی نظام سے کچھ بہتر کی توقع کی جا سکتی ہے جب کہ ایسی تمام تر سوچ اس کی افتاد طبع کے بھی عین مطابق ہو؟ اس لئے تو وہ روزانہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے اندر نئی روح پھونکتے نظر آتا ہے تاکہ اس پر تنقید کرنے والوں کا ناطقہ بند رہے اور وہ بعد میں صفائیاں دیتے نظر آئیں یا ڈر جائیں۔ جو نہ ڈرے اسے میر شکیل الرحمان بنا دیا جائے۔
صاف نظر آتا ہے کہ وہ موقع مناسب جانتے ہوئے اپنے آپ کو طاقتور بنانا چاہتا ہے۔ اسے اقتدار میں لانے والوں نے جلدی میں اس کا ماضی نہ کھنگالا۔ کاش وہ ماجد خان، جاوید برکی، انتخاب عالم یا اس دور کے چیف سلیکٹر حسیب احسن کا ہی انٹرویو کر لیتے۔ عمران خان نواز شریف نہیں۔ اس نے جہانگیر ترین کو اگر آج کا ماجد خان بنایا ہے تو یاد رکھیں کہ اس کی کپتانی کے دور میں سلیکٹرز اور مینیجرز کی کیا وقعت بچی تھی۔
لیکن اگر پاکستانی سیاست کی بات ہو تو اسے بھی ضرور یاد ہوگا کہ بھٹو کو ایوب، یحییٰ اور گل حسن سے جیتنے کے باوجود اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لہٰذا جیت کی صورت میں نہ تو ورلڈ کپ ملے گا اور نہ ہی نواز شریف کی طرح معافی ملے گی۔ اب کی بار مقابلہ سخت ہے اور دونوں اطراف کے طویل تجربہ کے امتحان اور ساکھ کا معاملہ بھی درپیش ہے۔