قلندر کے آستانے پر بغاوت کا سماں تھا۔ کرامات پر سوالات اٹھ رہے تھے۔ بالکل ایسے جیسے آجکل فوج کی غیرنصابی ’آنیاں جانیاں ‘پر اٹھ رہے ہیں۔ مگر قلندر اپنی دنیا میں مست طبلے پر استاد نتھو خان کا ریلا ، دھاگھے نا دھا تٹ گھن تی نا اتی درت لے میں دیوانہ وار بجائے جا رہا تھا۔ تہائی مار کر جب سم پر آیاتویکدم سناٹا چھا گیا۔ مرید حیران رہ گئے۔ اس لے میں ایسی بےدم تہائی یہ صرف قلندر ہی کر سکتا تھا۔ 'بہت بھونک چکے اب سنو!'
’تم لوگوں کا ماننا ہے کہ جنرل قمر باجوہ میری نہیں بلکہ صحافی ابصارعالم کی سفارش سے آرمی چیف بنے۔‘
’جی ہاں۔ آپ نے تو ہمیشہ یہ ہی دعوی کیا۔ اور ہم بھی اسی غلط فہمی میں رہے۔ اور باقی ماندہ زندگی بھی اسی غلط فہمی میں گذار دیتے اگر ابصار ٹویٹ نہ کرتا۔‘
’کیا ٹوئیٹ کیا اس نے ؟ میں کئی دنوں سے سوشل میڈیا سے دور ہوں؟‘ قلندر نے دریافت کیا تو ریشماں نے اپنا سیل فون جو وہ اپنی انگیا میں دبا کر رکھتی ہے قلندر کو دکھایا۔
’ کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ سیل فون کسی اور جگہ رکھا کر۔ چھاتی کے سرطان کی ایک بڑی وجہ یہ ہی ہے۔ ذرا پڑھ کے سنا۔ عینک اسوقت قریب نہیں ۔'‘ قلندر نے ریشماں کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’بھول گئی سرکار۔ پرانی عادت ہے نا۔ کچھ وقت لگے گا چھوڑنے میں۔ میں پڑھ دیتی ہوں‘۔ اس میں لکھا ہے: ’جنرل قمر باجوہ اسلام علیکم۔ میں نے تو ابھی قاتلانہ حملے کا الزام بھی کسی پر نہیں لگایا اور آپ میرے خلاف بند کمروں میں گفتگو فرماتے ہیں، کیوں؟ آپ نے تو اپنی ترقی کے لئے میری کاوشوں کا شکریہ خود ادا کیا تھا جس کے گواہ آپ کے سُسر جنرل اعجاز امجد اور آپ کے دوست زاہد مظفر بھی ہیں۔ میں نے آپ سے کبھی کسی احسان کا بدلہ نہیں چاہا لیکن اگر مہذب انسان کی طرح آپ کسی کی بیمار پُرسی نہیں کرنا چاہتے تو ایسی گفتگو کیوں؟ کم از کم اپنے عہدے کا ہی خیال کرلیں۔‘
’ارے جاہلوں تم سب میرے وہم و گمان سے کہیں زیادہ جاہل ہو۔ اب میں تم سے چند سوالات کرتا ہوں۔ اور تمہارا ہی جواب تمہارے شکوک دور کر دے گا۔ ‘ قلندر اطمینان سے بولا۔
’یہ بتاؤ بھٹو کو کس نے پھانسی دی؟‘
’اجی یہ بھی کوئی سوال ہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے ضیاء الحق نے ! ‘ قلندر کا مرید کانا دوراندیش بولا۔
’غلط ۔ بھٹو کو پھانسی تارا مسیح نے دی تھی۔‘
’یہ کیا مذاق ہے حضور۔ کون یقین کرے گا اس جواب پر!‘ ریشماں بولی۔
’میرا جواب مذاق لگ رہا ہے اور ابصار عالم کا ٹویٹ سچ! واہ واہ سبحان اللہ!' قلندر بولا۔
’تارا مسیح اور ابصار ! حضور پہلیاں نہیں سیدھا جواب دیں۔ کس نے باجوہ صاحب کی سفارش کی تھی۔۔آپ نے یا ابصار نے؟‘
’تم سب گدھے ہو۔ جواب مل گیا ہے مگر تمہاری سمجھ سے بالاتر ہے۔ درست کہ بھٹو کو پھانسی ضیاء الحق نے ہی دی۔ تارا مسیح تو جلاد تھا۔ کسی کے حکم کا پابند تھا۔ اپنی مرضی سے تو بھٹو کو پھانسی نہیں دے سکتا تھا نا۔ تو سیدھا جواب یہ ہے کہ میں نے سفارش نہیں حکم دیا تھا نواز شریف کو کہ باجوہ آستانے کا سب سے خاموش، سیدھا سادا، باادب مرید ہے بالکل سرمے والی سرکار کی طرح ۔ لہذا اسے ہی چیف لگا دو۔ تمہارے ساتھ وہ نمک حرامی نہیں کرے گا جو مشرف نے کی تھی۔ اور میرا یہ حکم نامہ ابصار لے کر نواز شریف کے پاس گیا تھا۔ اب ایسے کام میں خود تو کرتا نہیں۔ تم ہی میں سے کوئی لیکر جاتا ہے میرا حکم نامہ۔ اس وقت آستانے پر ابصار کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ اب چونکہ نواز شریف کا منہ چڑھا چمچہ تھا تو میں نے حکم نامہ اسی کے ہاتھوں میں تھما دیا ۔ تو اب یہ دعوی ایسا ہی ہے کہ تارا مسیح یہ ڈھنڈورا پیٹ دے کہ اسی نے بھٹو کو پھانسی کی رسی پر جھولا دیا تھا۔ ‘
’اور بھی کچھ غلط فہمیاں دور کر دوں تم لوگوں کی۔ کوئی بند کمرے میں گفتگو نہیں ہوئی ۔ سینکڑوں بوٹ پالشیے اینکر اور صحافی موجود تھے۔ اور ملاقات تو لان میں ہوئی تھی۔ لان میں بند کمرہ کہاں سے آگیا۔ اور اپنے باجوہ صاحب ابصار کی مزاج پرسی تو کیا تیمارداری کی نیت سے ہسپتال گئے تھےمنجی بسترے سمیت مگر ڈاکٹروں نےکرونا کی وجہ سے اجازت نہ دی۔ وہ خاموشی سے لوٹ گئے۔ ان حسدکے مارے صحافیوں نے ابصار کو ہوش آنے پر بتایا ہی نہیں کہ باجوہ صاحب آئے تھے۔ ‘
’ لیکن ٹویٹ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ باجوہ صاحب نے ابصار عالم کی ان کوششوں کو سراہا جس کی بدولت وہ آرمی چیف بنے۔ ‘ قلندر کا پرسنل سیکریڑی سید اسحاقہ کنجر بولا۔
’ابے گدھے کل تو میرا حکم نامہ لیکر صدر پاکستان کے پاس گیا تھا کہ نتھو چمارکے بیٹے نے میڑک پاس کر لیا ہے اب اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین لگانا ہے۔ تو کیا صدر صاحب نے تجھے شربت نہیں پلایا۔ تجھے تھینک یو نہیں بولا؟ بولا تھا نا؟ ُ
’جی جی شربت کے ساتھ پکوڑے اور سموسے بھی کھلائے تھے۔ اور بہت بہت
شکریہ ادا کیا تھا۔ ‘
’تو گدھے courtesyبھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ باجوہ صاحب بہت منکسر المزاج اور عاجز بندے ہیں اللہ تعالی کے اپنے جنرل ضیاء الحق صاحب کی طرح۔ ہر ایک سے جھک کر ملتے ہیں۔ تو انہوں نے ابصار کا شکریہ اس لئے ادا کیا تھا کہ حکم نامہ بروقت ڈلیور ہو گیاتھا۔ اب ابصار اسے احسان سمجھے تو سمجھے ! چلو فرض کر لو ابصار نے ہی باجوہ صاحب کو آرمی چیف لگوایا۔ تو بڑا انسان احسان تو کسی صورت نہیں جتلاتا۔ابھی ابصار جتنے مرضی چھچھورے ٹائپ کے ٹویٹ کر لے۔ الٹا لٹک جائے۔ جس لمحے اس نے صحافت چھوڑ کر PEMRAکے سربراہ کا عہدہ ،جس کی قابلیت اس کے پاس قطعاً نہ تھی اور اسی وجہ سے عدالت نے اسے نا اہل قرار دیکر گھر بھجوایا ، قبول کیا اسی لمحے وہ نواز شریف کا چمچہ کنفرم ہو گیا تھا۔ اس قسم کی اور بھی مثالیں ہیں۔ بھارت میں ایم جے اکبر بہت بڑا صحافی تھا۔ مودی کا چمچہ بن گیا۔ دھوبی کا کتا بن گیا، نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ صحافی کو صرف صحافی ہی ہونا چاہیے ورنہ credibility دو ٹکے کی نہیں رہتی۔ ‘
’واہ واہ حضور!‘ مریدوں نے نعرہ مستانہ بلند کیا اور دما دم مست قلندر شروع!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔