دو صدی سے جاری لاپتہ افراد کا سلسلہ جتنا طویل ہے اتنی ہی مسائل کی گہرائیوں میں اپنی صفحہ بنا چکی ہے۔ ایک دن میں ایک ہی خاندان کے پانچ لوگ لاپتہ ہوتے ہیں تو کبھی ایک ہی گھر میں پانچ لوگوں کی میت ایک گھر کو سوگوار کرتی ہے۔
سوگواری کو احتجاج کی شکل میں ختم کرنے کے لیے اور حصولِ انصاف کے راہ میں چلنے والے بھی لاپتہ، بات کرنے والے بھی لاپتہ اور احتجاج کی عکس بندی کرنے والا بھی لاپتہ ۔۔۔
اگر کسی کی قسمت میں لفظ لاپتہ بھی نہ ہو تو لفظِ ہراسگی اور دھمکی ضرور اپنی حصہ ڈالتی ہے۔
ملک کے سب سے صوبے میں جاری غیر آئینی اثر و سوخ اور انسانی حقوق پر بات کرنے والے عوام کی نمائندگی کی عمارت میں عوامی نمائندہ لاپتہ افراد کو افغانستان کی سرزمین میں اس طرح ٹریک کرتے تھے جیسا افغانستان کے ادارے کسی ملک کی خودمختاری کو لات مارتے ہوئے لوگوں کو لاپتہ کرکے بلا خوف و خطر، صحیح سلامت لاپتہ کریں اور ایک ایسے نو گو ایریا میں جہاں پرندے کو حاضری نہ لگانے پر اقبالِ جرم کی اقرار کراتے ہوئے عمرِ بھر اسی سرزمین پر پر نہ رکھنے کی سزا و جزا دی جائے۔
عمران خان کی وزیر اعظم ہاؤس بدنصیف اتہ و پتہ رکھنے اور ہراسگی کا شکار ہونے والے کچھ لوگ حاضر ہوئے۔ لاپتہ افراد کو منظرِ عام پر لانے کی بات ہوئی،یقین دہانیاں ہوئیں۔ لواحقین واپس چلے گئے اور آج تک ان کے والد، بھائی بھی دس سال پہلے چلتے بنے اور واپس نہیں آئے۔
البتہ عمران خان نے لاپتہ افرادکا لفظ اپنی ذہنی کتاب میں لکھنے سے انکار نہیں کیا۔
25 سال تک پاکستان کے ایوانوں بلوچستان کے اِن گنت سنگین مسائل کو اپنی بنچ میں کھڑے رہنے والے، اپنے مطالبات کے لیے حکومتوں کو ووٹ دے کر اقتدار میں لانے والے جب اتحادی سے حزبِ اختلاف میں آگئے ایسی ہی ان کے مطالبات بھی یوٹرن لے گئے۔
اختر جان مینگل کے 6 نکات 2021 تک 4 بن گئے۔ بی این پی مینگل کو وزارتیں عطا ہو گئیں اور لاپتہ افراد کا مسئلہ سائنس و ٹیکنالوجی کے کرسی کے نیچے دب گیا۔
اب بلوچستان کے قوم پرست سیاستدانوں کے نئے مطالبات سے خوشحال بلوچستان کے مستقبل کا پلان۔۔
وزیراعظم شہباز شریف بلوچستان کے سرزمین پر خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں لاپتہ افراد کے بازیابی کے لیے بلوچ عوام کے ساتھ مل کر آواز اٹھاؤں گا۔ میں بطور وزیراعظم "طاقتور لوگوں" کے ساتھ اس معاملے کو زیرِ بحث لاؤں گا۔
وزیراعظم کو آئین اختیار دیتا ہے کہ آواز اٹھانے والوں کو انصاف دیں اور آئین کے روح میں مملکت کا بااثر شخصیت ملک کے آئینی سربراہ ہیں جسے اردو میں وزیراعظم کہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کے آواز ایسے کسی کو کیسے واپس لا سکتے ہیں کہ جن کے لیے آواز اٹھانے والوں کی آواز 14 سالوں سے بلوچستان کے ہر گلی،کراچی کے پریس کلب،لاہور کے لبرٹی چوک اور اسلام آباد کے طاقتور ترین ہاؤس کے دیوالوں میں گونج رہی ہے۔
جناب شہباز آخر میں اپنے بلوچی ٹویٹ میں فرما رہے تھے کہ بلوچستان کے ترقی اُس وقت تک بے معنی ہیں جب تک لوگوں کے مسائل حل کے میز پر نہ آجائیں۔
کوئی بلوچ یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ 2022 ماڈل پرانے اور آزاد پاکستان،جمہوری اور آئینی اختیارات کا مکمل ڈھانچہ کونسی "طاقتور لوگ" کی گرفت میں ہے جس سے ملک کا "چیف ایزیکٹئیو" مشورے اور بات کرنے کی خواہش ظاہر کرے۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔