پاکستان کے چار صوبوں اور دو اکائیوں میں سے بلوچستان واحد صوبہ ہے جو طویل عرصے سے حقیقی سیاسی قیادت سے محروم ہے۔ میں نہیں جانتا وہاں آخری بار شفاف انتخابات کب ہوئے تھے، شاید 1970 میں۔ اس کے بعد سے اب تک جب بھی انتخابات ہوتے ہیں ایک تو ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے اور دوسرا ہئیت مقتدرہ اپنی من پسند کٹھ پتلیاں اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھا دیتی ہے۔ یوں بلوچستان کے عوام اپنی حقیقی سیاسی قیادت سے محروم رہتے ہیں۔
8 فروری کو ہونے والے الیکشن تو پورے پاکستان میں ایسے ہی ہوئے۔ یہ شاید پاکستان کی تاریخ کے واحد انتخابات تھے جو منعقد ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہو چکے تھے۔ اس کے بعد 8 فروری کی شام کو جیتنے والے 9 فروری کی شام تک ہار چکے تھے۔ یوں سوائے خیبر پختونخوا کے سندھ، پنجاب، بلوچستان اور وفاق میں فارم 47 کی حکومتوں کو قائم کر دیا گیا۔
اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو وہاں کی حقیقی سیاسی قیادت کو کبھی بھی ہئیت مقتدرہ نے قبول ہی نہیں کیا کیونکہ وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے بات کرتے ہیں اور ہئیت مقتدرہ کے اشاروں پر ناچنے والے سیاست دانوں جیسے انوار الحق کاکڑ کو انعام کے طور پر نگران وزیر اعظم اور اب سرفراز بگٹی کو وزیر اعلیٰ بلوچستان لگا دیا گیا ہے۔ یہی انوار الحق کاکڑ جب نگران وزیر اعظم بن کر ہئیت مقتدرہ کے اشاروں پر ناچنے میں مصروف تھا اس وقت بلوچستان کی حقیقی سیاسی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ انوار الحق میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ ان کے دھرنے میں جا کر ان کی دادرسی کر سکتا کیونکہ یہ لوگ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بیٹھے تھے اور انوار الحق کاکڑ اپنے آقاؤں کو کیسے ناراض کر سکتا تھا؟ ظاہر ہے وہی تو ان سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کے ذمے دار ہیں۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ قوم کا پاکستان کے پارلیمانی انتخابات سے اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ یہ لوگ عام انتخابات میں حصہ نہیں لیتے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اقتدار میں آنے اور طاقت میں آنے میں بہت فرق ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اقتدار میں تو آ جاتی ییں مگر ان کے پاس اختیارات نہیں ہوتے۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ آج کل ناروے میں ہیں۔ وہاں انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سامنے وہ بلوچستان میں ہونے والی جبری گمشدگیوں کا مقدمہ عالمی سطح پر اٹھا رہی ہیں۔ ہمارے کچھ پنجابی پیارے ڈاکٹر صاحبہ پر سوشل میڈیا پر تنقید کر رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ اب ان کو ناروے سے فنڈ مل جائے گا اور پاکستان آ کر وہ ایک بڑی این جی او بنا لیں گی۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والے پنجابی مزدوروں کے قتل عام پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کبھی آواز نہیں اٹھائی۔
جہاں تک بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے قتل عام کے واقعات ہیں ان میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مزدور بلوچستان کا ہو، پنجاب کا، سندھ کا، خیبر پختونخوا کا، کشمیر کا یا پھر گلگت بلتسان کا؛ وہ بے چارہ مظلوم ہوتا ہے۔ پورے پاکستان کے پسے ہوئے طبقے کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت یہ طبقاتی نظام نچلے طبقے کا استحصال کر رہا ہے۔ اگر بلوچستان کی حقیقی سیاسی قیادت اقتدار میں ہوتی تو وہ پنجابی مزدوروں کے قتل عام جیسے واقعات روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی تھی۔ موجودہ بلوچ کٹھ پتلی حکومت یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جب لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھیں تب انہوں نے بلوچستان میں پنجابی مزردوں کے قتل عام کے واقعات کی مذمت کی تھی۔ میرے خیال میں ان پر پنجابی پیاروں کے اعتراضات غلط فہمی کی وجہ سے لگتے ہیں۔ اگر پنجابی پیارے دانشور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے مکالمہ کریں تو غلط فہمی ختم ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پوری دنیا میں پاکستان کا روشن خیال اور ترقی پسند چہرہ بن چکی ہیں۔ وہ ناصرف انسانی حقوق کی توانا آواز ہیں بلکہ بلوچستان کی حقیقی سیاسی لیڈر بھی ہیں۔ پاکستان کے تمام صوبوں اور اکائیوں میں بسنے والوں کو لاپتہ افراد کے معاملے پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی آواز میں آواز ملانی چاہیے۔ یہ سلسلہ اب صرف بلوچستان تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے پاکستان میں پھیل رہا ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاعر احمد فرہاد بھی لاپتہ ہیں۔ پنجاب کے معروف صحافی عمران ریاض چار ماہ تک لاپتہ رہے۔ سندھی، پختون قوم پرستوں اور متحدہ قومی موومنٹ کے سیاسی کارکنوں کو بھی لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بظاہر بلوچ لاپتہ افراد کی بات کر رہی ہیں مگر یہ مسئلہ پورے پاکستان کا ہے۔