چوہدری پرویز الہٰی کی دو مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور

چوہدری پرویز الہٰی کی دو مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور
لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی دو مقدمات میں 4 مئی اور 15 مئی تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔

چوہدری پرویز الہٰی انسداد دہشتگردی اور اینٹی کرپشن کے مقدمے میں ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ پیش ہوئے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے چوہدری پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی۔ سابق وزیر اعلی پنجاب اور تحریک انصاف کے صدر پرویز الہی اینٹی کرپشن گوجرنوالہ میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کیلئے لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔

وکیل پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ اینٹی کرپشن کے مقدمے میں حفاظتی ضمانت ہائی کورٹ سے منظور ہوئی۔ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ کوئی اور نیا مقدمہ درج ہوا ہےتو اس کےلیے حفاظتی ضمانت دوبارہ دائر کریں۔

عدالت نے پرویز الہٰی کی حفاظتی ضمانت 15 مئی تک منظور کرتے ہوئے انہیں متعلقہ عدالت سےرجوع کرنے کی ہدایت کردی۔

لاہور ہائیکورٹ نے انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں بھی پرویز الہٰی کی 2 دن کی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ پرسوں تک ضمانت کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کرلیں۔

قبل ازیں ایک اور درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعلی پنجاب پرویز الہی کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے پرویز الہی کی رہائش گاہ پر پولیس اور اینٹی کرپشن کے آپریشن کے خلاف ان کے بیٹے راسخ الہی کی درخواست پر سماعت کی جس میں ان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ  پولیس اور اینٹی کرپشن کی جانب سے روز چھاپے مارے جار رہے ہیں۔ ہر روز نئی ایف آئی آر درج کرکے ریڈ کر دیا جاتا ہے۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ تفصیلی رپورٹ پیش ہونے تک حکام کو پرویز الہٰی کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف نیا مقدمہ درج کرنے سے روکا جائے۔تاہم عدالت نے درخواست مسترد کردی۔

جسٹس سرفراز ڈوگر نے استفسار کیا کہ عدالت کس قانون کے تحت گرفتاری سے روک سکتی ہے؟جب تک رپورٹ پیش نہیں کی جاتی ہم آپ کی بات کو کیسے مان سکتے ہیں؟

وکیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات گجرات میں پرویز الٰہی کے گھر پر ایک اور چھاپہ مارا گیا۔

بعدازاں عدالت نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) ڈائریکٹر جنرل سہیل ظفر چٹھہ کو سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے گھر پر مارے گئے چھاپے سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا اور دونوں کو قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی ہدایت کی۔

کیس میں چیف سیکریٹری کے ذریعے حکومت پنجاب، پنجاب کے اے سی ای کے ڈائریکٹر جنرل اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، لاہور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور ماڈل ٹاؤن کے سپرنٹنڈنٹ کو فریق بنایا گیا۔

پرویزالہٰی کے دوسرے بیٹے مونس الہٰی کے مطابق گجرات کے کنجاہ ہاؤس پر حکام کی جانب سے ایک اور چھاپہ مارے جانے کے چند گھنٹے بعد یہ پیش رفت ہوئی۔

انہوں نے آج ایک ٹوئٹ کر کے بتایا کہ پنجاب پولیس نے گجرات کے کنجاہ ہاؤس پر ایک بار پھر چھاپہ مارا۔مجھے ان لوگوں کو رسائی دینے کا کہا گیا لیکن ان کے پاس اب بھی سرچ وارنٹ نہیں تھے۔

واضح رہے کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ اور پولیس نے جمعہ کی رات گئے پرویز الہٰی کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔

اس حوالے سے عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ پرویز الہٰی کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دائر مقدمے میں 27 اپریل کو عبوری ضمانت دی گئی تھی۔

عدالت کے واضح احکامات کے باوجود فریقین نے 28 اپریل کو ’3 سو سے 4 سو پولیس اہلکاروں کے ساتھ‘ درخواست گزار کے گھر پر چھاپہ مارا اور بکتر بند گاڑی سے مین گیٹ توڑ دیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ اہلکار بغیر کسی سرچ وارنٹ کے داخل ہوئے اور ’س طرح پرتشدد انداز اختیار کیا گیا جیسے وزیرستان یا پنجاب کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کیا جا رہا ہو‘۔

اس میں مزید کہا گیا کہ پورے چھاپہ مار کارروائی کو میڈیا نے نشر کیا جس سے عوام میں بڑے پیمانے پر ’خوف کا احساس‘ پیدا ہوا اور کم از کم 30 ملازمین کو گرفتار بھی کیا گیا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار کے گھر پر چھاپے بغیر کسی قانونی اختیار کے مارے گئے اور اس لیے غیر قانونی تھے۔

درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ چھاپے حکمران جماعتوں کے حکم پر سیاسی انتقام کی خاطر ’بد نیتی اور مذموم مقاصد‘ کے ساتھ مارے گئے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ درخواست گزار کے والد کو گرفتار کرنے کے مقصد سے ان کے گھر پر چھاپے (قانون) کی دفعات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارے گئے کیونکہ مدعا علیہان درخواست گزار کے والد کی ضمانت منظور ہونے کے سبب ان کو 6 مئی تک گرفتار کرنے کے اہل نہیں تھے۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ 28 اپریل کے چھاپے کو قانون اور درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔

عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ ظہور الہٰی روڈ کو ’پولیس کے غیر قانونی قبضے‘ سے خالی کرانے کا حکم صادر کرے اور مدعا علیہان کو درخواست گزار کا گھر خالی کرنے کی ہدایت کرے۔

ساتھ ہی یہ استدعا بھی کی گئی کہ حکام کو درخواست گزار کے گھر پر چھاپہ مارنے اور درخواست کا فیصلہ ہونے تک پرویز الہٰی کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنے سے روکے۔

پرویز الہٰی کی لاہور  کی رہائش گاہ پر چھاپہ

جمعہ کی رات دیر گئے اے سی ای اور پولیس حکام نے لاہور میں الٰہی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا۔ چھاپہ مار ٹیم نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی گلبرگ رہائش گاہ کا مین گیٹ توڑنے کے لیے بکتر بند گاڑی کا استعمال کیا اور گھر سے 12 افراد کو گرفتار کر لیا جن میں زیادہ تر ان کے ملازمین تھے۔ اس میں خواتین پولیس اہلکاروں نے کچھ خواتین کو بھی حراست میں لیا تھا۔

پولیس اہلکاروں نے گھر کی اچھی طرح تلاشی لی لیکن پرویز الہٰی نہ ملے۔انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی ملحقہ رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش بھی کی تاہم ان کے بیٹوں نے ٹیم کی مزاحمت کی۔

سرچ آپریشن ہفتے کی رات گئے کم از کم 2 بجے تک جاری رہا اور پولیس پرویز الہٰی پر ہاتھ ڈالنے میں ناکام رہی۔ جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ گھر میں نہیں تھے۔

اس کے بعد پنجاب پولیس نے اے سی ای اہلکاروں پر مبینہ طور پر حملہ کرنے کے الزام میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور دیگر کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا۔

حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔ آج کل بطور پولیٹیکل رپورٹر ایک بڑے نجی میڈیا گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔