طالبان کا جھنڈا لہرانے پر مولانا فضل الرحمان کا ردعمل

طالبان کا جھنڈا لہرانے پر مولانا فضل الرحمان کا ردعمل

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ان کے ’آزادی مارچ‘ کے شرکا کی تعداد کل تک مزید بڑھے گی اور اگر حکومت نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ نہ مانا تو معاملات خطرات کی طرف جا سکتے ہیں۔


اردو نیوز کو دئیے گئے انٹریو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت نے بات نہ مانی تو معاملات خطرات کی طرف جا سکتے ہیں۔


جب ان سے اسلام آباد میں ان کے مارچ میں افغان طالبان کے جھنڈوں کی موجودگی کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو اسلام آباد میں صدارتی پروٹوکول دیا گیا تو ان کے جلسے میں ایک غریب افغانی کے آنے سے کونسی قیامت ٹوٹ پڑی؟


’کیا طالبان کا استقبالیہ نہیں کرتے یہاں پاکستان میں؟ ان کو اس دفعہ یہاں ان (افغان طالبان وفد) کو صدارتی پروٹوکول دیا گیا ہے۔‘


اس کے علاوہ انہوں نے امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے بھی افغان طالبان کو پروٹوکول دینے کا ذکر کیا۔ ’امریکہ ان کو پروٹوکول نہیں دے رہا ہے؟ روس میں ان کا استقبال نہیں ہو رہا؟ اگر ایک غریب افغانی یہاں آگیا اور جھنڈا بھی لے آیا ( تو کیا ہوا)؟‘


جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کے طالبان کی تنظیم کے سیاسی موقف کی تو ہم پہلے ہی تائید کر رہے ہیں۔ گو کہ ہم اس ملک کے نہیں ہیں ان کی حکمت عملی کے ساتھ ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن دنیا میں جس طرح ہم فلسطینیوں کے موقف کی یہاں سے حمایت کرتے ہیں یہاں عراق میں اور لیبیا میں ہم سپورٹ کرتے ہیں، یہاں بھی ہمارا اسی طرح کا موقف رہا ہے۔‘


اداروں کو دیے گئے دو دن کے الٹی میٹم کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اداروں کے ساتھ تصادم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


’اداروں کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ غیر جمہوری حکومت کو ہم پر مسلط نہیں رہنا چاہیے اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔‘


دوسری جانب اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ رہبر کمیٹی کے آج کے ہونے والے اجلاس میں 'آگے کے لائحہ عمل کے لیے اجتماعی استعفے زیر غور آئے ہیں'۔


اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم خان درانی نے کہا ہے کہ وزیر دفاع اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ’پرویز خٹک نے کہا ہے کہ استعفوں پربات نہیں ہوسکتی، تو ہمارا پہلا مطالبہ ہی استعفی ہے۔‘

اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئے انتخابات کے لیے اپوزیشن کا اتفاق رائے برقرار ہے۔

 اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی کور کمیٹی اجلاس کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ قبل از وقت انتخابات نہیں ہونگے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کےساتھ رابطے کے دروازے کھلے ہیں، تاہم وزیر اعظم کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہوگی۔

وزیر دفاع پرویز خٹک حو حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں کا کہنا ہے کہ امید ہے اپوزیشن معاہدہ کی پاسداری کرے گی، اگر جے یو آئی معاہدے سے ہٹی تو انتظامیہ ایکشن لے گی۔

مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنے کا ذکر کرتے ہوئے پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان اتنا کمزور ملک نہیں ہے کہ چالیس پچاس ہزار لوگ آ کر نظام الٹا دیں۔

خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہوا تھا جو سکھر، ملتان، لاہور اور گجرانوالہ سے ہوتا ہوا 31 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچا۔

مارچ کے شرکاء نے پشاور موڑ پر ایچ 9 گراؤنڈ میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور یکم نومبر کو آزادی مارچ سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ کے لیے اتوار تک کی مہلت دی ہے۔