دو نومبر کو دنیا بھر میں سچ کو سچ لکھنے والے اور جھوٹ کا قلع قمع کرنے والے صحافیوں کے خلاف جرائم سے تحفظ کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو کہ 2013 سے اقوام متحدہ منارہی ہے ۔
اس تاریخ کا انتخاب 2 نومبر 2013 کو دو فرانسیسی صحافیوں کی یاد میں کیا گیا جن کو مالی میں قتل کر دیا گیا تھا۔اس دن کا مقصد، دنیا میں صحافیوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور ریاست کو ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کی تاکید ہے۔
2013 سے ہر سال اس دن کوپوری دنیا میں منایا جاتا ہے. جس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ دنیا کو دکھایا جائے کہ صحافت کسی دباؤ کے تحت آزادانہ طور پر ذمہ داریاں پوری کرنے کا نام ہے مگر صحافت کہیں پر بھی آزاد نہیں ۔ ہر سال صحافی زیر عتاب آتے ہیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ سچ لکھنا آج کے دور میں ایک مشکل ترین امر بن گیا ہے اور اس سچ لکھنے کی پاداش میں گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں ایک ہزار سے زائد صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھےہیں۔ی ورپ سمیت جنوبی ایشیا میں صحافی کا قلم آزاد نہیں۔ وہاں ہولوکاسٹ پر لکھنا جرم ہے تو یہاں پاکستان میں سیکورٹی فورسز سمیت عدلیہ پر لکھنا شجر ممنوعہ کے مترادف ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اُن ممالک میں شامل ہوگیا ہے جہاں پر صحافت کرنے کو خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔
جب سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2000سے شامل ہوا ہے تب سے پاکستان میں 60 صحافیوں کو ٹارگٹ کرکے جبکہ 30 کو کام کے دوران قتل کیا گیا۔ 171 کو شدید جبکہ 77 کو معمولی زخمی کیا گیا۔ 26 صحافیوں کو اغوا جبکہ 26کو حراست میں لیا گیا۔ میڈیا ہاؤسز پر حملہ کئے گئے درجنوں صحافیوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ اُس وقت سے لیکر اب تک 700 کے قریب تشدد کے واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ کسی بھی صحافی کا قاتل نہ گرفتار کیا گیا نہ اُن کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی جن اداروں نے صحافیوں کو ٹارچر کیا انہیں کچھ عرصہ کے لئے شمالی علاقہ جات کی سیر کرائی اُن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور نہ ہی کوئی ایکشن مستقبل میں اُٹھانے کا کوئی ارادہ ہے ۔ البتہ ان صحافیوں کو سچ لکھنے سے روکنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں انہیں مختلف طریقوں سے ٹارچر کیا جاتا ہے۔
دنیا کے ہر کونے میں سچ لکھنے اور آزادانہ صحافت کے بارے میں ادارے بات کرتے ہیں مگر عملی طور پر صحافت پر قدغنیں ہیں سعودی صحافی کے قاتلوں کا ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ جس کو بے دردی سے قتل کر دیا گیاتھا۔ مطیع اللہ جان کو آغوا کر نے والوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔وطن عزیز میں صحافی کو اگر ایک طرف میڈیا مالکان کے استحصال کا سامنا ہے تو دوسری طرف وہ ایسی کوئی خبر نہیں چھاپ سکتے جو اداروں کے خلاف ہو ۔ احمد نورانی نے ایک خبر شائع کی جس کو پھر غدار ثابت کرنے کے لئے اتنی کوشش کی گئی اور ایک بیانیہ سامنے لایا گیا کہ کچھ صحافی ملک دشمن عناصر کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور اپنے وطن کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔اس مقصد کے لئے حکومت نے بہتیرا کوششوں میں لگی ہے کہ نئے قوانین سامنے لائے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں صحافیوں کو سچ لکھنے سے ہر جگہ کوشش کی جارہی ہے کہ وہ کرپشن، حقائق کو لوگوں کے سامنے نہ لائیں اس لئے نت نئے صحافتی قوانین لائے جاتے ہیں کہ صحافت اور صحافیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ سچ لکھنے سے باز آجائیں۔ مگر نہ کبھی کسی نے سچ کو روکا ہے اور نہ کوئی روک سکتا ہے۔ اب عوام میں سیٹیزن جرنلزم نے اتنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں اور اس کوعوام میں اتنی مقبولیت حاصل ہوگئی ہے کہ اب سچ سات پردوں میں بھی نہیں چھپ سکتا۔ جو بھی واقعہ ہوتا ہے وہ اُسی وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتا ہے اور یوں سچ کا بول بالا ہوجاتا ہے۔ تو یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ صحافیوں کو اگرچہ سچائی سے روکا جاتا ہے مگر سچ پھر بھی سچ ہے وہ سامنے آکر ہی رہتا ہے۔ جب کہ موجودہ دور میں سچ کو روکنا ناممکن ہوگیا ہے۔
مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔