سوچتا ہوں کہ دنیا کس طرف جا رہی ہے اور ایک ہم ہیں جو لا حاصل بحث میں الجھے رہتے ہیں اور اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ پچھلے پندرہ دن سے برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ہوں اور اپنے ملک کا اس ملک کا موازنہ کر رہا ہوں ،یہاں زندگی بہت مختلف ہے ہر آدمی کام کرتا ہے، عورت اور مرد کا فرق ختم کر دیا گیا ہے، نہ کوئی عورت کے حقوق کی بات کرتا ہے، نہ ہی کسی اور نا انصافی کی ،کیونکہ فلاحی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی ساری سماجی نا انصافیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
مرد اور عورت دونوں کام کرتے ہیں، اپنا کماتے ہیں اپنا کھاتے ہیں۔ دونوں معاشی طور پر خود مختار ہیں اس لیے اپنے فیصلے خود کرتے ہیں، لہذا کسی امتیازی سلوک کی توقع ہی نہیں۔ لوگ ہفتے میں پانچ دن اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں اور انکو اپنی محنت کا معاوضہ بھی اچھا ملتا ہے۔ ویک اینڈ پر خوب ہلاگلا ہوتا ہے کوئی کسی کی طرف نہیں دیکھتا، کس عورت نے کیسا لباس زیبِ تن کیا ہوا ہے ،کون کس مذہب سے ہے، کس کا کیا عقیدہ ہے۔
ہر کسی کے پاس مساوی مواقع ہیں کہ اپنی محنت کا معاوضہ لو اور ویک اینڈ انجوائے کرو ،لوگ فٹبال کرکٹ بہت شوق سے دیکھتے ہیں، سنیما گھروں میں جاتے ہیں، تھیٹروں میں جاتے ہیں، گریٹ ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے دیکھتے ہیں، جبکہ حقیقی معنوں میں ایک سیکولر ریاست اور سیکولر معاشرے صورت ادھر عملی طور موجود ہے۔
اکثریت کا مذہب مسیحی ہے، گرجے گھروں میں عبادت ہوتی ہے، اسکے علاہ مساجد، مندر، گردوارے، بدھ مت اور یہودیوں کے عبادت خانے بھی آباد ہیں۔ لندن میں ہر نسل اور مذہب کے پیروکار آباد ہیں اور اپنی زندگی آزادی کے ساتھ بسر کر رہے ہیں۔
دوسری طرف جب وطن عزیز کی طرف دیکھتا ہوں تو وہی مذہبی انتہا پسندی، وہی عدم برداشت کی روایت فروغ پاتی نظر آرہی ہے۔ آخر ہم جدید دنیا کے ساتھ کیوں نہیں چلنا چاہتے؟ پھر وہی تحریک لبیک ہے اور پھر وہی پر تشدد کاروائیوں ہیں۔ جب چند ماہ قبل یہ سب تحریک لبیک نے کیا تھا تب میں ایک ویب ٹی وی چینل کے لیے وقائے نگاری کرتا تھا، میں نے لاہور ملتان روڈ پر جہاں ان کا مرکز ہے وہاں پر انکو بھگت چکا ہوں۔ میرے اور کیمرہ مین کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا وہ آج بھی یاد ہے۔ اگر ان کا ایک مرکزی رہنما نہ آتا جو میرا واقف تھا شاید بہت کچھ ہو جاتا ،مگر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آخر کب تک یہ سب چلتا رہے گا؟
تحریک لبیک کب تک یوں بے لگام رہے گی ریاست کی رٹ کب تک تماشا بنتی رہے گی، تحریک لبیک والے جس عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر نکلے اور بالآخر اس کا ڈراپ سین ہو گیا ہے۔ معاہدے کے تحت فرانسیسی سفیر کی واپسی کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے اور مولوی سعد رضوی پر تمام مقدمات ختم کرنے، جو عدالتوں میں زیر سماعت نہیں اور پر تشدد کاروائیوں میں ملوث گرفتار کارکنوں کی رہائی پر بات ختم ہو جاتی ہے۔
پولیس والے مارے گئے، ان کے اپنے کارکن مارے گئے، انکی موت کس کس کے سر پر ہوگی؟ کوئی اس بات کا جواب دہ نہیں۔ بس یہی دکھ ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں اور جدید دنیا کہاں جا رہی ہے۔
حرف آخر دریائے ٹیمز کے کنارے کھڑا ہی سوچتا رہا اور ٹمیز کی روانی میں روای کی ویرانی کو یاد کرتا رہا کہ ایک یہ ہیں جنہوں نے اپنے دریا آباد رکھے اور اپنی تاریخ کو محفوظ کر لیا ایک ہم ہیں جنہوں نے دریا بھی اجاڑ دہے اور تاریخ بھی مسخ کر دی ،ایک وہ ہیں جن کو تصویر بنانا آگئی ،ایک ہم ہیں جنہوں نے اپنی صورت ہی بگاڑ لی۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔