بڑھتی مذہبی انتہا پسندی نے پورے پاکستان کو ایک 'جڑانوالہ' بنا دیا ہے

اس صدی کے گذشتہ 23 سالوں کی چار اسمبلیوں نے ہر اس قانون کو پوری تندہی سے منظور کیا کہ جس نے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے لئے حالات مخدوش کئے اور ہر ایسی قانون سازی کا راستہ روکا جو مذہبی اقلیتوں کے مسائل کم کر سکنے میں مددگار ہو سکتی تھی۔ لہٰذا ملک کی اقلیتی آبادی بالخصوص اور عام عوام بالعموم مذہبی اور سیاسی لیڈروں کے بیانات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

بڑھتی مذہبی انتہا پسندی نے پورے پاکستان کو ایک 'جڑانوالہ' بنا دیا ہے

ضلع فیصل آباد کے شہر جڑانوالہ میں مسلمان ہجوم نے نبی اللہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ماننے والے مسیحیوں کے 5 عبادت خانے (چرچ) جلا دیے ہیں اور مسیحیوں کی کئی درجن املاک کو لوٹا اور انہیں نقصان پہنچایا ہے۔ پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق شہر کے سنیما چوک پر دو مسیحی لڑکوں کو مقدسات اسلام کی توہین کا مرتکب پایا گیا جس کے بعد پولیس نے ایکشن لیا وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ شہر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی جس کے بعد ہزاروں لوگوں نے مسیحیوں پر تشدد کیا۔ شہر میں حالات کشیدہ ہیں اور رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہریوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

سال 2021 میں 6 ماہ کی مدت تک کالعدم رہنے والی مذہبی تنظیم ٹی ایل پی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت متحرک رہی اور ایسا تاثر دیا گیا کہ تنظیم نے لوگوں کو پرامن رہنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس حد تک تاثر دیا گیا کہ ضلع کے ڈی سی اور ایس ایس پی آپریشنز کو تنظیم کے نمائندوں نے اپنے ساتھ کھڑا کر کے بیانات جاری کرائے۔ حالانکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے جانتے ہیں (بعد ازاں ہونے والی کافی گرفتاریوں سے بھی یہ بات ثابت ہو گی) کہ 'گستاخ کی سزا، سر تن سے جدا' کا نعرہ بھی اسی تنظیم کا ماٹو ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں اس خبر کو سارا دن بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل رہا۔ جبکہ ملک کے اندر بھی اس ظالمانہ اقدام کی مذمت کی گئی۔ مریم نواز صاحبہ کے لئے ایسے حملے ناقابل قبول ہیں۔ نگران وزیر اعظم کو جڑانوالہ کے مناظر نے دہلا دیا اور بلاول بھٹو کو لرزا دیا۔ جبکہ سابق وزیر اعظم شہباز شریف کا سر شرم سے جھکا دیا۔ راقم پُر یقین ہے کہ اسی طرح کے بیانات دیگر سیاسی اور مذہبی قائدین نے بھی دیے ہوں گے جو باوجوہ میڈیا پر نہ آ سکے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔

مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ ہوئے کسی بھی ظلم و زیادتی کے بعد ملک کی اعلیٰ مذہبی و سیاسی لیڈرشپ کے بیانات (مثبت، منفی، حمایت میں، یا خلاف) کی حیثیت ردی کے ٹکڑے برابر بھی نہیں ہوتی۔ یہ بیانات صرف الفاظ کا زیاں اور میڈیا پر اپنا نام درج کرانے کے سِوا کچھ بھی نہیں ہوتے۔ کیونکہ پاکستان کی ساری مذہبی اور سیاسی لیڈرشپ کے لئے پاکستان کی مذہبی اقلیتیں رتی برابر اہمیت نہیں رکھتیں۔ اس صدی کے گذشتہ 23 سالوں کی چار اسمبلیوں نے ہر اس قانون کو پوری تندہی سے منظور کیا کہ جس نے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے لئے حالات مخدوش کئے اور ہر ایسی قانون سازی کا راستہ روکا جو مذہبی اقلیتوں کے مسائل کم کر سکنے میں مددگار ہو سکتی تھی۔ لہٰذا ملک کی اقلیتی آبادی بالخصوص اور عام عوام بالعموم مذہبی اور سیاسی لیڈروں کے بیانات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

دوسری طرف اگر ملکی قوانین کو دیکھا جائے تو کاغذ پر لکھی تحریر کی حد تک تو بہت فینسی اور اقلیت دوستانہ قوانین کی بھرمار ہے جبکہ حقیقی زندگی میں ان قوانین کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ گذشتہ 23 سالوں میں اقلیتوں کے ساتھ گزرے ہر سانحے کے بعد سخت قوانین بنانے اور ان پر حقیقی عمل درآمد کرانے کے بلند بانگ دعوے کئے گئے مگر معاملہ رات گئی بات گئی تک محدود رہا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بین المذاہب منافرت اور فرقہ وارانہ تشدد نے اس ملک کو ایک بہت بڑا جڑانوالہ بنا دیا ہے کہ جس میں کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو مذہبی بنیاد پر قتل کر سکتا ہے اور پرتشدد ہجوم آبادیوں اور عبادت گاہوں کو جلا سکتا ہے۔ مگر کوئی بھی اس منافرانہ تقسیم کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا۔

راقم گذارش کرتا ہے کہ کور کمانڈر لاہور کے جلے گھر کی طرح جڑانوالہ کے ان جلے چرچوں کو بھی اسی حالت میں محفوظ کر کے پاکستان کے شہریوں کو دکھایا جائے کہ سیاسی اور مذہبی فسطائیت نے اس ملک کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔