ساہیوال؛ بین المذاہب ہم آہنگی پر مکالمہ، رواداری کے فروغ پر اتفاق کیا گیا

تقریب میں باہمی تعاون کے ماحول کی اہمیت پر زور دیا گیا جہاں مذہبی رہنما، مقامی حکومتی اہلکار اور مقامی کمیونٹیز مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔ شرکا نے متحد ہو کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

ساہیوال؛ بین المذاہب ہم آہنگی پر مکالمہ، رواداری کے فروغ پر اتفاق کیا گیا

لودھراں پائلٹ پروجیکٹ، آواز دو کے زیرِ اہتمام عالمی بین المذاہب ہم آہنگی ہفتہ منانے کے لیے ضلعی سطح پر ساہیوال میں مکالمے کا انعقاد کیا گیا جس میں مذہبی رہنماؤں، سماجی تنظیموں کے نمائندوں، آواز دو ویلج فورم اور ضلعی فورم کے اراکین، کمیونٹی ممبران، میثاق سنٹر کے افسران اور ساہیوال پریس کلب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ 

ساہیوال چرچ کونسل سے بشپ ابراہیم عظیم ڈینیل نے اپنے پیغام میں کہا کہ یسوع مسیح نے انسانیت سے محبت کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینا ہو گا۔ انہوں نے ساہیوال میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں پر روشنی ڈالی اور حالیہ 6/11 ایل ہڑپہ میں پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں بتایا کہ وہاں انہوں نے علاقے میں ہونے والے مسلم اور کرسچن کمیونٹی کے درمیان تنازعہ کو صلح اور پر امن طریقے سے حل کروایا۔

شیخ نعمان آصف، ممبر امن کمیٹی نے ضلعی فورم کی جانب سے اقلیتی برادری کے مسائل کو ضلعی سطح پر اجاگر کرنے کے حوالے سے بتایا کہ ساہیوال میں مسیحی کمیونٹی کے قبرستانوں کے راستے اور جگہ کے مسائل کو ضلعی انتظامیہ کے سامنے اجاگر کیا گیا۔ اب اس پر کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے اور عنقریب مسیحی کمیونٹی کا دیرینہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ انہوں نے مسیحی کمیونٹی کے یونین کونسل میں نکاح کے اندارج کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا جس پر کوششیں جاری ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

کیتھولک چرچ سے بابو آصف نے کہا کہ دنیا کے تمام مذاہب ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کے احترام کا درس دیتے ہیں۔ معاشرے میں امن کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ تمام عقائد کے حامی لوگ رواداری، امن، صبر اور بین المذاہب ہم آہنگی کی حکمت عملی پر غور کریں۔

محمد جلیل بٹ کا کہنا تھا کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے جس میں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے حقوق کا بھی بتایا گیا ہے۔ پاکستان میں اقلیتی مذاہب کے لوگوں کو ان کے حقوق دینا ریاست پاکستان کی ذمہ داری بھی ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے کہ ہم تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ انصاف اور یکساں سلوک کریں۔ یہ ذمہ داری ہمارے مذہبی اداروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اداروں سے بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام دیں۔

میثاق سنٹر کے آفیسر عظیم نے بتایا کہ جڑانوالا واقعہ کے بعد ڈسٹرک پولیس آفس میں مذکورہ سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں پر مسیحی برادری کی شکایات کا اندراج کیا جاتا ہے اور ان کا ازالہ کیا جاتا ہے۔ اب تک سات سو سے زائد شکایات کو حل کیا جا چکا ہے۔

سعدیہ مظہر نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے میڈیا کے اداروں کو بھی ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا کہ جو خبر ان کے پاس آتی ہے اسے پہلے تصدیق کریں، پھر اسے دیگر افراد تک پہنچایا جائے۔

تقریب سے سالویشن آرمی سے پادری فرحان، میڈم نجمہ، ایلڈر دلبر جانی، سیلم کاٹھیا اور دیگر شرکا نے بھی خطاب کیا۔

تقریب میں باہمی تعاون کے ماحول کی اہمیت پر زور دیا گیا جہاں مذہبی رہنما، مقامی حکومتی اہلکار اور مقامی کمیونٹیز مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔ مکالمے کے شرکا نے بین المذاہب افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کے حصول میں متحد ہو کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور اس حوالے سے ایک قرارداد بھی منطور کی گئی۔

سرور حسین سکندر کا تعلق سکردو کے علاقے مہدی آباد سے ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس سی کر چکے ہیں اور گزشتہ آٹھ سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سرور مختلف سماجی مسائل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس تحریر کرتے رہتے ہیں۔