مذہبی ہم آہنگی کے لیے مخصوص عالمی ہفتہ کیا تبدیلی لا سکتا ہے؟

امن اور عدم تشدد کی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے ہفتہ برائے عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور اُردن کے شاہ عبداللہ دوئم نے 23 ستمبر 2010 کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جسے اقوامِ متحدہ نے 20 اکتوبر 2010 کو منظور کر لیا اور یوں عالمی سطح پر بین العقیدہ ہم آہنگی کی کوششوں کو فروغ ملنے لگا۔

مذہبی ہم آہنگی کے لیے مخصوص عالمی ہفتہ کیا تبدیلی لا سکتا ہے؟

عالمی سطح پر مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے یکم تا 7 فروری تک سالانہ سات دن خصوصی طور پر مقرر کیے گئے ہیں جن کا مقصد معاشرے میں بڑھتی مذہبی عدم مساوات، عدم رواداری، عدم برداشت، تشدد، نفرت اور تعصبات کا خاتمہ کرنا اور قبولیت، محبت، ہم آہنگی کی ثقافت اور باہمی معاشرتی اقدار کو فروغ دینا ہے۔

امن اور عدم تشدد کی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے ہفتہ برائے عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور اُردن کے شاہ عبداللہ دوم نے 23 ستمبر 2010 کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جسے اقوامِ متحدہ نے محض ایک ماہ بعد ہی 20 اکتوبر 2010 کو متفقہ طور پر منظور کر لیا اور یوں عالمی سطح پر بین العقیدہ ہم آہنگی کی کوششوں کو فروغ ملنے لگا۔

تاریخی طور پر دنیا بھر کے مذہبی رہنما پہلی بار 1893 میں شکاگو میں ورلڈ پارلیمنٹ آف ریلیجنز میں شریک ہوئے جسے آج کے کارکنان مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد اور آغاز قرار دیتے ہیں۔

بین المذاہب ہفتہ کا مقصد ہر سطح پر بامعنی اور قابل قدر تعلقات کی ثقافت اور روایت کو مضبوط بنانا اور فروغ دینا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ہر سال اس ہفتہ کے لئے ایک موضوع بھی مقرر کرتی ہے لہٰذا اس سال کا موضوع 'میری زندگی، میرا مذہب' منتخب کیا گیا ہے۔

بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ کے لئے درج ذیل اصول مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد تصور کیے جاتے ہیں؛

بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمے کا مقصد عقیدے کی تبلیغ یا تبدیلی مذہب نہیں ہے۔

سخت مذہبی مؤقف اور مفروضوں سے اجتناب کیا جائے۔

مذہبی تعلیمات اور تصورات پر سوال جواب اور مباحثہ نہ کیا جائے۔

مذاہب کی مقدس ہستیوں، دستاویزات، تصورات اور تعلیمات کی تضحیک نہ کی جائے۔

دیگرعقائد کو سمجھا جائے، ان کا احترام کیا جائے اور انہیں قبول کیا جائے۔

عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کا ہفتہ مذہبی رواداری اور خیرسگالی کے فروغ کے لیے کارکنان کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے کہ جہاں وہ دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ وہ عدم رواداری کے رحجانات کے خلاف منظم، متحرک اور متحد آواز ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ہر سطح پر اور ہر معاشرے میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم، ہم آہنگی اور تعاون کو بڑھانے کے لیے مکالمے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے، اسی ضمن میں 2010 میں ہفتہ برائے فروغِ مذہبی ہم آہنگی کے آغازسے قبل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد دستاویزات اور قراردادیں انہی کوششوں کی کڑی ہیں جن میں قابلِ ذکر درجِ ذیل ہیں؛

4 نومبر 2002 کو امن اور عدم تشدد کی ثقافت کے فروغ سے متعلق قرار داد، 19 دسمبر 2003 کو مذہبی اور ثقافتی افہام و تفہیم، ہم آہنگی اور تعاون کے فروغ پر قرارداد، 20 اکتوبر 2005 کو تہذیبوں کے درمیان مکالمے کے عالمی ایجنڈے پر قرارداد، 10 نومبر 2009 کو تہذیبوں کے اتحاد پر قرارداد، 7 دسمبر 2009 کو بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کے فروغ، امن کے لیے افہام و تفہیم اور تعاون کی قراداد جبکہ 18 دسمبر 2009 کو ہر قسم کی عدم برداشت اور مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خاتمے پر قرارداد منظور کی گئی۔

ہفتہ بین المذاہب ہم آہنگی کے بنیادی مقاصد میں ہر سطح پر بین العقیدہ تعلقات کو پائیدار اور مضبوط بنانا اور دیگر عقائد کے بارے معلومات میں اضافہ کرنا شامل ہے۔

مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور اس کی نمائندگی کے لیے نارنجی یا اورنج رنگ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ روایتی طور پر نارنجی رنگ سماجی رابطہ کاری اور بامعنی گفتگو کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا تعلق خیالات کی آزادی اور باہمی احترام کی حوصلہ افزائی سے بھی ہے۔

آج کی معاشرتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہم مختلف سرگرمیوں کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ مثلاً مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کے لیے مکالمے کی مختلف شکلوں سے حوصلہ افزائی کرنا، عقیدے کے اصولوں پر مکالمہ کرنا اور اُس کے فلسفہ کو سمجھنا، نیز سماجی انصاف اور ترقی کے لیے روزمرہ کی زندگی میں نتیجہ خیز مکالمے کو فروغ دینا۔

فروغِ بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے سرگرمِ عمل کارکنان متعدد چیلنجز کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جن میں مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان تعصب، خوف اور عدم اعتماد شامل ہے۔ اس راہ میں ایسے سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل بھی رکاوٹ ہیں جو بین المذاہب تعلقات کے ٹوٹنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس طرح کی کوششیں ان تعصبات کو ختم کرنے، خوف سے چھٹکارا پانے اور اعتماد کی فضا کو بحال کرنے کی جانب اقدام ہیں۔ انہیں سراہا بھی جانا چاہیے اور ان کی تقلید بھی کی جانی چاہیے۔