سانحہ جڑانوالہ سمیت پنجاب میں توہین مذہب کے 13 واقعات پر مبنی رپورٹ

18 اگست 2023 کو آئی جی پنجاب پولیس نے فرسودہ کہانی دہرائی کہ یہ واقعات غیر ملکی سازش کا شاخسانہ تھے اور پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے کوئی نیٹ ورک توڑ دیا ہے۔ دوسری جانب ان بیانات میں مذہبی جماعتوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اس شبہ کو بھی تقویت دی کہ مسیحی ملزمان جرائم میں ملوث ہیں۔

سانحہ جڑانوالہ سمیت پنجاب میں توہین مذہب کے 13 واقعات پر مبنی رپورٹ

تکفیر کے قوانین کا غلط استعمال پاکستان میں کئی سانحات کا سبب بن چکا ہے۔ 1987 سے اگست 2023 تک کم از کم 2029 افراد پر الزام لگ چکے ہیں جو ایک بین الاقوامی ریکارڈ ہے۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مئی تا ستمبر 2023 کے دوران پنجاب کے شہروں سرگودھا، جڑانوالہ، تاندلیانوالہ، فیصل آباد، راولپنڈی، ہڑپہ اور ساہیوال میں اقلیتوں کے خلاف شرانگیزی اور تکفیر پر مبنی متعدد کارروائیاں عمل میں آئیں۔

سالِ رواں میں اِن قوانین کے بد استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہِ اگست کے اختتام تک مختلف دفعات کے تحت کم از کم 209 افراد کے خلاف الزامات لگ چکے ہیں۔ اِن 209 میں سے 80 فیصد یا 168 افراد مسلمان، 18 احمدی، 9 مسیحی اور ایک شخص ہندو ہے۔ اِن مذکورہ مقدمات میں چار افراد کو الزام کے بعد قتل کر دیا گیا۔ پنجاب میں 50 فیصد، سندھ میں 25 فیصد جبکہ دیگر واقعات صوبہ خیبر پختونخوا اور آزاد جموں کشمیر میں سامنے آئے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مسیحیوں پر خصوصاً پنجاب میں پرُتشدد حملوں کی طویل تاریخ ہے۔ 1997 سے 2016 تک مسیحیوں کی آبادیوں اور گرجا گھروں پر 51 حملے رپورٹ ہوئے جن میں 15 دہشت گرد حملے تھے اور دیگر ہجوم نے کئے۔ اِن حملوں کے نتیجہ میں 69 گرجا گھروں اور ہزار سے زائد گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ نیتجتاً 138 مسیحی ہلاک ہوئے۔ اِس کے علاوہ 23 مسیحیوں کو تکفیر کے الزامات کے بعد ہجوم نے ماورائے عدالت قتل کر دیا جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔

2016 اور 2023 کے درمیان ملک کے مختلف حصوں میں ہندوؤں اور احمدیوں کی عبادت گاہوں پر متعدد حملے رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2023 کے موسمِ گرما کے دوران نفرت اور تشدد کی لہر میں تیزی اُس وقت دیکھنے میں آئی جب سیاسی جماعتیں آئندہ عام انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں۔ سانحہ جڑانوالہ کو ذرائع ابلاغ نے کچھ توجہ دی مگر میڈیا پر پابندیوں اور متاثرین میں خوف و ہراس کے باعث اور دیگر مجموعی صورت حال کی رپورٹنگ پر اثر ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد اصل حقائق سے بے خبر ہے۔

انتہا پسند عناصر کی جانب سے ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ تکفیر کے الزام میں اقلیتیں ملوث ہیں۔ ایسا تاثر اکثریتی اور اقلیتی حلقوں کے درمیان سماجی تعلق کو تباہ کر رہا ہے۔ لہٰذا ذیل میں پنجاب میں پیش آنے والے 13 مقدمات کے حقائق کو پیش کیا گیا ہے تاکہ انتظامیہ اور عوام الناس کی توجہ دلائی جا سکے۔

جڑانوالہ کے سانحہ سے قبل سرگودھا شہر اور آس پاس دیہاتوں میں 30 جون سے تکفیر کے الزامات کے بعد بدامنی کا ماحول نظر آیا۔ خصوصاً مسیحی برادری کو خوف زدہ کیا گیا۔ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور دیگر تنظیمیں مسیحیوں کے متعلق شک و شبہ اور تکفیر کے الزامات لگانے کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ پولیس نے درجنوں مسیحیوں کو گرفتار کیا۔

سرگودھا مقدمات میں پانچ مسیحی نوجوانوں (ہارون، وکی وارث، زِمران، جارج کامران اور آکاش کرامت) جبکہ جڑانوالہ میں پانچ (پاسٹر عامر مسیح، پرویز مسیح، داؤد مسیح، شاہد آفتاب اور رابرٹ چارلس) پر الزامات لگے تاہم گرفتار شدگان کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے کیونکہ چک نمبر49، مریم ٹاؤن، چک نمبر 37، اور 36 میں حراست غیر اعلانیہ تھی اور سینکڑوں لوگ بے گھر ہوئے۔ گرفتار افراد کے اہل خانہ گرفتاری کی اطلاع دینے یا قانونی چارہ جوئی سے ڈرتے تھے جبکہ مذہبی گروہوں کی جانب سے مسلسل نفرت انگیزی نے شہر بھر میں مزید خوف و ہراس پھیلایا۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ مسیحیوں کے علاوہ احمدی اور شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف بھی دفعہ 298 کے مقدمات درج ہوئے (ذیل میں سرگودھا مقدمات8،7،1) ہر گاہ کہ زیر نظر رپورٹ میں مسیحیوں کے خلاف کارروائیوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

سرگودھا کیس نمبر 1

30 جون 2023 کو نمازِ جمعہ کے بعد سرگودھا سے ملحقہ چک نمبر 49 شمالی کے تقریباً دس مسیحی خاندانوں پر ان کے پڑوسیوں نے حملہ کر دیا۔ ہارون شہزاد اور ایک مسیحی نوجوان پر الزام لگا کہ اُس نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر بائبل مقدس کی ایک آیت پوسٹ کی تھی جس میں جانوروں کی قربانی کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا تھا۔ اِس حملے سے مسیحیوں میں خوف و ہراس پیدا ہوا اور وہ اپنے گھروں سے بھاگ گئے۔

36 سالہ ہارون شہزاد چار بچوں کا باپ اور مزدور پیشہ ہے۔ اِس نو افراد پر مشتمل کنبے میں بہن بھائی بھی شامل گاؤں کی مسجد کے پاس رہائش پذیر ہیں۔ مدعی عمران اللہ اِسی گاؤں کا رہائشی ہے اور گاؤں میں ڈان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مبینہ طور پر عمران کا ہارون کے ساتھ جھگڑا چل رہا تھا اور اِس بنیاد پر اُس پر جھوٹا الزام لگایا گیا۔

ایف آئی آر 23/615 کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن سرگودھا دفعہ 295 اے کے تحت شامل 4:25 بجے کے قریب درج کی گئی۔ شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ ہارون شہزاد نے 8 جون 2023 کو توہین آمیز مواد (بائبل مقدس کی آیت) پوسٹ کی تھی۔ ملزم کو ضمانت مل گئی تھی جِسے بعدازاں مجسٹریٹ نے منسوخ کر دیا تھا۔ ابتدائی طور پر پولیس نے اِس خاندان کی دو خواتین اور چار مردوں کو بھی حراست میں لیا تھا۔ تاحال ملزم زیر حراست پولیس ہے۔

سرگودھا کیس نمبر 2

چک نمبر 98 شمالی کے ذکی مسیح نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر حکومت کی جانب سے بدعنوانی کے خلاف شروع کی گئی مہم کا اشتہار لگایا تھا۔ پیغام میں قرآنی آیت کے ساتھ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بدعنوانی کی ممانعت پر زور دیا گیا تھا تاہم ایف آئی آر میں اس پوسٹ کی تشریح شامل کی گئی مگر پوسٹ کا اصل متن الزامات کے برعکس ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندگان نے ملزم ذکی کو خبردار کیا اور اس مواد کو حذف کرنے کو کہا جس پر اُس نے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں پولیس نے 8 جولائی 2023 کو دفعہ 295 اے کے تحت ایف آئی آر نمبر 23/684 درج کی۔

سرگودھا کیس نمبر 3

سرگودھا کے گرین ٹاؤن میں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں جبکہ اس سے ملحقہ آبادی مریم ٹاؤن میں مسیحیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ 16 جولائی 2023 کو نماز فجر کے بعد قریبی مسجد سے اعلانات ہونے کے بعد لوگ جمع ہونے لگے۔ اعلانات میں مریم ٹاؤن میں مسیحیوں کے گھروں پر حملہ کرنے پر اُکسایا جا رہا تھا اور دعویٰ کیا گیا کہ مریم ٹاؤن کے کچھ مسیحیوں نے ایک پوسٹر پر اسلام مخالف الفاظ لکھے ہیں۔ علاقے میں یہ خبر پھیلی تو مریم ٹاؤن کے مسیحی اپنی حفاظت کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ علاقے میں امن عامہ کے لیے پولیس تعینات کر دی گئی۔ پولیس نے نامعلوم ملزم کے خلاف دفعہ 295 اے کے تحت ایف آئی آر نمبر 23/856 درج کر لی۔

ٹی ایل پی نے احتجاج کرتے ہوئے ذمہ داران کی گرفتاری کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا۔ تب سے آج تک مریم ٹاؤن میں پولیس تعینات ہے۔

سرگودھا کیس نمبر 4

20 اگست 2023 بروز اتوار چک نمبر 36 کانڈیوال روڑ نزد سرگودھا میں کچھ نمازیوں کو مسجد سے باہر نکلتے وقت کیتھولک چرچ کی دیوار کے ساتھ ایک شاپنگ بیگ نظر آیا جس میں قرآن پاک کے صفحات تھے۔ شاپنگ بیگ کے ساتھ ایک خط تھا جس پر 16 اگست 2023 کے سانحہ جڑانوالہ کا حوالہ دیا گیا تھا۔

خبر پھیلنے پر لوگ جائے وقوعہ پر جمع ہونا شروع ہو گئے جبکہ مسیحی خاندان علاقہ چھوڑ کر دیگر علاقوں میں چلے گئے۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے صورت حال پر قابو پا لیا۔

سرگودھا کیس نمبر 5

25 اگست 2023 کو چک نمبر 37 ایس بی میں مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے قرآن پاک کو جلانے اور بے حرمتی ہونے کے اعلانات کئے گئے اور لوگوں کو تاکید کی گئی کہ مسجد میں جمع ہوں۔ ہجوم اکٹھا ہوا جس نے مسیحیوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا۔ پولیس کو اطلاع دی گئی۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ہجوم کو منتشر کیا اور نامعلوم افراد کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 اے کے تحت ایف آئی آر نمبر 23/464 درج کر لی۔

27 اگست 2013 بروز اتوار ٹی ایل پی نے اپنے حامیوں کے ساتھ سرگودھا ڈویژن میں بھرپور احتجاج کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے جارج مسیح کے 33 سالہ بیٹے زمران، ایک دوست آکاش کرامت جس کی عمر 17 سال ہے، کو گرفتار کر لیا۔

سرگودھا کیس نمبر 6

 3 جولائی 2023 کو پولیس نے موضع بڑیانہ سرگودھا میں دفعہ 295 اے کے تحت اظہر عباس کے خلاف ایف آئی آر نمبر 23/314 درج کی۔ اظہر پر الزام تھا کہ اُس نے فیس بک پر قابل اعتراض پوسٹ شیئر کر کے مسلمانون کے تیسرے خلیفہ کی توہین کی ہے۔

سرگودھا کیس نمبر 7

جولائی 2023 میں موضع بڑیانہ، سرگودھا میں پولیس نے اظہر عباس کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298، 298A  کے تحت ایف آئی آرنمبر 314/23 درج کی۔ اُس پر الزام تھا کہ اُس نے فیس بک پر مذہب اسلام کے تیسرے خلیفہ کی شان میں گستاخانہ پوسٹ شیئر کی ہے۔

سرگودھا کیس نمبر 8

مولانا محمد نعمان نے 8 اگست 2023 کو رانا محفوظ حسین اور رانا فصیح حیدر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 اور 298 اے کے تحت کوٹ مومن سرگودھا میں ایف آئی آر نمبر 23/991 درج کروائی جس میں الزام لگایا گیا کہ دونوں ملزمان نے فیس بک پر قابل اعتراض مواد شیئر کیا ہے۔

جڑانوالہ کیس نمبر 9

16 اگست 2023 کو ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مسیحی آبادی پر پرتشدد حملے کئے گئے۔ صبح 5 بجے سنیما بستی کی ایک رہائشی خاتون نے الزام لگایا کہ اُس نے دو بھائیوں راجہ سلیم مسیح اور راکی مسیح کے گھر کے باہر لگے گیس میٹر پر کچھ گستاخانہ مواد دیکھا ہے۔ یہ خبر دیگر علاقوں میں بھی پھیلی تو ٹی ایل پی کے ذمہ داروں نے دیگر افراد کے ساتھ مل کر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لیے پولیس سے رجوع کیا۔ اس اثنا میں قریبی مساجد سے بھی اس حوالے سے اعلانات ہونے لگے اور مسلمانوں کو توہین رسالت کے خلاف کارروائی پر اکسایا گیا۔ اعلانات میں گالم گلوچ اور مسیحیوں کے خلاف تشدد کی تاکید کی گئی۔ اِس کے نتیجہ میں ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

اس کے بعد جڑانوالہ شہر میں مسیحی بستیوں میں پرتشدد حملے شروع ہو گئے۔ گرجا گھروں جن میں کیتھولک چرچ، پریسبٹرین چرچ، سالویشن آرمی چرچ، چرچ آف پاکستان، مختلف پینٹی کوسٹل اور کانگریگشنل پر منظم حملے کیے گئے۔

80 سے زائد گھروں، 24 گرجا گھروں اور پادریوں کی کئی رہائش گاہوں کو آگ لگائی گئی۔ بند گلی کو مکمل طور پر جلا دیا گیا۔ ملحقہ گلیوں میں مسیحیوں کے گھروں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔

عیسیٰ نگری میں گرجا گھروں کے ساتھ والے کئی مکانات پر حملہ کر کے اُن کے سامان کو آگ لگا دی گئی۔ جبکہ ایک اور چرچ کے سامنے واقع قبرستان کی چار دیواری توڑ دی گئی اور قبروں پر نصب صلیبوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ایسا منظر کئی دیہی آبادیوں میں نظر آیا جہاں عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔

جڑانوالہ اور آس پاس کے دیہات میں بسنے والے ہزاروں خاندان بے گھر اور بے روزگار ہو گئے۔  بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی اور تمام آبادی اس وقت تک نفسیاتی صدمے اور ہیجان کی کیفیت میں ہے۔

ہڑپہ ساہیوال کیس نمبر 10

19 اگست 2023 کو احسن عرف شان مسیح کے خلاف عامر فاروق کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-A اور 295-B اور الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016-ii کے تحت ایف آئی آر نمبر 700/23 درج کی گئی۔ مسیحی نوجوان (ٹک ٹاک نام احسن) پر ٹک ٹاک ویڈیو میں گستاخانہ خط دکھانے کا الزام لگایا گیا جو جڑانوالہ میں مسیحیوں پر حملوں کی وجہ بنا۔ ٹی ایل پی کے احتجاج کے نیتجے میں پولیس نے ملزم کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 1997-7 بھی لگا دی۔

راولپنڈی کیس نمبر 11

گریفن گل عرف ساغر مٹھو کا اپنے خاندان میں جائیداد پر تنازعہ چل رہا تھا تو گریفن نے اسلام قبول کر لیا کیونکہ وہ مختلف بینکوں وغیرہ کا قرض دار تھا۔

اُس نے ریس کورس پولیس سٹیشن راولپنڈی میں شکایت درج کروائی جس میں الزام لگایا کہ اُس کے خاندان نے 24 اگست 2023 کو کرسچین کالونی راولپنڈی میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔

شکایت کنندہ پولیس کو ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔ اس دوران مسلم اور مسیحی برادریوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا۔ پولیس نے بھی صورت حال کو کنڑول کیا۔

تاندلیانوالہ فیصل آباد کیس نمبر 12

7 ستمبر 2023 کو نجمہ بی بی کے خلاف تھانہ تاندلیانوالہ میں مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس پنجاب 2011 کی دفعہ کے تحت ایف آئی آر نمبر 1034/23 درج کر لی۔ اس میں شکایت کنندہ ولیم گل نے الزام لگایا کہ نجمہ بی بی نے اس وقت مذہبی تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی جب مسیحیوں نے اسے علاقے میں منشیات سپلائی کرنے سے منع کیا۔

پہلے نجمہ نے مسیحی رہائشی کو ایک اور جڑانوالہ بنانے کی دھمکی دی اور پھر قرآن پاک کی بے حرمتی کی من گھڑت کہانی استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو مسیحیوں کے خلاف اکسایا۔ مقامی اہلسنت و الجماعت نے اجلاس بلایا تو نجمہ بی بی کے الزام کو جھوٹا پایا۔ تاہم کرسچن کالونی تاندلیانوالہ کے مکینوں کو اپنی حفاظت کے پیش نظر عارضی طور پر نقل مکانی کرنا پڑی۔

خانیوال کیس نمبر 13

7 ستمبر 2023 کو لانڈھی بستی خانیوال میں پانچویں جماعت کا 12 سالہ طالب علم میتھیو پائس اپنی کتاب پرنسپل کی میز پر بھول گیا، اگلے روز سکول کی ملازمہ نے غلطی سے کتاب سے پھٹا ہوا ایک صفحہ جس پر میتھیو کا نام بھی لکھا تھا ٹوکری میں ڈال دیا۔ جب ایک طیبہ نامی استانی نے دیکھا تو اُس نے میتھیو پر تشدد کرنے کے بعد اُسے معافی مانگنے پر مجبور کیا۔

اگلے روز پولیس اہلکار دیگر اداروں کے ہمراہ میتھیو کے گھر اُس کا بیان ریکارڈ کرنے پہنچے۔ تحقیقات کے بعد پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ میتھیو بے قصور تھا، تاہم اس واقعے نے مسیحیوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا۔ نتیجتاً متعدد مسیحی خاندان اپنے گھروں سے نقل مکانی کر گئے۔

خلاصہ

نامزد ملزمان کے علاوہ پولیس نے متعدد مسیحیوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا، خاص طور پر سرگودھا، جڑانوالہ اور فیصل آباد میں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کرسچن ٹرو سپرٹ نے 34 اور کلاس نے 6 افراد کو جڑانوالہ پولیس کی حراست سے عدالتی کارروا ئی کے ذریعے رہا کروایا۔

سرگودھا اور فیصل آباد میں بھی بڑے پیمانے پر غیر قانونی گرفتاریاں کی گئیں جہاں جڑانوالہ کے لوگ پناہ لیے ہوئے تھے۔ لہٰذا نام نہاد مذہبی تنظیموں کو خوش کرنے کے لیے پولیس نے متاثرین کی غیر قانونی حراستیں جن میں بہت سی خواتین اور نابالغ بچے بھی شامل تھے، سے ناانصافی کی۔

18 اگست 2023 کو آئی جی پنجاب پولیس نے فرسودہ کہانی دہرائی کہ یہ واقعات غیر ملکی سازش کا شاخسانہ تھے اور پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے کوئی نیٹ ورک توڑ دیا ہے۔ دوسری طرف ان بیانات میں مذہبی جماعتوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اس شبہ کو تقویت دی کہ مسیحی ملزمان جرائم میں ملوث ہیں۔

اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ پولیس نے اِن واقعات میں مسیحیوں پر اپنا بیانیہ ٹھونسنے کی کوشش کی۔ بجائے اس کے کہ جرم ثابت ہونے تک وہ بے قصور ہونے والے اپنے قانونی مؤقف پر قائم رہتے۔ سرگودھا میں پولیس اور انتظامیہ نے ممتاز مسیحیوں کو ویڈیو پیغامات ریکارڈ کرنے اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اپ لوڈ کرنے پر مجبور کیا۔ ان پیغامات میں انہوں نے انتظامیہ کے اقدام کو سراہا اور کہا کہ وہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے لوگوں سے خود کو الگ کرتے ہیں۔ فیصل آباد میں پولیس نے پادریوں کو قرآن پاک کی بے حرمتی پر پشیمانی کے پوسٹر تقسیم کیے اور انہیں گرجا گھروں میں آویزاں کرنے پر مجبور کیا۔ عرف عام میں ایسے بیانات اعتراف جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔

16 اگست 2023 کو جڑانوالہ میں پیش آنے والے واقعات 1997 میں شانتی نگر، 2005 میں سانگلہ ہل اور 2009 میں گوجرہ میں پیش آنے والے واقعات کی طرز پر کیے گئے تھے۔ ان واقعات میں اہانت دین کے الزامات کے بعد لوگوں کو جمع کرنا، اشتعال انگیز اعلانات کے بعد اکثریتی عقائد سے تعلق رکھنے والے پرتشدد ہجوم کو روکنے میں پولیس اور انتظامیہ کی ناکامی، مسیحیوں کی املاک کو نقصان پہنچانا، ان واقعات میں ہلاکتوں اور لوٹ مار اور گرجا گھروں کی بے حرمتی بھی کی گئی۔

لہٰذا پولیس اور انتظامیہ نے شاید نادانستہ طور پر سماجی مفاد عامہ اور انصاف کے برعکس مسیحی اقلیت کے خلاف کارروا ئی کی جو ان واقعات میں ملوث مذہبی تنظیموں کی سیاست کے حق میں تھی لہٰذا مذکورہ مقامات پر بالخصوص اور صوبہ پنجاب میں عموماً امن عامہ کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔

مذہبی قوانین کا غلط استعمال ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کر گیا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور عوام حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جڑانوالہ سانحہ پر ازخود نوٹس لے لیا ہے جبکہ بشپ آزاد مارشل موڈریٹرر آف چرچ آف پاکستان نے واقعے پر جوڈیشنل کمیشن آف انکوائری بنانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ عدالتی انکوائری یقیناً اس بات کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے کہ تفتیش غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہو، بشرطیکہ ماضی کی عدالتی انکوائریوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہ تفتیش اور ذیلی عدالت میں عدالتی کارروائی کو منصفانہ طرز پر چلانے کے بنیادی تقاضوں پر اصرار کرے۔