پنجاب پولیس جڑانوالہ واقعہ میں ملوث شرپسندوں پر گرفت کر پائے گی؟

بات صرف اتنی ہے کہ بے شرم نگران انتظامیہ صرف اور صرف تحریک انصاف کو کچلنے پر لگی ہوئی ہے اور اس کے پیچھے نون لیگ کی قیادت ہے۔ ان کا دھیان کسی اور طرف ہے ہی نہیں۔ کیا لاہور میں کماندار کا گھر جلانے کے بعد جس طرح گرفتاریاں ہوئی تھیں، سانحہ جڑانوالہ میں ملوث افراد کی بھی اس طرح گرفتاریاں ہوں گی؟

پنجاب پولیس جڑانوالہ واقعہ میں ملوث شرپسندوں پر گرفت کر پائے گی؟

ویسے تو ہر خونی کھیل کا کہیں نہ کہیں خاتمہ ضرور ہوتا ہے مگر سمجھ نہیں آتا کہ جو خون آشام کھیل وطن عزیز میں جاری ہے اس کا خاتمہ کب ہو گا۔ سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری کا ہجوم کے ہاتھوں قتل عام آخری واقعہ نہیں تھا اور نہ ہی اب سانحہ جڑانوالہ آخری واقعہ ہے۔ ہم نے بدقسمتی سے ریاست پاکستان کی ہئیت کی تشکیل ہی اس طرح سے کر دی ہے کہ مذہبی جنونیت ہماری رگوں میں اب لہو بن کر دوڑ رہی ہے۔ بات کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ آئین پاکستان اور قانون پاکستان کو باندی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

ایک نوجوان عامر پر الزام لگایا کہ اس نے فلاں فلاں گستاخی کی ہے اور اس تحریر کے ساتھ اپنی تصویر لگا دی ہے۔ اس نوجوان عامر کا کہنا ہے کہ میں پاگل ہوں کہ پہلے گستاخی کروں پھر تحریر کے ساتھ اپنی تصویر بھی لگا دوں۔ نوجوان کی دلیل میں وزن ہے۔

ایک ملک جس کی آبادی کا 98 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے وہاں اقلیتی برادری کا کوئی نوجوان یہ سب کرنے کی جرات کیسے کر سکتا ہے؟ جڑانوالہ کے اسسٹنٹ کمشنر بھی مسیحی ہیں۔ اگر وہ بروقت مسیحی آبادی کو اس بستی سے باہر نکال کر کسی دوسرے محفوظ مقام پر نہ پہنچاتے تو شاید ان 3 گرجا گھروں اور پوری بستی جس میں سینکڑوں مکانات نذر آتش کیے گیے، کے ساتھ ساتھ یہ انسان بھی جل جاتے۔ ریاست نے اس مسیحی اسسٹنٹ کمشنر کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اس سانحہ میں تحریک لبیک والوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جن کے خفیہ ہاتھوں نے اس فسطائیت سے بھرپور تنظیم کو بنایا ہے جب تک ان ہاتھوں کو نہیں توڑا جاتا تب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

آئی جی پنجاب نے دو دن پہلے تحریک انصاف کی ریلی روکنے کے لیے کہا تھا کہ ہمارے پاس ایک لاکھ چالیس ہزار کی نفری اور جدید ترین ٹیکنالوجی ہے شرپسندوں کو گرفتار کرنے کے لئے۔ ذرا آئی جی پنجاب سے پوچھیں جب سات آٹھ گھنٹے تک جڑانوالہ میں مشتعل مظاہرین یہ سب کچھ کر رہے تھے، مکانات اور گرجا گھروں کو نذر آتش کر رہے تھے تب یہ نفری کہاں تھی؟ بات صرف اتنی ہے کہ بے شرم نگران انتظامیہ صرف اور صرف تحریک انصاف کو کچلنے پر لگی ہوئی ہے اور اس کے پیچھے نون لیگ کی قیادت ہے۔ ان کا دھیان کسی اور طرف ہے ہی نہیں۔ کیا لاہور میں کماندار کا گھر جلانے کے بعد جس طرح گرفتاریاں ہوئی تھیں، سانحہ جڑانوالہ میں ملوث افراد کی بھی اس طرح گرفتاریاں ہوں گی؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ جب ریاست اور حکومت ایک مثال قائم کر دے کہ ہم نے آئین پاکستان کو پامال کرنا ہے، ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنا ہے تو پھر اس ریاست کے شہری بھی قانون اپنا اپنا بنا لیتے ہیں۔ وہاں پھر مسلح جتھے خود فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کے راستے میں جو بھی آتا ہے وہ اسے روند دیتے ہیں۔ اس طرح معاشرے انارکی کا انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں قانون نام کی چڑیا جہاں بھی آسمان پر پرواز کرتی ہے کسی نہ کسی شر پسند کی غلیل کا شکار بن جاتی ہے اور اس آسمان پر اسی باز کی حکومت ہوتی ہے جو خون آشام ہوتا ہے۔ وہ ہر معصوم پرندے کو نگل لیتا ہے۔ اس کا اپنا قانون ہوتا ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔