بھارتی سیاست تریپورہ میں پھر مسلمانوں پر تشدد، مسجد کی بے حرمتی، املاک نذر آتش

بھارتی سیاست تریپورہ میں پھر مسلمانوں پر تشدد، مسجد کی بے حرمتی، املاک نذر آتش
بنگلا دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے نام پر بھارتی ریاست تریپورہ میں ایک بار پھر شرپسند ہندوئوں نے مسلمانوں پر حملے کئے۔

انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک مسجد میں گھس کو توڑ پھوڑ کی گئی جبکہ مسلمانوں کی کئی دکانوں اور ان کے مکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس دوران گھروں میں گھس کر خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بنگلا دیش میں ہندوؤں پر حملے کے جواب میں تریپورہ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔



گزشتہ ہفتے بھی مسلمانوں پر شدید حملے ہوئے تھے اور کئی مساجد کو نقصان پہنچایا گیا تھا جس کے بعد انتظامیہ نے مساجد کو سیکورٹی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مسجد پر ہونے والے اس حملے سے انتظامیہ کے دعوؤں کی حقیقت طشت از بام ہو گئی ہے۔

معاصر انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ مسجد کو نشانہ بنائے جانے کی تصدیق کی ہے جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق دیگر مساجد کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پانی ساگر علاقے کے سب ڈویژنل  پولیس افسر شوبک ڈے نے بتایا کہ وی ایچ پی کی ریلی میں تقریباً ساڑھے 30 ہزار افراد شریک تھے۔

یہ ریلی اسی ماہ کے اوائل میں بنگلا دیش میں فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف احتجاج کیلئے نکالی گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ریلی میں موجود چند شرپسند عناصر نے چام ٹیلا علاقے میں واقع مسجد میں توڑ پھوڑ کی۔ بعد میں تین گھروں اور 20 دکانوں پر بھی حملے ہوئے جبکہ رووا بازار علاقے میں 20 دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا جو تشدد کی پہلی واردات کی جگہ سے 800 میٹر کی دوری پر واقع ہے۔

پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جن دکانوں اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا وہ مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔ متاثرین میں سے ایک شخص کی شکایت پر کیس درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس میں درج کرائی گئی شکایت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ریلی میں شامل افراد نے زبردستی گھروں میں گھس کر خواتین کیساتھ بدتمیزی کی۔



پولیس کو دی گئی تحریری شکایت کے مطابق پانی ساگر کے علاقے میں وشو ہندو پریشد نے ایک ریلی کا اہتمام کیا۔ ریلی رووا بازار سے ہوتے ہوئے چام ٹیلہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ریلی میں شامل چند شر پسند عناصر نے دکانوں میں توڑ پھوڑ کی اور انہیں نذر آتش کیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ بازار کے قریب واقع مکانات میں گھس گئے  اور وہاں بھی انہوں نے توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی۔ انہوں نے رووا کی جامع مسجد پر حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔

شکایت میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسے سنگین حالات میں اقلیتیں یہاں خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہیں اور جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہیں۔

ادھر مسجد پر حملے کا جواز پیش کرتے ہوئے ریلی میں شریک ایک شخص نارائن داس کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ مسجد کے باہر کھڑے ہوئے چند نوجوانوں نے ریلی میں شامل افراد کو گالیاں دیں اور برا بھلا کہا تھا۔

تریپورہ میں اپوزیشن پارٹی سی پی ایم نے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست میں شرپسند کھلے عام امن وامان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

بائیں محاذ نے سماج کے تمام طبقوں سے تحمل کی اپیل کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جن کے گھروں اور دکانوں کو نقصان پہنچایاگیاہے،انہیں مناسب معاضہ دیا جائے۔

بی جے پی کے ترجمان نبیندو بھٹا چاریہ نے تشدد کی ایسی کسی واردات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو پولیس اس کے خلاف مناسب کارروائی کرنی چاہیے۔