’واہ کیا تقریر ہے‘

’واہ کیا تقریر ہے‘
تو جناب یو این کی تقریر نے پچھلے تمام ریکارڈز توڑ دئیے مگر کیا ہے کہ کچھ ہی دن بعد سینما سے یہ تقریر بھی اتر جائے گی؟ پھر ایک اگلی تقریر آئے گی، وہ اس تقریر کے بھی ریکارڈز توڑ دے گی۔ یہ سلسلہ 2011 سے چلتا آرہا ہے۔ ہر تقریر پچھلی تمام تقریروں پر بھاری نکلتی ہے۔

مزید آگے بڑھنے سے پہلے میں عمران کی ایک آل ٹائم بلاک بَسٹَر تقریر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، یہ وہ تقریر ہے جو 2018 کے باکس آفس کی سب سے بڑی تقریر گردانی جاتی ہے۔ الیکشنز سے چند ہی روز پہلے، مینار پاکستان پر ایک تاریخی خطاب کیا گیا تھا۔

یاد ہوگا کہ اس خطاب کو "مدر آف آل سپیچز" قرار دیا گیا تھا، اس وقت کی نیوز سے ایک اقتباس درج ذیل ہے۔

' عمران خان نے مینار پاکستان جلسہ سے جو خطاب کیا وہ کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ خطاب میں کئی دفعہ عمران خان جذباتی بھی ہوئے لیکن ان کے دو، ڈھائی گھنٹے کے خطاب کے دوران نہ صرف جلسہ میں شریک بلکہ ٹی وی چینلز پر خطاب دیکھنے والے افراد بھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ عمران خان جو بھی کہہ رہا ہے دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہے،کپتان نے شاید1996 سے ابتک جتنے بھی خطاب کیئے ہیں، 29 اپریل والا خطاب ’’مدر آف آل سپیچز‘‘ تھا۔ بہت مدلل، واضح، پر اثر اور مستقبل کے روڈ میپ کی شفاف نشاندہی کرنے والے اس خطاب میں کپتان نے جو 11 نکات پیش کیے ہیں وہ صرف تحریک انصاف کا انتخابی منشور ہی نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی ڈیمانڈ بھی ہے "۔ یاد آیا؟

وہ سہانا موسم وہ حسین رات

وہ خان وہ تقریر وہ 11 نکات

مگر آج ہم سب جانتے ہیں کہ ان 11 نکات کا کیا بنا، 'بیچارے معصوم 11 نکات "پلٹی مار تحریک"  کی زد میں ایسے آئے کہ نکات کے کچھ نکتے تو مرغیاں چُگ گئیں اور جو باقی بچے انہیں کٹوں نے چَر لیا'۔


تو جی! وہ 11 نکات تو عظمت کا نشان بن گئے (عبرت کا نشان بھی پڑھ سکتے ہیں)، مگر کیا ہے کہ چاہے کتنے ہی قول فعل کے ہاتھوں غرق ہوئے ہوں، کتنے ہی وعدے پلٹی (یوٹرن) کی عظمت کے سامنے ڈھیر ہوئے ہوں اور کتنے ہی دعوے جھوٹ کی ندیا میں غوطے مار گئے ہوں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ہینڈسم تھا، وہ ہینڈسم ہے وہ ہینڈسم رہے گا۔

دیکھا جائے تو 22 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں ایک کیفیت فطری سوچ کے عمل میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کیفیت کے تین نام ہیں۔ جو کہ درج ذیل ہیں۔

پہلا نام، واہ کتنا ہینڈسم ہے

دوسرا نام، واہ کیا کمال بولتا ہے

تیسرا نام، واہ کیا تقریر ہے

پرکشش شخصیت، باکمال انداز، بے دھڑک شعلہ بیانی اور لفظوں کی سحر انگیزی سے مخصوص ذہنوں کو محصور کرنا موصوف بخوبی جانتے ہیں۔ محصور بھی ایسا کہ بس۔

بھینس اُڑی؟ !!! اُڑی

کھوتا اُڑا؟ !!!اُڑا

خوب رُو اتنے ہیں کہ پلٹی مارنے (یوٹرن) کی ادا بھی رفقاء "ہائے" کار کا دل موہ لیتی ہے اور پلٹی مارنے کی دلیل کچھ ایسی علم و دانش سے بھری ہوتی ہے کہ من خود بخود دماغ کو تیل لینے بھیج دیتا ہے۔ عجیب جادوئی شخصیت ہے۔

لے کے پہلا پہلا پیار

بھر کے آنکھوں میں خمار

جادو نگری سے آیا ہے کوئی جادوگر

اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ میں یو این میں ہونے والی حالیہ تقریر پر تنقید کر رہا ہوں تو معذرت پہلے ہی کر لوں۔ تنقید تقریر پر نہیں، تقریر کے محرکات پر ضرور کرنا چاہوں گا۔ وہ محرکات کہ جو جذباتیت سے بھرپور اس تقریر کا باعث بنی۔ تقریر میں بد ترین سفارتی ناکامی کو جذباتیت کا لبادہ اُوڑھا کر چُھپانے کی کوشش صاف ظاہر تھی۔ آخر کیوں مایوسی ہوئی؟ آخر کیوں50 کے دعوے کے برعکس 16 ملکوں نے بھی حمایت نہ کی؟ اتنی بری سفارتی ناکامی آخر کیوں؟ کیوں کسی نے کان نہیں دھرا؟


ارے بھائی ملک کی نیّا ڈُبو کر پھرو گے تو کون اس نیّا پہ بیٹھے گا؟ معیشت کے بخئیے ادھیڑ کر پھِرو گے تو کون پلٹ کر دیکھے گا؟ ایک سال میں 10 کھرب قرضہ لے کر لاپتہ کر دیا۔ سٹاک ایکسچینج 100 ارب ڈالر سے 40 پہ گرا دیا۔ ڈالر کو قدرتی انداز میں قدرت کے پاس پہنچا دیا۔ روپے کو وینٹی لیٹر پہ چڑھا دیا۔ 30 لاکھ لوگوں سے نوکریاں چھین لیں، 40 لاکھ لوگوں کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل دیا۔ 56 فیصد بیرونی سرمایہ کاری ملک سے بھگا دی۔ نومولود سی پیک کا ابارشن کروا دیا۔ کینسر کے مریض سسکا مارے۔ جگر اور گردوں کا ہسپتال شیلٹر ہوم میں بدل دیا۔ اورنج ٹرین کو کالک مَل دی ، بی آر ٹی کو چونا، "مگر مگر مگر،

"واہ کیا تقریر ہے"

 

‏موصوف صحافی ہیں ، جمہوری اقدار اور گرم چائے پر یقین رکھتے ہیں۔