پاکستان کی اقتصادی پریشانیوں پر مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟

پاکستان کی اقتصادی پریشانیوں پر مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟
ماہر معاشیات ندیم حق نے ملکی کی معاشی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف نے معیشیت کے لیے وہی کیا جو کوئی بھی حکومت کرتی، وہ بالکل آغاز میں ہی آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے، جو کہ اچھی بات ہے، ہمیں بین الاقوامی اداروں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کڑی شرائط پر مبنی ہے جس کے مطابق ٹیکس میں گذشتہ سال کی نسبت 44 فیصد کا اضافہ کرنا ہوگا، جو کہ ایک سخت شرط ہے، آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بڑے پیمانے پر مالی اصلاحات کی جائیں گی، جن کی ضرورت تھی، تاہم شرائط سخت ہیں، روپے کی قدر میں کمی ہوئی شاید ابھی مزید بھی ہوگی۔

ندیم حق نے کہا کہ " میں devaluation کی اصطلاح استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ Devaluation کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ حکومت نے کی ہےتاہم اس معاملے میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے"۔ یہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے عین مطابق تھا' اور جب یہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ بن جائے تو کوئی حکومت اس کی راہ میں کھڑی نہیں ہو سکتی، تو روپے کی قدر میں کمی لازمی ہونا تھی۔


انہوں نے کہا کہ 'حکومت جو کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی پالیسیوں کو بہتر بنائے، حکومت کی ہر پالیسی کا مرکزی ہدف شرح نمو میں اضافہ ہونا چاہیے، ماضی کے آئی ایم ایف پروگرام اینٹی گروتھ پروگرامز تھے'۔  ماضی کے تمام پروگرامز میں ٹیکسز کی وصولی اور مالی اصلاحات پر ہی زور دیا گیا لیکن ان میں بہت کم ہی گروتھ پر توجہ دی گئی، آئی ایم ایف بھی یہی دعویٰ کرتا ہے کہ  ہمارا کام مرہم پٹی کرنا اور ایمرجنسی وارڈ سے باہر نکالنا ہے، 'یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ گروتھ کے بارے میں سوچے'

ندیم حق کا مزید کہنا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ شاید حکومت کے پاس آئیڈیاز کی کمی ہے، حکومت کی capacity میں کمی آئی ہے، بدقسمتی سے روپے کی قدر اس وقت تک گرتی رہے گی جب تک سسٹم میں مسائل موجود ہیں جیسے آپ کا اپنا جسم ہوتا ہے، جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو اسی حساب سے جسم کا درجہ حرارت بھی اس کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے'۔ تو مجھے روپے کی قدر کو درست سطح پر لانے میں کوئی اعتراض نہیں لیکن حکومت کی معاشی پالیسیوں میں بہت بہتری کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اپنے تفصیلی تجزیے میں یہ بھی کہا کہ پاکستان ایک نوجوانوں پر مشتمل معیشت ہے، اسی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ معیشت پھر سے بحال ہو جائے گی اور یہ ہر بار ہوا ہے، گذشتہ 70 سالوں میں ہماری شرحِ ترقی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ آئے گی کہ اس میں مسلسل اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، ایک، دو سال معاشی ترقی ہوتی ہے، پھر تنزلی شروع ہو جاتی ہے کیونکہ نوجوان معیشت کا معاملہ ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ جیسے نوجوانوں کو باہر نکل کر کام کرنا ہی ہوتا ہے، اور جب آپ باہر نکل کر کام کرتے ہیں تو معیشت اٹھ جاتی ہے، لوگوں کو کمانا تو ہوتا ہی ہے، اس کے لئے لوگ بیرونِ ملک جاتے ہیں یا ملک میں رہ کر کام کرتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگ اپنی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لئے کام کریں گے جس سے معاشی صورتحال بہتر ہو جائے گی لہٰذا اس حساب سے میں ناامید نہیں ہوں؛ معیشت دوبارہ اٹھ جائے گی مگر میرے پرامید ہونے کا مطلب کیا ہے؟میرے پرامید ہونے کی وجہ وہ نہیں ہے جو حکومت یا عوام سمجھتے ہیں۔

ندیم حق نے کہا" پلاننگ کمیشن میں بھی میں نے تجویز دی کہ جب آپ ایک نوجوان معیشت ہوتے ہیں، تو آپ کی ترقی بھی نوجوان معیشت کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے، ہمارے پاس ہر سال بیس لاکھ لوگ ورک فورس کی صورت میں سامنے آتے ہیں، ہمیں ان کے لئے روزگار کے مواقع ڈھونڈنا ہوں گے بصورت دیگر معاشرے میں بھی عدم استحکام پیدا ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کے لئے کام ڈھونڈنے کا مطلب ہے کہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں جو اسی صورت میں ممکن ہے اگر معیشت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہو۔ لہٰذا میرے نزدیک ترقی کا مطلب ہے کہ اگلے 20 سے 30 سال تک لگاتار معیشت 7 سے 8 فیصد ترقی کرے، تو ہی ہم اس تیزی سے بڑھتی آبادی کو روزگار فراہم کر سکیں گے اور اگر ہم اس رفتار سے ترقی نہیں کر رہے تو ہم اپنی استطاعت سے کم شرح پر ہیں، جب بھی 5 یا 6 فیصد گروتھ ریٹ کے ساتھ ترقی کرتے ہیں، تو سب لوگ خوش ہو جاتے ہیں، میرے نزدیک 5 سے 6 فیصد شرح ترقی بہترین نہیں ہے'۔ لہٰذا اگر ہم 7 سے 8 فیصد تک نہیں پہنچ رہے تو ہمیں ناامید ہونا چاہیے، کیونکہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہے اور یہی وہ پیمانہ ہے جس کے مطابق ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے۔

اپنے تجزیہ میں انہوں نے اس بات پر زور ڈالا کہ ہم شرح ترقی میں 1 یا 2 فیصد بہتری پر پُرامید ہو سکتے ہیں کیونکہ خوش قسمتی سے، ہمارے اوپر نوجوانوں کی طرف سے شرحِ ترقی میں اضافے کا دباؤ ہے، ہمیں ان نوجوانوں کی قوت کو بہتر انداز میں استعمال کرنا ہوگا تاکہ ہم 7 سے 8 فیصد شرح ترقی تک پہنچ سکیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمیں شرح ترقی میں عارضی اضافے پر پُر امید نہیں ہونا چاہیے۔