سنگین معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے درمیان، حقوقِ خلق پارٹی نے عوام نواز بجٹ پر ایک گول میز کانفرنس "پیپلز چارٹر آف اکانومی" کا انعقاد کیا۔ چار گھنٹے کی کارروائی میں 150 سے زائد سیاسی اور ٹریڈ یونینز کے کارکنوں اور رہنماؤں نے شرکت کی۔
کانفرنس سے ڈاکٹر اکمل حسین، ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر فہد علی، ڈاکٹر عمار علی جان، چوہدری محمد صادق، عمران کامیانہ، بابا لطیف، ضیغم عباس، آئمہ گلزار، ڈاکٹر عالیہ حیدر، باجی لبنیٰ ، اور قیصر جاوید، سمیت معروف ماہرین اقتصادیات نے اور پارٹی عہدیدار، طلبہ، ٹریڈ یونین، کسان، صحافی اور سول سوسائٹی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی اور خطاب کیا۔
ڈاکٹر اکمل حسین، ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر فہد علی، ، ڈاکٹر عمار علی جان، فاروق طارق سمیت نے کانفرنس میں بتایا گیا کہ پاکستان 1998 کے بعد بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ سٹیٹ بنک میں زرمبادلہ کے ذخائر صرف 6.5 بلین ڈالر یا تقریباً 50 فیصد تک کم ہو گئے ہیں، جو بمشکل چند ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کرنسی دباؤ میں ہے جس کی قدر اسی سال 6 فیصد مزید گر گئی ہے۔ شدید مہنگائی نے عام عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے جبکہ پٹرول سمیت بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء مہنگی سے مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔
https://twitter.com/ammaralijan/status/1531331970583695362
معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ہمیں عوام نواز بجٹ کی ضرورت ہے۔ اشرافیہ کے لیے مراعات ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ معیشیت کا مسئلہ خالصتاً سیاسی ہے اور اس میں نیت کا عنصر بہت اہم ہے۔ سیاسی لیڈرشپ اپنے مفادات پر مبنی فیصلے کرتی ہے اور یقینا جب تک عام ٹریڈ یونین سمیت عام لوگ سیاست نہیں کریں ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹر فہد علی نے کہا کہ پاکستان کی معیشیت کی تباہی پر اب کھل کر سوالات ہونے چاہیئں، انہوں نے کہا ہمیں فوج کے بجٹ پر سنجیدہ گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں پتہ ہونا چاہیئے کہ فوج کا پیسہ کہاں استعمال ہورہا ہے، کونسا ٹینک، میزائل اور جہاز خریدا جارہا اور اس کو خریدنے کی کوئی موثر وجہ بھی ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اہم وقت ہے کہ معیشیت سے متعلق وہ تمام سوالات اٹھائیں جائیں جو ماضی میں نہیں اٹھائے گئے۔
https://twitter.com/Haqooq_e_Khalq/status/1531239686282280962
شرکا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی تباہ کن معیشیت کی ذمہ دار حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں۔ اقوام متحدہ کی 2021 میں شائع ہونے والی پاکستان ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ جن میں کارپوریٹ سیکڑ، رئیل اسٹیٹ، جاگیردار اور فوج شامل ہیں، ان کی مراعات میں 17.4 بلین ڈالر یا تقریباً 6 فیصد کا اضافہ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق جاگیردار طبقے کو 370 بلین، کارپوریشنز کو 724 بلین، زیادہ آمدنی والے خاص افراد کو 368 بلین جبکہ ملٹری کے کاروبار کو 257 بلین کا ریلیف فراہم کیا گیا۔ مراعات کا سب سے زیادہ فائدہ کارپوریٹ سیکٹر کو دیا گیا جس کا تخمینہ 4.7 بلین ڈالر لگایا گیا ہے اور انہیں یہ مراعات ٹیکس چھوٹ، ٹیکس بریک، سستی لاگت پیداوار اور اس سے زیادہ منافع کما کر دیا گیا ہے۔
عین اسی وقت جب ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے، غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بڑی بڑی کارپوریشنز اور رئیل اسٹیٹ اپنے منافعوں میں ریکارڈ اضافے بتا رہی ہیں۔ عمران خان یا دیگر سیاسی رہنما معاشی تباہی میں کارپوریٹ سیکٹر اور ان کمپنیوں کا ذکر نہیں کرتے جن کے نمائندے ہر حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں اور معاشی اصلاحات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان میں داؤد گروپ، منشاء گروپ، ترینز، اینگروز اور فوجی فاؤنڈیشن وغیرہ شامل ہیں۔
https://twitter.com/zaighum_abbass/status/1531234557558771713
شرکا نے کہا کہ یہ امیروں کا سوشلزم ہے جہاں امیروں کو ریلیف اور مراعات تو دی جاتی ہیں جبکہ عام عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جارہا ہے۔ٹیکسز لینے کے باوجود انہیں بہتر صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں بھی نہیں دی جارہیں جبکہ پٹرول، آٹا، چینی اور بجلی مہنگی کرکے سارہ خسارا ان پر بوجھ ڈال کر پورا کیا جارہا ہے۔
پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے رہنما قیصر جاوید نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک شدید تعلیمی شعبہ بحران کا شکار ہے جہاں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ کم سے کم کرتے ہوئے 30 ارب تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ قومی جی ڈی پی کی شرح کے مطابق ایچ ای سی کا بجٹ 0.14 کی انتہائی کم شرح پر آ گیا ہے ۔ یہ طلبہ اور تعلیم دونوں کے ساتھ ظلم ہے جس کا مقصد عام لوگوں کے بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم کرنا ہے۔
https://twitter.com/QaisarJaved0/status/1531232622755586050
شرکا نے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم از کم تنخواہ جو کہ 25 ہزار مقرر کی گئی ہے اسے فی الفور نفاذ کرنے مطالبہ کیا۔ جبکہ کئی شرکا نے کم از کم تنخواہ 40 ہزار روپے مقرر کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
سیمینار سے خطاب کرنے والے شرکا نے کہا کہ اگر ملک کو معاشی بھنور سے نکالنا ہے اور عوام دوست بجٹ بنانا ہے تو مندرجہ ذیل اصلاحات انتہائی ضروری ہیں جن میں کارپوریٹ سیکٹر کے لیے جاری کی گئی 800 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ/سبسڈی کو فی الفور ختم کیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 235(1) کے تحت معاشی ایمرجنسی نافذ کریں اور صوبوں سے کہیں کہ زمین، جائیداد اور زرعی آمدنی پر زیادہ ٹیکس کے ذریعے کم از کم 100 ارب روپے جمع کیا جائے۔
1600سی سی یا اس سے زیادہ کی گاڑیوں پر 500,000 روپے کا خصوصی ایمرجنسی ٹیکس عائد کیا جائے اس سے کم از کم 20 ارب روپے مل سکتے ہیں۔ 800 مربع گز یا اس سے زیادہ کی رہائشی جائیدادوں پر بجلی کے ٹیرف کو دوگنا کر دیا جائے۔
1.3 ٹریلین روپے سے زائد کے کل دفاعی بجٹ میں سے غیر جنگی دفاعی اخراجات میں 100 ارب روپے کی کمی کی جائے۔
وفاقی حکومت کا سائز کم کیا جائے اور ان تمام وزارتی ڈویژنز کو ختم/کم کیا جائے جو صوبائی حکومتوں کو منتقل کیے جا چکے ہیں، اس سے 30 ارب روپے اضافی مل سکتے ہیں۔
تمام زمینوں کی الاٹمنٹ پر پابندی لگائیں اور سرکاری زمین کو صرف عوامی نیلامی کے ذریعے فروخت کرنے کو لازمی قرار دیا جائے۔
امیروں پر مزید ٹیکس لگایا جائے اور اس سارے بحران کی ادائیگی ان سے کروائی جائے۔