آج سے تقریبًا تین سال پہلے جب عمران خان وزیراعظم بنے تو حلف بردادی کی تقریب کے چند دن بعد عوام سے وعدے دہرانے شروع کردیئے جو وہ پہلے سے کرچکے تھے۔ ان وعدوں میں ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، اور آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خودکشی کو ترجیح دینا، یہ بلند و بانگ دعوے تو وہ 2013 کا الیکشن ہارنے کے بعد سے ہی لگا رہے تھے مگر اقتدار سنبھالتے ہی ان وعدوں کی لسٹ میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔
2018 سے اب تک ڈالر کی اونچی اوڑان سے لے کر چینی اور آٹے کی مہنگی پرواز تک، سونے کی بڑھتی قیمت ہو یا پھر تعلیم کی خستہ حالی، ملکی قرضوں میں لمبی فہرست سے لے کر ملکی خزانے کی بدحالی تک، غریب کی آہ و زاریوں سے امیر کی چمکتی دمکتی پجارو تک زندگی بلک بلک کر اپنا دم توڑتی رہی ہے۔
ستر سال میں ملک کا ایسا حال پہلے کبھی نہیں ہوا جتنا ان چند سالوں کے دوران برائے نام جمہوریت میں ہو گیا۔
1947 میں وطن عزیز کے قیام کے بعد تقریبًا گیارہ سالوں تک آئی ایم ایف کی بارہا پیشکش کے باوجود پاکستان نے ان سے کوئی قرضہ نہیں لیا تھا لیکن 1958ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں آئی ایم ایف نے پہلا قرضہ پاکستان کو دیا ۔ پاکستان گذشتہ 69 برسوں میں قرضے کے حصول کے لیے 22 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے۔
اب 2019 میں 39 مہینوں کے پروگرام کے تحت پاکستان کیلئے آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر کا ایک بیل آوٹ پیکج منظور کیا تھا اور یہ پیکج ملکی معشیت کو سہارا دینے کیلئے لیا گیا لیکن یہ معاہدہ دو اقساط کے بعد ختم ہوگیا۔ اب دوبارہ دس ماہ کے طویل عرصے کے بعد آئی ایم ایف سے تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ اس معاہدے کو ایک بار پھر بحال کیا گیا اور معاہدے کے مطابق پاکستان کو
ایگزیکٹو بورڑ سے منظوری کے بعد لگ بھگ 500 ملین ڈالر کی قسط جاری کی جائے گی۔
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کے مطابق: آئی ایم ایف سے دوبارہ معاہدے سے دنیامیں نہ صرف اچھا پیغام جائے گا بلکہ اس سے ملکی معشیت میں بہتری آئے گی۔ اس طرح ترسیلات زر میں اضافہ اور درآمدات میں کمی سے کرنٹ اکاوئنٹ خسارے کو بھی کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کی رقم حاصل ہو گی جس کے ذریعے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستان روپے کی قدر کو بھی سپورٹ حاصل ہو گی تاہم دوسرے ماہرین معاشیات کے نزدیک ان 50 کروڑ ڈالر کی بہت بڑی قیمت پاکستان کو معاشی نقصان کی صورت میں برداشت کرنی پڑے گی۔ کیونکہ شرائط سے عمل درآمد سے نا صرف ایک عام آدمی کی معیشت متاثر ہو گی بلکہ صنعت و تجارت بھی اس سے شدید متاثر ہوں گے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس سلسلے میں کہا کہ: آئی ایم ایف کا پاکستان سے تعلق اس کے دوسرے ممالک کے تعلق کے مقابلے میں اب بدل چکا ہے کیونکہ پاکستان میں آئی ایم ایف براہ راست معیشت کو کنٹرول کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا اب ہم اس مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں کہ جہاں پر قرض اس لیے حاصل نہیں کیا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے معاشی گروتھ کو مدد دی جا سکے بلکہ یہ قرض گزشتہ قرض کو اتارنے کے لئے لیا جا رہا ہے۔
وفاقی کابینہ نے نیپرا ایکٹ میں ترامیم کے لیے آرڈیننس کی منظوری بھی دے دی ہے اور بجلی کے نرخ کم از کم 4.97 فی یونٹ بڑھانے کی منظوری بھی کچھ دن پہلے دی جا چکی ہے۔
انھوں نے کہا اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو پاکستان ٹیکنکیل طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے کیونکہ قرض لے کر قرض کی واپسی ڈیفالٹ ہی ہوتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سٹرکچرل ریفارمز سے معیشت میں کوئی بہتری نہیں آتی بلکہ اس سے قرضوں کی ادائیگی کو تحفظ دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر اضافی ٹیکس اس لیے اکٹھا کرنے پر زور دیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے قرض کی واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
انھوں نے پروگرام کی بحالی سے جڑی ہوئی شرائط کو پاکستان کی معیشت کے لیے سراسر گھاٹے کا سودا قرار دیا اور کہا کہ اس سے معاشی گروتھ ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔
ان کے مطابق: ان شرائط کے بعد ملک کی اکنامک مینجمنٹ کی بحث ہی ختم ہو گئی اور اب ایک ہی چیز نظر آتی ہے کہ قرض کا چکر اسی طرح جاری رہے گا۔
ڈاکٹر رشید امجد کہتے ہیں: قرض لے کر قرض واپس کرنا کمرشل اور آئی ایم ایف کے قرض کے سلسلے میں صحیح بات ہے لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک سے منصوبوں کے لیے قرضے لیے جاتے ہیں۔
ماہرین معیشت کے مطابق آنے والے دنوں میں اس مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کر سکتا ہے جو ملکی معاشی پیداوار کو بری طرح متاثر کرے گا اور مصنوعات کو مہنگا کرے گا۔
سٹیٹ بینک کے تخمینوں کے مطابق بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافہ اور چینی و گندم کی قیمتیں، جنوری اور فروری کے اعدادوشمار کے مابین مہنگائی میں 3 فیصد درجے اضافے کے تقریباً 1.5 فیصد درجے کی ذمہ دار ہیں۔
بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ آئندہ مہینوں کے دوران عمومی مہنگائی کے اعدادوشمار میں ظاہر ہوتا رہے گا جس سے مالی سال 2021 میں اوسط مہنگائی قبل ازیں اعلان کردہ 7-9 فیصد کی حدود کی بالائی حد کے قریب رہے گی۔
ملکی معشیت اور آئی ایم ایف کے حالات خوفناک اژدھے کا روپ دھار چکے ہیں مگر گبھرانا منع ہے کیونکہ ہمارے وزیراعظم کہہ چکےہیں کہ گبھرانا نہیں ہے۔ لیکن ان سے گزارش ہے کہ وہ یا تو عوام کے نازک کندھوں سے مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ کم کریں یا پھر ہمیں گبھرانے کی اجازت ہی دے دیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کے آگے ایف بی آر سے مزید 1.27 ٹریلین
روپے کا ٹیکس کا حدف مقرر کیا ہے۔ موجودہ سال ایف بی آر کیلئے 4.6 ٹریلین کا حدف ہے جبکہ 2021 سے 2022 میں یہ حدف 5.96 کی بلند ترین سطح پہ پہنچ جائے گا۔ اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 4.97 روپے کا اضافہ بھی منظور کیا گیا ہے ۔
حکومتی موقف کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان کو خود مختاری دے کر ملکی معشیت کے حق میں بہت اچھا فیصلہ ہوگا لیکن اگر ایسا ہی ہے تو حکومت باقی اداروں کی خود مختاری میں ٹانگ آڑاتی کیوں نظر آتی ہے اور ہر معاملہ ان کے یو ٹرنز کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی خودمختاری کھو دیں گے؟ کیا آئی ایم ایف ایک بار پھر سے ہم سے ہماری آزادانہ حثیت چھین رہا ہے؟ کیا ایک بار پھر ہم غلامی کا طوق پہننے جارہے ہیں؟ کیا آئی ایم ایف بھی آہستہ آہستہ ہمارے اختیار پہ قبضہ جما رہا ہے؟ ان چند سوالوں کے جواب ضرور ڈھونڈئیے گا۔