بحریہ ٹاون توسیع: زمینی تنازعے پر انتظامیہ اور گاؤں والوں میں جھڑپ، کئی افراد زخمی

بحریہ ٹاون توسیع: زمینی تنازعے پر انتظامیہ اور گاؤں والوں میں جھڑپ، کئی افراد زخمی
کراچی کے ملحقہ علاقے کاٹھور اور جامشورہ کوٹھ کے قریب بحریہ ٹاون انتظامیہ اور مقامی لوگوں کی جھڑپ کی اطلاعات سامنے آئیں ہیں۔ جھڑپوں کی وجہ بحریہ ٹاون انتظامیہ کا گاوں کی جگہ پر قبضہ اور مقامی لوگوں کی قبضہ روکنے کی کوشش ہے۔ جھڑپوں کا یہ واقعہ آج حاجی علی محمد گوٹھ کے مقامی گاوں میں پیش آیا جہاں بحریہ ٹاون انتظامیہ نے علاقے کو قبضہ میں لینے کی کوشش کی جس پر مقامی لوگوں کی طرف سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ اس جگہ پر پچھلے ستر سالوں سے آباد ہیں۔ حکومت نے بحریہ ٹاون کو جو جگہ الاٹ کی ہے وہ اس میں شامل نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاون کی حدود کا تعین نہیں کیا گیا جبکہ بحریہ ٹاون کو بغیر کسی عدالتی احکامات اور نوٹس کے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس گاوں میں 60 سے 70 خاندان آباد ہیں اور اوسطً ہر گھر کے افراد کی تعداد 7 ہے۔ جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں سے نہیں جانے کیلئے تیار نہیں۔

بحریہ ٹاون انتظامیہ آبادی پر موجود گھر گرانے کیلئے چار بلڈوزر لے کر آئی جس نے 2 گھر مکمل طور پر مسمار کر دئیے گئے ہیں تاہم انہیں روکتے ہوئے ایک شخص آگے آگیا اوراس پر بحریہ ٹاون انتظامیہ کا لوڈر چڑھیا دیا گیا جو شدید زخمی بھی ہوا۔ زخمی ہونے والے کا نام دین محمد بلوچ بتایا جارہا ہے۔   جس کے گھر کے افراد کی تعداد 10 بتائی جارہی ہے۔ مقامی شہری کے زخمی ہونے کے بعد لوگوں نے بحریہ ٹاون انتظامیہ پر پتھراو کر دیا اور پھر دونوں طرف سے جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ قبضے پر مزاحمت کے دوران بہت سے خواتین و حضرات زخمی ہوئے ہیں جنکی تعداد بتانا قبل از وقت ہے۔

https://twitter.com/LylaRaza/status/1311945394847461376?s=20

کراچی میں موجود سماجی اور سیاسی ورکرز جائے وقوعہ پر پہنچے اور واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کردی۔ ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی رہنماء لیلہ رضا نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بحریہ ٹاون انتظامیہ کسی بھی منظور شدہ نقشے کے بغیر اپنا قبضہ بڑھائے جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ملحقہ علاقوں میں بحریہ ٹاون کی زمین صرف 16000 روپے ایکڑ میں فروخت کی جبکہ بحریہ ٹاون یہی زمین اربوں روپے ایکڑ کے حساب پر بیچتا ہے اور بہت سے غریب بےگھر ہو رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اس علاقے میں رہنے والوں کی اکثریت دیہاڑی دار محنت کش اور مزدور ہیں جنکے پاس اسکے علاوہ کوئی متبادل نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی حکومتی یا سیاسی رہنماء متاثرین کی داد رسی کیلئے وہاں نہیں پہنچا۔