کرونا وباء میں بتدریج کمی کے بعد 15 ستمبر کو کالجز اور یونیورسٹیاں کھول دی گئیں جس کے بعد ملک میں ایک بار پھر تعلیمی سرگرمیوں کا عملی آغاز ہوگیا۔ ایک طرف ملک کے مختلف علاقوں کے طلباء تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ضم شدہ قبائلی اضلاع اور بلوچستان کے طلباء بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور بہاولپور یونیورسٹی کے باہر اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ اس احتجاج کی وجہ یونیورسٹیوں کے طلباء کے لیے مختص کی گئی نشستوں اور سکالرشپ کو بحال کروانا ہے۔ حتٰی کہ پنجاب یونیورسٹی کے بلوچ اور پشتون طلباء نے بھوک ہڑتال کا عندیہ بھی دیں دیا ہے۔
یاد رہے کہ سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے باسیوں کی محرومیاں دور کرنے کے لئے حکومت نے مختلف شعبوں میں مخصوص کوٹہ مختص کیا تھا۔ 9 اکتوبر، 2013 کو حکومتِ پنجاب نے تمام جامعات کو بلوچستان کے طلباء کے لیے سکالرشپ اور مختص نشستوں کے بارے اعلامیہ جاری کیا اور ایسا ہی اعلان سابقہ فاٹا کے طلباء کے لئے بھی کیا گیا تھا۔ فاٹا انضمام کے بعد حکومت نے فاٹا کوٹہ کو اگلے دس سال تک برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی کابینہ نے تعلیمی اداروں میں مختص نشستوں کو ڈبل کرنے کا بھی فیصلہ کیا جسے حقیقی جامہ ابھی تک نہیں پہنایا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستان کے طلباء کے لیے 106 خصوصی نشستیں تھیں جنھیں آدھا کر کے 53 تک محدود کیا گیا لیکن احتجاج کے بعد ان میں بلوچستان کی خواتین کے لیے 17نشستوں کا اضافہ کرکے کُل 70 نشستیں کر دی گئیں۔ اسی طرح بہاؤالدین زکریہ یونیورسٹی انتظامیہ نے سابقہ فاٹا کے طلباء سے فیس لینے کا فیصلہ کیا اور اب مختص نشستوں کی پالیسی میں ردوبدل کر کے طلباء کو ان کے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت جو محرومیاں دور کرنے کے بلند و بالا دعوے کر رہی تھی، اب وہ خود مزید محرومیاں پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ پچھلے کچھ ماہ سے اس رحجان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی، بہاؤالدین زکریا اور بہاوالپور یونیورسٹی نے یکے بعد دیگرے سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلباء کے حوالے سے اپنی پالیسی کو بدلا۔ ستم ظریفی یہ کہ اس سلسلے میں کسی حکومتی وزیر کا موقف سامنے نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے کوئی قدم اٹھایا۔ سوشل میڈیا کیمپین اور احتجاجوں کی وجہ سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا معاملہ سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں زیرِ بحث آیا جس کا فیصلہ آنا باقی ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ ان یونیورسٹیوں نے یہ فیصلہ کس کے کہنے پر کیا کیونکہ سکالرشپ کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ حکومت کو خود کرنا تھا۔ اس حوالے سے گورنر پنجاب نے آڈیو پیغام جاری کیا کہ انہوں نے اس طرح کےکوئی احکامات نہیں دیے جو مزید شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہےکہ کیا واقعی سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے قریبا ہزار طلہ ان تین جامعات پر اتنا بوجھ ہیں کہ ان کی سکالرشپ کو ختم کرنا ناگزیر تھا؟ حالانکہ کرونا وبا کے بعد جہاں ان کو مزید ریلیف دینی چاہیے تھی وہیں ان پر زمین مزید تنگ کیا جارہا ہے ۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر ان دو ماہ میں ایسا کیا ہو گیا ہے جس نے یونیورسٹی انتظامیہ کو حکومتی نوٹس کے بغیر یہ اقدامات اٹھانے پر مجبور کر دیا؟
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے طلباء پچھلے ایک ماہ سے احتجاج کر رہےہیں لیکن وائس چانسلر اکبر کنڈی کے پاس ان سے مذاکرات کرنے کا وقت تک نہیں ہے۔ اس حوالے سے جب میں نے وائس چانسلر اکبر کنڈی سے بات کی اور طلباء کا مدعا ان کے سامنے پیش کیا تو ان کے جوابات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کی احتجاج وغیرہ کچھ بھی نہیں بس ایک بدمعاش ٹولہ اکٹھا ہوا ہے جو احتجاج کر رہا ہے۔ سابقہ فاٹا کے لوگوں کے پاس بہت پیسہ ہے ہم کیوں ان کو مفت تعلیم دیں؟ اس طرح تو پنجاب میں بہت سارے غریب طلباء ہیں وہ تو مفت تعلیم حاصل نہیں کر رہے۔ تو کیا صرف مفت تعلیم حاصل کرنا سابقہ فاٹا والوں کا حق ہے؟"
جب میں نے ان سے استفسار کیا کہ حکومتِ پاکستان نے سابقہ فاٹا کے لیے سکالرشپ کا اعلان کیا تھا اور یہ مزید آٹھ سال تک رہے گا اور جو آپ فنڈز کی کمی کی بات کر رہےہیں تو کیا آپ نے حکومت سے فنڈز کے بارے میں کوئی درخواست کی ؟ جس پر وائس چانسلر صاحب غصے میں آ گئے اور کہا کہ انہوں کئی مرتبہ حکومت سے کہا ہے اور اگلے ہی لمحے میں فون بند کیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کا رویہ ناصرف افسوس ناک ہے بلکہ سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلباء کی محرومیوں میں مزید اضافے کا باعث بھی ہے۔ سابقہ فاٹا اور بلوچستان میں جہاں پہلے ہی مسائل کے انبار ہیں اور تعلیی معیار کے ساتھ ساتھ شرح خواندگی بہت نیچے ہے، وہیں پر باقی صوبوں میں ان کے حقوق کے حصول میں خلل آنا ان کو اندھیرے میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ لہذا حکومت ِپنجاب اور جامعات کی انتظامیہ کو چاہئے کہ ان طلباء کے تحفظات کو دور کریں اور ان کے لیے مختص نشستوں اور سکالرشپ کو بحال کریں تاکہ وہ تعلیم جیسی دولت سے محروم نہ رہ سکیں۔