سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل مصطفین کاظمی نے 5 رکنی لارجر بینچ کے ساتھ بدتمیزی کی اور بینچ میں شامل ججز کو دھمکی دی کہ آپ ہمارے خلاف فیصلہ کر کے دیکھیں، ہمارے 500 وکیل سپریم کورٹ کے باہر موجود ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 63 اے پر نظرثانی اپیل کیس کی سماعت گذشتہ روز سے جاری ہے۔ سماعت کرنے والا لارجر بینچ 5 ججز پر مشتمل ہے اور بینچ کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے ہیں۔
آج کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے ایک ورکر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ 5 رکنی بینچ غیر آئینی ہے، ہمارا 500 وکیل باہر کھڑا ہے، دیکھتے ہیں آپ کیسے ہمارے خلاف فیصلہ سناتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں درخواست کی کہ وہ سیٹ پر بیٹھ جائیں مگر جب انہوں نے اس ہدایت پر عمل نہ کیا تو چیف جسٹس نے پولیس کو بلا کر کہا کہ اس جینٹل مین کو سپریم کورٹ سے باہر نکالیں۔
سپریم کورٹ سے باہر آ کر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مصطفین کاظمی کا کہنا تھا کہ یہ بینچ غیر آئینی ہے، 63 اے کے فیصلے کو جس جج نے تحریر کیا وہ اس بینچ کا حصہ نہیں ہے اور جسٹس منصور علی شاہ بھی اس بینچ میں شامل نہیں ہیں۔ جن دو ججز کو ان کی جگہ شامل کیا گیا ہے وہ اصل بینچ کا حصہ نہیں تھے، اب چونکہ بینچ نیا ہے تو دلائل بھی نئے سرے سے سنے جانے چاہئیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کل کی سماعت کے دوران بینچ حکومت کے حق میں فضا بنانے کی کوشش کرتا رہا اور سپریم کورٹ بار سے ایک بھی اختلافی سوال نہیں پوچھا۔ بیرسٹر علی ظفر کو کل بھی بولنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا اور آج بھی وہ ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں، انہیں پوری طرح بولنا چاہیے۔
انہوں نے بینچ کو دھمکی دینے کی تردید کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں نے بالکل یہ کہا ہے کہ ہمارا 500 وکیل باہر کھڑا ہے اور ہم اس فیصلے کا تحفظ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری پارٹی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ انہوں نے مجھے سپریم کورٹ سے نہیں نکالا بلکہ میں خود احتجاجاً باہر آ گیا ہوں اور میرے احتجاج سے پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچے گا۔