' بطور جج سوال کرنا میرا حق ہے، خلل ڈالنا مناسب نہیں'، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر میں تلخ کلامی

 جسٹس منیب اختر نے کہاکہ بنچ کا حصہ ہونے پر میراحق ہے کہ میں سوال کروں۔بطور جج سوال کرنا میرا حق ہے۔ اگر اس طرح سوال کے دوران خلل ڈالیں گے تو یہ نامناسب ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ ظاہر ہے آپ سوال کر سکتے ہیں لیکن  ہم یہاں وکلا کو سننے آئے ہیں۔پہلے وکیل دلائل تو مکمل کرنے دیں۔

' بطور جج سوال کرنا میرا حق ہے، خلل ڈالنا مناسب نہیں'، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر میں تلخ کلامی

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف دائر درخواستوں پر  سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےے  دلائل کے دوران سوال کرنے سے روکنےکے باوجود جسٹس منیب اختر  نے وکیل سے سوال پوچھ لیا جس پر چیف جسٹس پاکستان اور فاضل جج کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

سپریم کورٹ  میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت  جاری ہے۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔ فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔

ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ کیس میں فریق نہیں ہوں۔ عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا۔سوال ہوا کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں۔عدالت کو دو فیصلوں پر دلائل دوں گا۔ ایک بار کاکڑ کیس کا حوالہ دوں گا۔ دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دوں گا۔

فیصل صدیقی نے کہاکہ ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں "لا" کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ کنفیوژن ہے کہ آرٹیکل 191 میں لاء کے لفظ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ رولز میں ردو بدل ہے یا نہیں۔ آرٹیکل 191 میں لفظ "لاء" کا مطلب ہے کہ وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے۔   سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ اگر ’’لا‘‘ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہوتا تو آئین سازوں نے یہی لکھا ہوتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں۔مسٹر صدیقی! آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں۔

ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ رولز میں لا کی تعریف لکھی ہے۔ سپریم کورٹ رولز بناتے وقت کوئی ابہام نہیں تھا کہ لا کا کیا مطلب ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے  دلائل کے دوران سوال کرنے سے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے سوال  کیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191میں لا کا کیا مطلب ہے؟  چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے مکالمہ کہا کہ اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا لیا تو فیصلے میں لکھ لیجیے گا ۔ وکیل کو جیسے مرضی دلائل دینا ہوں گے ، دے گا۔

  جسٹس منیب اختر نے کہاکہ بنچ کا حصہ ہونے پر میراحق ہے کہ میں سوال کروں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ظاہر ہے آپ سوال کر سکتے ہیں لیکن  ہم یہاں وکلا کو سننے آئے ہیں۔پہلے وکیل دلائل تو مکمل کرنے دیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور  وکیل اس کا جواب دیں۔

چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ بطور جج سوال کرنا میرا حق ہے۔ اگر اس طرح سوال کے دوران خلل ڈالیں گے تو یہ نامناسب ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ خلل نہیں ڈال رہا۔ وکیل کو سن لیتے ہیں پھر سوالات  کا جواب آ جائے گا۔ ہمیں پہلے ہی رائے دینے کے بجائے فیصلہ لکھنا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن کے سوالات پر چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس دیے تو وکیل فیصل صدیقی مسکرا دیے۔

چیف جسٹس نے وکیل کے مسکرانےپر تنبیہ کرتے ہوئے کہاکہ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں۔ 4سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں۔ کئی کیسزالتوا کا شکار ہورہے ہیں۔ اپنے ساتھی ججز سے درخواست ہے اپنے سوالات کو روک کر رکھیں۔بنچ میں ہر کوئی سوال کرنا چاہتا ہے لیکن وکیل کی کوئی دلیل پوری تو ہونے دیں۔ 4سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے ایک کیس ختم نہیں ہوا۔