تین سالہ تبدیلی کا پوسٹ مارٹم بذریعہ چند دانشور

تین سالہ تبدیلی کا پوسٹ مارٹم بذریعہ چند دانشور
ایک محفل میں چند دانشور دریا پار سے آنے والے دانشور کے اعزاز میں سالوں بعد اکٹھے ہوئے، جو حکومتوں سے لے کر عوام تک سب سے بخوبی واقف تھے۔ مہمان دانشور نے عرض کیا کہ "سنائیے بعد ہمارے وطن عزیز کا کیا حال رہا"۔ وہ صاحب کافی عرصہ ولایت میں گزارنے کے بعد حال ہی میں وطن لوٹے تھے۔ پرانے دوست کی فرمائش پر ایک صاحب جو ملکی تاریخ بارے بڑی جانکاری رکھتے تھے یوں گویا ہوئے کہ؛

"آزادی کے بعد پاکستان چند سال بہت خوش قسمت رہا۔ اسے جو پہلی قیادت نصیب ہوئی وہ ان مخلص لوگوں کی تھی جنھوں نے اس ملک کو حاصل کرنے اور اسے ایک عظیم الشان مملکت بنانے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ لیکن وہ چند سال گزرنے کے بعد یہ ملک جس قسم کی قیادت کے ہاتھوں میں آیا اس نے اس کو جس بیدردی سے لوٹا اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ یہ ملک ایک ایسے محاورے کی زد میں آ گیا جیسے اندھے کے ہاتھ میں بٹیر لگ گئی ہو۔ یعنی جس جس کا جہاں بس چلا خواہ وہ حکومتی نمائندے ہوں یا پھر سرکاری افسران سب نے عوامی فکر کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنے اپنے مفادات کی فکر کرتے ہوئے جی بھر کے استحصالی نظام سے اپنے گھروں کے دیپ جلائے۔ اس کی یہ باقیات آج جدید عہد میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ شاید پاکستان روئے زمیں پر وہ واحد ملک ہے جہاں جمہوریت جیسی عوامی بادشاہت کے نام پر امرا طبقے کی حکمرانی ہے"۔

وہ صاحب ابھی اپنی باچھوں میں آئی تھوک ہی صاف کر رہے تھے کہ دوسرے دانشور جو فلسفے کے استاد بھی تھے انکی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ؛

"صحیح قیادت اور ملک دوست حکمت عملی ان سے ریاست کا خمیر گوندھا ہوتا ہے۔ عوام شعوری طور پر اگر بالغ ہو تو ہمیشہ ایسے لوگوں کا انتخاب کرتی ہے جو درست طریقے سے انکی نمائندگی کرنا جانتے ہوں۔ کیونکہ عوام جانتی ہے کہ جمہوریت کا مطلب ہے فرد کی حکمرانی۔ لیکن ہماری موجودہ جمہوریت اس قدر فرسودہ اور روایتی ہے کہ اتنی پاکستان کی اپنی عمر بھی نہ ہوگی۔ میرے اس جملے سے حاضرین چونکیے مت۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی جمہوری اقدار کا بیج پاکستان سے بھی پہلے رکھا گیا ہے۔ اس لئے پاکستان کا موجودہ جمہوری طرز عمل پاکستان سے بھی پرانا ہے۔ انگریزوں کو اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے علاقے کے وڈیروں، جاگیر داروں اور سجادہ نشینوں کی بڑی ضرورت تھی۔ وہ ایک شخص کو نواز کر پوری قوم کی وفاداری مشترکہ طور پر خرید لیتے تھے۔ بدلے میں وہ اس علاقے کے سربراہ کو ہر قسم کے انعامات سے نوازتے۔ زمینیں دی جاتیں جن سے انکی اجارہ داری میں اضافہ ہوتا۔ خطابات دیے جاتے جن سے انکے اقتدار میں برکت پڑتی۔ قیام پاکستان کے بعد صرف حکمرانوں کی شکل بدلی انگریزوں سے مسلمان اقتدار پر آئے ان کے آنے کا فائدہ عام آدمی کو کچھ بھی نہ ہوا۔ یہی وڈیرے اور امرا اپنے اپنے علاقوں سے نکل حکومتی ایوانوں میں آ بیٹھے۔ اور الحمدللہ موجودہ جمہوری نظام میں بھی اپنے اپنے والدین کی اس روش کو آج بھی برقرار رکھے ہم پر مسلط ہیں۔ پاکستانی سیاست کا ایک گھناؤنا روپ اس کا موروثی ہونا ہے جس کے نتیجے میں ایک مکمل ناخواندہ اور عوامی مسائل سے نا واقف طبقہ اسمبلیوں میں پہنچ کر اس عوام کی ترجمانی کر رہا ہے جس سے وہ واقف ہی نہیں۔عوام بھی اتنی بد نصیب کہ وہ اپنی حمایت کے لئے آج تک اپنے علاقے کے وڈیرے اور امیر آدمی کے آگے سوچ ہی نہ سکی۔ بجلی، گیس اور سڑکیں ہر قسم کے غیر معیاری طرز زندگی کے بعد بھی اس نے اپنے آپ کو امرا پرستی کے شر سے نکالنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ یہیں سے پاکستان کی پسماندگی کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع ہوا۔ سالہاسال سے چلتی یہ روش اس قدر مستحکم ہو گئی کہ جاگیر داروں وڈیروں سے ہماری جمہوریت آزاد ہی نہ ہو سکی۔ ہمیشہ عوامی فلاح کا کوئی بھی منصوبہ ان امیر زادوں نے صرف اس وجہ سے کامیاب نہیں ہونے دیا کہ ان کی شخصیت پرستی میں کمی نہ آ جائے۔ زرعی اصلاحات سے لیکر تعلیمی اصلاحات تک صرف عوامی حق تلفی کرنے کے سوا اور کچھ نہ کیا گیا"۔

تیسرے دانشور جو تبدیلی کے طاقتور بحران کا شکار تھے اور تبدیلی کے کبھی زبر دست حامی رہے تھے سامعین سے مخاطب ہو کر کہنے لگے

"ٹکڑوں میں بٹی اور امرا پرستی سے چور اس عوام کو پہلی بار آگاہی دی گئی کہ انکی طاقت کیا ہے۔ نتیجتاً 2018 کا الیکشن اس پارٹی کے حق میں آیا جس نے عوام میں تبدیلی کا شعور اجاگر کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے خالق جناب عمران خان نے تبدیلی کی وہ ہوا چلائی کہ اقتدار انکی گود میں پکے ہوئے پھل کی مانند آن گرا۔ اور انکی جماعت جو مختلف قسم کے پارٹی ورکروں سے معمور تھی بر سر اقتدار آگئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ خان صاحب جیسے جہاں دیدہ شخص نے یہ بات کیوں محسوس نہ کی کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ موروثی سیاست ہے۔ جب تک اس کو ختم نہ کیا جائے حقیقی تبدیلی لانا ناممکن ہے۔ لیکن بد قسمتی سے 22 سال جدو جہد کرنے والی یہ جماعت بھی صرف اقتدار کا چہرہ بدلنا چاہتی تھی۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے تبدیلی کی جو تعریف متعین کی وہ کچھ یوں تھی کہ صرف خان صاحب وزیر اعظم بنیں۔ عوام کے سینے میں امنگوں کی جو جوت اس جماعت نے جگائی تھی وہ بد قسمتی سے پانی کے بلبلے سے بھی زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکی۔ عوام نے پی ٹی آئی کو صرف اس وجہ سے چنا تھا کہ یہ کرپشن سے پاک ہوگی، موروثی سیاست کا گلا گھونٹ کر اور چور ڈاکوؤں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر عوام کے ساتھ ساتھ ملکی وقار میں بھی اضافہ کرے گی"۔ ذرا توقف کے بعد وہ مزید گویا ہوئے۔

" یہ نعرے ایسے نہیں جنھیں اس ملک کا کوئی فرد سوچ سکے۔ بلکہ ان عظیم نعروں کے خالق وہ مفکر اعظم تھے جنھوں نے تبدیلی کا نعرہ ایک کھلونے کی طرح عوام کے ہاتھ میں تھمایا تھا۔ آج عرصہ تین سال گزرنے کے بعد عوام اس تبدیلی کا لالی پاپ ہاتھ میں لئے اپنی حالت زار پر روتی اور اس تبدیلی کے کھوکھلے کھلونے کو پاکر وزیر اعظم پر ہنستی ہوئی ملتی ہے۔ ہنسنے کی وجہ صاحب کی وہ دوغلی اور کھوکھلی بیان بازی تھی جس کے دم پر اس نے قوم کے اعتماد کو لوٹا ہے۔ اس ریاست کو مدینے کی ریاست جیسی ایک فلاحی ریاست بنانے کا خواب دکھا کر قوم کے ایک ہاتھ میں احساس پروگرام اور دوسرے ہاتھ میں لنگر خانے رکھ دیے ہیں۔ پی ٹی آئی نے 85 ارب سے 260 ارب احساس پروگرام کے لئے مختص کیے ہیں۔ لنگر خانوں سے اگر قوموں میں بہتری آتی تو آج اس محنت سے عاری اور اپنا قبلہ نہ درست کرنے والی قوم نے عظمتوں کے نئے مینار بنا لیے ہوتے۔ یہ ایک تسلیم شدہ تلخ حقیقت ہے کہ احساس پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ایسے پراجیکٹس اس لیے حکومتیں دیتی ہیں کہ عوام کے ہاتھ حکمرانوں تک نہ پہنچیں۔ اس طرح کی مالی امداد کو سب بخوبی جانتے ہیں، قومیں ترقی نہیں کرتیں بلکہ الٹا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ عوام محنت سے جی چراتے ہوئے اپنے وقار سے گر جاتی ہے"۔

پی ٹی آئی سے وابستہ ایک صاحب نے ایک دل چیر نگاہ خان صاحب کے خلاف بولنے والے پر ڈالی اور پھر ذرا تند لہجے میں بولے کہ؛

"وزیر اعظم صاحب سمجھدار ہیں۔ انھوں نے کئی اچھے کام کیے ہیں جو مجھے ابھی یاد نہیں۔ لیکن اپنے اقتدار کے تین سال گزارنے کی جو تقریب انھوں نے منعقد کرائی ہے وہ کسی اچھے شگون سے کم نہیں۔ کیا پچھلی حکومتوں نے اپنا معیار بتانے کے لئے کبھی ایسا کیا۔ اس تقریب میں خان صاحب کی اعداد و شمار والی منطق کیسی خوب تھی۔ آپ نے ترقی کا جو فارمولا عوام کو سنایا وہ ذرا پیچیدہ ہونے کی وجہ سے علم ریاضی سے ناواقف لوگوں کو بوکھلا گیا اور عوام اپنی بغلیں جھانکتے ہوئے اس کا اپنی حالت زار سے موازنہ کرنے بیٹھ گئی۔ اب اس میں وزیر اعظم صاحب کی تو غلطی نہیں۔ وہ آکسفورڈ گریجوایٹ ہیں ان سے پڑھی لکھی بات ہی سنی جا سکتی ہے۔ یہ تو حیف ہے اس بے وقوف اور جاہل عوام پر جسے اپنے وزیر اعظم کی بات پر بھی اعتماد نہیں۔ عوام کو پیٹرول سے لے کر اشیائے خورد نوش مہنگے مل رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب تو قطعاً نہیں کہ ملک ترقی نہیں کر رہا۔ گاڑیاں پاکستان میں سب سے زیادہ خریدی گئیں۔ گورنر سندھ نے کیسا عمدہ " تبدیلی آئی رے" گایا۔ کیا یہ زندہ دلی کی علامت نہیں۔ اگر اس قدر افراد اپنی حکومت کو بہتر سمجھتے ہوئے زندہ دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو ہو گی"۔

پی ٹی آئی سے جلے دانشور نے پی ٹی آئی کے حامی دانشور کو قہر آلود آنکھوں سے دیکھا۔ اور منہ سے جھاگ اڑاتے پھنکارتے ہوئے کہا؛

"اس تین سالہ تقریب نے ثابت کیا کہ آپ ملکی ترقی کو لے کر کتنے سنجیدہ ہیں۔ صرف تبدیلی کے نعرے اور پی ٹی آئی نغموں سے مزین یہ تقریب جس میں عمران اسماعیل کو سنگر یا گورنر بہتر قرار دینا وزیراعظم کے بس کی بات نہیں۔ کام سے نہیں ان نغموں سے اپنے قائد کا دل جیتنے کی کوشش میں مگن یہ لوگ جانتے ہیں کہ انکے لیڈر کا معیار کیا ہے۔ پنجاب میں لا اینڈ آرڈر کی یہ صورتحال ہے کہ پولیس اپنے فرائض کو بھولتی جا رہی ہے۔ وہ کونسی عینک ہے جس میں آپ کو وزیر اعلیٰ کی کار کردگی نظر آتی ہے اور حلات کی الجھی ہوئی گتھی آپ سلجھانے سے قاصر ہیں۔ پنجاب جو ہر صوبے کے لئے ایک آئیڈیل صوبہ تھا اسکی ناقص دیکھ بھال سے آپ نے بھٹہ بٹھا دیاہے۔ غربت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ مہنگائی قابو میں نہیں آرہی۔ تیل بجلی اشیائے خورد نوش عوام کے ہاتھوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ گردشی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اور آپ ابھی تک وہی پرانا راگ الاپتے نظر آ رہے ہیں کہ پچھلی حکومت کرپٹ تھی۔ اس بات کے لئے وزیر اعظم تو کوئی قوم نہیں چنتی۔ مسیحا کو ہی اگر سمجھ نہ ہو تو وہ مریض کی کیا مسیحائی کرے گا۔ صاحب بہادر کی سوچ میں اور ان کے عمل میں دن رات جیسا تضاد ہے۔ ہمارے حکمران سمجھتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں وہی ٹھیک ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کی حالت آپ کے سامنے ہے اور آپ اس کو جھوٹ کا پلندہ کہہ رہے ہیں۔ دانشور صاحب! ایک چھوٹا سا فرعون آپ کے دل میں بیٹھا ہوا ہے جو آپ کو تکبر کے اب اس درجے پر لے کے جا رہا ہے جہاں سے واپسی نہیں ہوتی بلکہ وہ جہنم میں لے جاتی ہے۔ آپ کے آقا نے 22 سال جدوجہد نہیں کی اگر کی ہوتی تو آج ملکی حالت کو سنجیدگی سے لے رہے ہوتے۔ آپ نے صرف اپنے حجرے میں بیٹھ کر وزیر اعظم وزیر اعظم کی مالا جپی ہے۔ یہ میں نہیں آپ کی وزارت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے"۔

کمرے میں ایک سکوت طاری تھا۔ الفاظ کی سنگینی نے ہر شخص کو خاموش کرا دیا تھا۔ اور نو وارد دانشور اس سوچ میں غرق تھے کہ پہلی فلائیٹ کل کتنے بجے کی ہے۔

 

مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔