Get Alerts

مردوں کے مقابلے میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟

آبادی میں صنفی بنیاد پر ایک فیصد جبکہ ووٹرز لسٹ میں مرد و خواتین ووٹرز میں 10 ملین کا یہ فرق سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ایک کروڑ خواتین کے ووٹ اندراج میں کیا مسائل درپیش ہیں۔ جبکہ ووٹ منتقلی اس مسئلے کا ایک اہم جزو ہے جو ووٹ کاسٹنگ کی شرح پر اثرانداز ہوتا ہے۔

مردوں کے مقابلے میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟

معاشرے میں سیاسی شعور نے سیاسی جماعتوں اور جمہوری اداروں کو یہ ادراک کروایا ہے کہ خواتین کا ووٹ بھی مرد ووٹرز کے برابر اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن کیا ہماری سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن، دیگر متعلقہ ادارے اور ووٹرز اس امر سے باخبر ہیں کہ خواتین ووٹرز اور ان کی ووٹنگ شرح مرد ووٹرز کے مقابلے میں کم کیوں ہے؟

فروری 2024 کو پاکستان کے 12ویں عام انتخابات میں تقریباً 60.6 ملین ووٹرز نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ 2018 کے انتخابات کی نسبت اس مرتبہ 6 ملین کے لگ بھگ ووٹ زیادہ کاسٹ ہوئے ہیں۔ اس طرح کل ووٹرز کی تعداد 106 ملین سے بڑھ کر 128 ملین ہو گئی۔ لیکن ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح 52 فیصد سے کم ہو کر 47 فیصد پر آ گئی۔ 

ان انتخابات میں خواتین ووٹرز کی تعداد 58.9 ملین تھی، جن میں سے 41.6 فیصد خواتین نے ووٹ کاسٹ کیا جو کہ 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں 5 فیصد کم تھے۔ خواتین کی ووٹ ڈالنے کی شرح میں کمی کی ایک بڑی وجہ ان کا ووٹ متعلقہ حلقے میں بروقت منتقل نا ہونا ہے۔

سابق ممبر ضلع کونسل خانیوال و سماجی تنظیم 'روشن راہیں' کی صدر بسم اللہ ارم کا کہنا ہے کہ خواتین کے ووٹ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نا ہونے میں بڑا کردار پدرسری روایات پر مبنی معاشرہ اور اداروں کے مابین تعاون کا نا ہونا ہے۔

مسیحی کالونی خانیوال کی رہائشی 27 سالہ کائنات کا کہنا ہے کہ انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کا شوق تھا، ان کی شادی 2017 میں ہوئی اور 2018 کے انتخابات سے پہلے ان کے شوہر نے ان کا ووٹ ٹرانسفر کروانے کیلئے شہری حلقے کے ڈسپلے سنٹر پر مکمل فارم جمع کروایا لیکن انہیں انتخابات سے کچھ دن قبل اس بات کا علم ہوا کہ ان کا ووٹ تو ابھی بھی چیچہ وطنی کے حلقے میں ہی موجود ہے جس وجہ سے وہ ووٹ کاسٹ نہیں کر سکیں۔ اس کے بعد 2022 کے ضمنی انتخابات سے قبل ان کے شوہر نے ضلعی الیکشن کمیشن کے دو سے تین چکر لگا کر یہ عمل مکمل بھی کیا اور یہ یقینی بنایا کہ ان کا ووٹ خانیوال ٹرانسفر ہو چکا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس عمل میں متعلقہ کاغذات کی جھنجھٹ سے چھٹکارا دلواتے ہوئے خواتین کے شناختی کارڈ بنوانے کی طرز پر ووٹ منتقلی کو بھی آسان بنایا جائے اور الیکشن کمیشن کے عملے کی تعداد و استعداد کار میں بہتری لائی جائے تو ووٹ منتقلی کا مرحلہ آسان ہو سکتا ہے۔

اپنی سیاسی سرگرمیوں کے تجربات کی بنیاد پر ان کا ماننا ہے کہ تنگ نظر خاندانوں میں بچیوں کا شناختی کارڈ نہیں بنوایا جاتا، جبکہ شادی ہونے کے بعد ان کی اُولاد پیدا ہونے کے بعد تک ان کا شناختی کارڈ بنانے کا تردد نہیں کیا جاتا۔ خواتین کا شناختی کارڈ بننے پر پہلی مرتبہ تو ووٹ ساتھ ہی بن جاتا ہے جو شادی کے بعد ان کے نئے و متعقلہ حلقے میں ٹرانسفر کروایا ہی نہیں جاتا۔ اور اگر شناختی کارڈ شادی کے بعد بنا ہے تو طلاق ہونے کی صورت میں اس خاتون کا ووٹ اس کے سسرال والے حلقے میں ہی رجسٹر ہوتا ہے۔ اسی خاتون نے اگر دوسری شادی کی، سابقہ طلاق اور دوسری شادی کی رجسٹریشن نہیں کروائی گئی۔ جس کے باعث نادرہ میں خاتون کا سٹیٹس چینج نہیں ہوا، جس کی بنیاد پر اُن کے ووٹ کا اندراج اس کا اسی جگہ پہ رہتا ہے، جہاں پر وہ پہلی بار رجسٹر ہوا تھا۔

ایسی صورت حال میں بیش تر خواتین طلاق کے بعد سابقہ سسرال سے قطع تعلقی کے بعد اس حلقے میں جا کر ووٹ بھی کاسٹ نہیں کرتیں جہاں سے ان کا کوئی تعلق نا رہا ہو اور اپنے ووٹ کی منتقلی کو بھی اہمیت نہیں دیتی ہیں۔

بعض اوقات طلاق ہونے کے بعد خواتین کا یہ سٹیٹس تبدیل کروانے کا تردد نہیں کیا جاتا ہے کہ کیا ضرورت ہے اس مشق کی، جبکہ 50 سال سے زائد عمر کی خواتین کے حوالے سے مرد سوچ لیتے ہیں کہ انہیں سیاسی عمل میں شامل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

دوسری بڑی وجہ ذریعہ معاش کے سلسلے میں خاندان کی ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت ہے جس میں مرد تو اپنے شناختی کارڈ پر پتہ تبدیل کرواتا ہے اور ساتھ ہی ووٹ بھی منتقل کروا لیتا ہے لیکن خواتین اس حوالے سے کوشش کرتی ہیں اور نا ہی اس معاملے کو اہمیت دیتی ہیں بلکہ اپنے تئیں یہ سوچتی ہیں کہ گھر کے سربراہ کا ووٹ منتقل ہو گیا تو پورے کنبے کی منتقلی ساتھ ہو جائے گی جبکہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ایک کنبے میں ہر ایک فرد کی معاشرتی پہچان مختلف ہو سکتی ہے (کوئی شادی شدہ ہے، کوئی بیوہ ہے، کوئی طلاق یافتہ یا غیر شادی شدہ)، اس کے لئے نادرہ سے ہر فرد کا سٹیٹس اپڈیٹ ہونا ضروری ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق انتخابات 2024 کے لئے 128 ملین سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سے 69 اعشاریہ 5 ملین ووٹر مرد، جبکہ 59 اعشاریہ 5 ملین ووٹر خواتین ہیں۔ جبکہ پاکستان کی موجودہ آبادی 224 اعشاریہ 5 ملین ہے جس میں سے 49 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آبادی میں صنفی بنیاد پر ایک فیصد جبکہ ووٹرز لسٹ میں مرد و خواتین ووٹرز میں 10 ملین کا یہ فرق سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ایک کروڑ خواتین کے ووٹ اندراج میں کیا مسائل درپیش ہیں۔ جبکہ ووٹ منتقلی اسی مسئلے کا ایک اہم جزو ہے جو ووٹ کاسٹنگ کی شرح پر اثرانداز ہوتا ہے۔

الیکشن کمیشن خانیوال کے الیکشن آفیسر و صوبائی الیکشن کمیشن کے ترجمان کے مطابق خواتین یا دیگر ووٹرز کے ووٹ منتقلی کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب ہی نہیں کیا جاتا۔ 

اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق خواتین و نوجوانوں کے ووٹ اندارج، ٹرانسفر، کوائف کی درستگی سے لیکر ان کی ووٹنگ شرح کو بہتر بنانے جیسے اہداف کے حصول کے لئے ملک بھر کے تمام اضلاع میں ووٹر ایجوکیشن کمیٹیز تشکیل دی گئی تھیں جنہوں نے 2021 تا 2023 میں مجموعی طور پر 308 سیشنز کا انعقاد کیا۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے خواتین و معذور افراد کو سازگار ماحول کی فراہمی کیلئے الیکشن پولنگ و حفاظتی عملے کے لئے 26 ہزار سے زائد تربیتی نشستوں کا انعقاد کیا۔ جس کے باعث 2024 کے انتخابات میں ووٹر لسٹ میں جینڈر گیپ 12 فیصد سے کم ہو کر 8 فیصد رہ گیا ہے۔

الیکشن کمیشن پنجاب کی ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیا کوآرڈینیشن ہُدا علی کا کہنا ہے کہ بعض اوقات عمر رسیدہ خواتین سمیت مردوں کے ووٹ بھی کسی غیر متعلقہ حلقے میں منتقل ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے 8300 پر شناختی کارڈ نمبر بھیج کر متعلقہ پولنگ اسٹیشن کی معلومات حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی ہوئی ہے۔ جبکہ ووٹ منتقلی کے لئے الیکشن ڈسپلے سنٹرز اور اساتذہ کی ڈور ٹو ڈور مہم بھی مکمل کی گئی تھی۔ لیکن ووٹرز کی ایک بڑی تعداد بشمول خواتین اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور عین موقع پر پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی سہولتوں و اقدامات یا مہم کے حوالے سے بسم اللہ ارم کا یہ دعویٰ ہے کہ گھریلو خواتین تک ان چیزوں کی بروقت معلومات کی رسائی تقریباً ناممکن ہے۔ اور انہیں آج بھی بیش تر کاموں میں حتی کہ شناختی کارڈ یا ووٹ منتقلی میں مرد کے تعاون و ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی پہلے ہی یہ ترجیح نہیں ہے کہ اسے سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ خانیوال کو ہی دیکھ لیں تو ڈسپلے سنٹر لڑکوں کے سکول میں بنے ہوئے ہیں اور الیکشن کمیشن کے دفتر میں ایک بھی خاتون ملازمت نہیں کر رہی ہے تو خواتین کی وہاں رسائی اتنی آسان نہیں ہے یا انہیں حفاظتی اعتبار سے خوف کا سامنا ہوتا ہے۔ اداروں کی سطح پر اس حوالے سے اگر آسانی ہو تو خواتین کی اس جانب دلچسپی بڑھ سکتی ہے۔

ہزاریہ ترقیاتی مقاصد (ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز) کا ہدف نمبر 5 صنفی مساوات پر زور دیتا ہے۔ ان طے شدہ اہداف کے حصول میں سب سے زیادہ پیش رفت وہی ملک دکھا رہے ہیں، جہاں مقامی حکومتوں کے فعال نظام قائم ہیں، جو بالخصوص خواتین کی شمولیت پر مبنی ترقی پر زور دیتے ہیں۔ خواتین کو اس عمل سے خارج کرنے سے ایک اہم عنصر غیر حاضر رہ جاتا ہے۔ جبکہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازات کے خاتمے پر اقوام متحدہ کے سیڈا کنونشن کی پاکستان نے 12 مارچ 1996 کو توثیق کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ہمارا حکومتی نظام سیاسی اور عوامی زندگی بشمول انتخابات میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لئے تمام مناسب اقدامات کرے گا۔

بسم اللہ ارم نے تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کی کہ اس حوالے سے اداروں کے مابین قانون سازی کریں اور خواتین کے ووٹ رجسٹریشن و منتقلی کے حوالے سے ایک قابل عمل و آسان ضابطہ اخلاق بنائیں۔ جس میں خواتین کو ووٹ رجسٹر کرنے اور منتقل کرنے سے لے کر کاسٹ کرنے تک کسی قسم کی دشواری نہ ہو تاکہ وہ بھی مردوں کی طرح کسی رکاوٹ کے بغیر گھروں سے نکل کر ووٹ کاسٹ کر سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں و سرکاری ادارے اس حوالے سے سنجیدہ ہیں تو انہیں خواتین کے ووٹ منتقلی کا عمل آسان بنانا ہوگا۔ جس کے لئے یونین کونسل کے آفس میں الیکشن کمیشن کا ایک نمائندہ موجود ہو۔ یوں ووٹ منتقلی، نام و کوائف کی درستگی کا عمل بروقت سرانجام دیا جا سکے گا جس سے ووٹنگ کی شرح میں عدم توازن میں کمی آئے گی اور خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت مزید بہتر ہوگی۔ 

فیصل سلیم میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سماجی مسائل اور دلچسپ حقائق شامل ہیں۔