Get Alerts

حیدرآباد؛ خواتین ووٹرز کن ترجیحات کی بنیاد پر ووٹ دیں گی؟ دوسرا حصہ

سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کو بھی چاہیے کہ خود حیدرآباد کی خواتین ووٹرز تک پہنچیں، ان کے مطالبات جانیں اور ان کے لیے الگ مہم چلائیں۔ جہاں مرد امیدوار کا جانا ممکن نہیں وہاں خواتین ساتھیوں کو بھیجیں تاکہ حیدرآباد کی خواتین کو الیکشن میں امیدواروں کی جانب سے غیر اہم سمجھے جانے کی شکایت کو دور کیا جا سکے۔

حیدرآباد؛ خواتین ووٹرز کن ترجیحات کی بنیاد پر ووٹ دیں گی؟ دوسرا حصہ

ادارہ بہبود آبادی سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق حیدرآباد میں خواتین کی آبادی تقریباً 9 لاکھ 18 ہزار 238 ہے اور الیکشن کمیشن پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں خواتین رجسٹرڈ ووٹرز 5 لاکھ 62 ہزار 434 ہیں۔

اگر عام دنوں کی بات کی جائے تو حیدرآباد کی سوشل لائف میں میٹروپولیٹن شہروں کے مقابلے میں اتنے مواقع تو نہیں ہیں کہ شہر کے لوگ اپنی سوشل اور سیاسی موبلائزیشن کر سکیں لیکن جب بات ہو الیکشن کی تو امیدوار اور سیاسی جماعتیں برساتی مینڈکوں کی طرح ابھرتی نظر آتی ہیں۔ کارنر میٹنگز، حلقوں کا دورہ جہاں تک ممکن ہو امیدوار اپنے ووٹرز تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حیدرآباد کی 3 قومی اور 6 صوبائی نشستوں پر تقریباً 300 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ ان میں سے 255 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے ہیں اور وہ الیکشن کی مہم بھی شروع کر چکے ہیں لیکن اس مہم میں خواتین ووٹرز کی بہت بڑی تعداد کے ہمیشہ کی طرح نظرانداز ہونے کے امکانات ہیں۔ اگر خواتین امیدواروں کی بات کی جائے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔

تمنا (فرضی نام) کا تعلق حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد سے ہے اور پوسٹ گریجویشن کی طالبہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مجھے کبھی میرے حلقے کے امیدواروں کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی منتخب ہو کے اسمبلی میں پہنچنے والے نمائندوں کا۔ ہاں، پتہ چلتا بھی ہے تو نیوز یا ٹی وی کے ذریعے، وہ بھی جب نیوز میں آئیں تو۔

یہ صرف تمنا کا کہنا نہیں ہے، جب حیدرآباد کی خواتین سے بات کی گئی اور ان کی توقعات پوچھی گئیں تو ان کا یہی کہنا تھا کہ نہ ہم نے منشور کا نام سنا ہے، نہ یہ معلوم ہے کہ کون سی پارٹی کا منشور کیا کہتا ہے۔ اپنی الیکشن مہم کے لئے ہم تک امیدوار براہ راست آتے ہیں، نہ خواتین کے لئے ایسی کوئی مخصوص نشست رکھی جاتی ہے جہاں انہیں سیاسی طور پر سینسیٹائز کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں کچھ خواتین ووٹنگ کے دن ووٹ دینے ہی نہیں جاتیں اور کچھ بغیر پارٹی اور امیدوار کا منشور جانے اپنے گھر کے مردوں کی مرضی سے ہی ووٹ کاسٹ کر دیتی ہیں۔

آمنہ ایک کالج میں لیکچرر ہیں اور سوشل ایکٹوسٹ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیشہ کی طرح ووٹ تو میں ضرور دینے جاؤں گی کیونکہ یہ میرے پاس ایک امانت ہے لیکن میری توقعات کچھ بھی نہیں ہیں۔ میں نے سیاسی شعور 2008 کے انتخابات سے سنبھالا ہے اور چوتھے الیکشن دیکھنے جا رہی ہوں۔ اب توقعات کم ہوتے ہوتے صفر ہو گئی ہیں۔ ہر الیکشن سے پہلے وعدے اور دعوے تو بھرپور انداز میں کیے جاتے ہیں لیکن نہ حیدرآباد کے مسائل حل ہوئے ہیں اور نا ہی کوئی قابلِ عمل فیصلہ سازی نظر آتی ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اگر حیدرآباد کے اہم مسائل کی بات کی جائے تو اس میں انفراسٹرکچر اور ڈویلپمنٹ کا بجٹ سرفہرست ہے۔ اکثر کا یہ ماننا بھی ہے کہ کراچی سے 141 کلومیٹر کی دوری کی وجہ سے ترقی اور مواقع کے لحاظ سے حیدرآباد نظرانداز بھی ہو جاتا ہے۔ پینے کا صاف پانی، ناکافی اور غیر معیاری پبلک ٹرانسپورٹ، پبلک یونیورسٹی کی عدم موجودگی، سیوریج کا نظام، اقربا پروری اور اب تیزی سے پھیلتی آلودگی بھی یہاں کے مسائل میں شامل ہیں۔ کہنے کو ان میں سے زیادہ تر مسائل کو حل کرنا بلدیاتی حکومت کا کام ہے لیکن اکثر خواتین ووٹرز اسے قومی اور صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کا کام سمجھتی ہیں اور ان سے نالاں بھی ہیں جس وجہ سے کوئی خاص جوش و خروش حیدرآباد کی خواتین ووٹرز میں دیکھنے میں نہیں آتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ خواتین کو سیاسی طور پر متحرک نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے یہ غلط فہمیاں ہیں۔

نفیسہ ایک معمار ہیں۔ وہ سسٹم سے مایوسی کا اظہار تو کرتی ہیں لیکن انہیں ایک امید بھی ہے کہ شاید ان کے ایک ووٹ سے ہی تبدیلی ممکن ہو۔ اس لیے وہ 8 فروری کو ووٹ دینے کے لیے پرجوش ہیں اور ان کا پیغام بھی باقی خواتین کے لیے یہی ہے کہ 8 فروری کو ضرور ووٹ ڈال کر ایک ذمہ دار شہری ہونے کا فرض پورا کریں۔

عارفین ایک پسماندہ بستی محر علی سے تعلق رکھتی ہیں جسے شہر کا ڈمپنگ سٹیشن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک غیر قانونی سوسائٹی ہے اور بارش کے دوران مکمل ڈوب جاتی ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کشتیاں چلا کر یہاں سے نقل مکانی کرتے ہیں۔ یہاں گیس ہے اور نا ہی پانی۔ ان سے جب الیکشن 2024 کے حوالے سے توقعات کا پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 2018 کے الیکشن سے پہلے یہاں ایک نجی آرگنائزیشن نے حیدرآباد کے تمام امیدواروں کو بلایا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ الیکشن جیتنے کے بعد اس سوسائٹی کو نہ صرف قانونی حیثیت دلوائیں گے بلکہ تمام بنیادی سہولتیں بھی فراہم کریں گے لیکن 5 سال گزر جانے کے بعد نہ محر علی کا علاقہ قانونی حیثیت حاصل کر سکا، نہ ہی ڈمپنگ سٹیشن کو شہر سے باہر منتقل کیا گیا۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ کچرے کے پہاڑوں کا قد بڑھ گیا ہے۔ ان 5 سالوں میں کبھی کسی منتخب نمائندے نے یہاں کا رخ نہیں کیا۔

خواتین کی سیاسی شمولیت کے بارے میں عام رجحان یہی پایا جاتا ہے کہ انہیں سیاست اور حکومت کے بارے میں کیا پتہ، ان کا سیاسی شعور کم ہے، تجربے کی کمی ہے۔ یہ کچھ عام رجحانات ہیں جن کی وجہ سے خواتین ووٹرز کو امیدوار کی جانب سے اپنی الیکشن مہم میں ترجیح نہیں دی جاتی۔ بظاہر تو ہر پارٹی اور امیدوار انکلوسو انتخابی مہم کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق کچھ مختلف ہیں۔ اس سلسلے میں جب حیدرآباد کے امیدواروں سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ 2024 کے انتخابات مختلف ہیں۔ اب نہ صرف زمینی سطح پر خواتین کے لیے خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

نسرین سحر قاسم آباد این اے 217 سے ایم کیو ایم کی امیدوار ہیں۔ ایم کیو ایم کی جانب سے پہلی بار اس حلقے سے خاتون امیدوار کو جنرل نشست پر ٹکٹ ملا ہے۔ نسیم اختر کا کہنا ہے کہ ان کے حلقے کے ووٹرز کا ردعمل مثبت ہے اور انہیں امید ہے کہ اس بار اس حلقے سے ماضی کی روایتی پارٹی کے امیدوار کو شکست دے کر نا صرف تاریخ رقم کریں گی بلکہ اس حلقے کی ترقی کے نئے دور کا آغاز بھی ہو گا۔ انہوں نے خدشہ بھی ظاہر کیا کہ ان کی جماعت کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی اور ان کے کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سب کے باوجود وہ بھرپور مہم چلا رہی ہیں اور گھر گھر پہنچ رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کی جانب سے حیدرآباد سمیت صوبے بھر میں خواتین کو متحرک کرنے کے لئے خاص اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کارنر میٹنگز اور کنونشنز میں مہندی اور چوڑی کے سٹال بھی لگائے جا رہے ہیں۔

جمشید علی شیخ پی ایس 63 سے امیدوار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے کی فلاح و بہبود میں خواتین کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ خاص طور پر الیکشن میں کسی بھی جماعت یا امیدوار کو کامیاب بنانے میں بھی خواتین ووٹرز اور پولیٹکل ورکرز کا کردار اہم ہے۔ ہم اپنی کمپین میں خواتین ووٹرز کو منشور اور انتخابی نشان سے متعلق سمجھانے کے لیے خواتین پولیٹکل ورکرز کو ساتھ رکھتے ہیں۔ خاص طور پر رہائشی علاقوں میں تاکہ انہیں بھی انتخابات میں اپنا پورا کردار ادا کرنے کا موقع ملے اور وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔

2018 کے عام انتخابات ہوں یا جنوری 2023 کے بلدیاتی انتخابات، حیدرآباد سے خواتین ووٹرز کے ٹرن آؤٹ میں کوئی خاص مثبت تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ووٹرز کے سیاسی شعور میں بھی جدت آ رہی ہے اور اب ہر جنس سے تعلق رکھنے والا اپنے امیدوار سے سوال کرنے لگا ہے۔ اس لیے اب سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کو بھی چاہیے کہ لفظی اور روایتی جوابوں سے ایک قدم آگے بڑھیں اور خود حیدرآباد کی خواتین ووٹرز تک پہنچیں، ان کے مطالبات جانیں، ان کے لیے الگ مہم چلائیں۔ جہاں مرد امیدوار کا جانا ممکن نہیں وہاں اپنی خواتین ساتھیوں کو بھیجیں تاکہ حیدرآباد کی خواتین کو الیکشنز میں امیدواروں کی جانب سے غیر اہم سمجھنے کی شکایت کو دور کیا جا سکے کیونکہ ہر ووٹ اہم ہوتا ہے۔ اگر 8 فروری کو وہ ووٹ دیں گی تو اگلے 5 سال تک منتخب نمائندوں کے احتساب کو ممکن بنا سکیں گی اور شہر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گی۔

ثوبیہ سلیم کا تعلق حیدر آباد سے ہے اور وہ ملٹی میڈیا پریکٹیشنر ہیں۔