ٹائی ٹینک حادثہ؛ صنفی، طبقاتی اور نسلی تعصب نے سینکڑوں عام انسانوں کو ڈوبنے پر مجبور کیا

ٹائی ٹینک حادثہ؛ صنفی، طبقاتی اور نسلی تعصب نے سینکڑوں عام انسانوں کو ڈوبنے پر مجبور کیا
اپریل 2012 میں جب ہم ڈربی شہر میں واقع اپنی لوکل لائبریری گئے تو استقبالیہ کے ساتھ درجنوں کتابیں نمایاں طور پر رکھی نظر آئیں جو بحری جہاز ٹائی ٹینک کی غرقابی کے 100 سال پورے ہونے کی یاد میں سجائی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک چھوٹی سی کتاب نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لی جس کا نام تھا؛ 'اے نائٹ ٹو ریمیمبر' جس کے مصنف والٹر لارڈ ہیں۔ پہلی مرتبہ 1955 میں شائع ہوئی یہ چھوٹی سی کتاب اب تک ٹائی ٹینک پر لکھی گئی سینکڑوں سنجیدہ کتابوں میں سب سے بہترین تصنیف سمجھی جاتی ہے۔ یہ مصنف کی 20 سالہ تحقیق کا نچوڑ ہے۔ جب یہ شائع ہوئی تو ٹائی ٹینک کے سانحہ کو 42 سال گزر چکے تھے۔ اس تصنیف نے منظر عام پر آتے ہی گویا غرقاب سفینے کو سمندر کی تہہ سے نکال کر عام لوگوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔

کتاب دوست افراد کو یہ کتاب 1997 میں بنی ٹائی ٹینک نامی رومانوی فلم سے کہیں زیادہ متاثر کن لگے گی۔ والٹر لارڈ ٹائی ٹینِک پر اتنی بڑی اتھارٹی تھے کہ فلم کی تشکیل میں اس کے ہدایت کار جیمس کیمرون نے انہیں بحیثیت ٹیکنیکل کنسلٹنٹ اپنے ساتھ رکھا۔

ہدایت کار جیمز کیمرون نے 1997 میں ٹائی ٹینک حادثے پر 'ٹائی ٹینک' بنائی جسے بے پناہ پذیرائی ملی


پس منظر

برطانوی ایمپائر اپنے عروج پر تھی۔ شپنگ میں صف اول کی برطانوی کمپنی وائٹ سٹار لائن نے آئرلینڈ کے شہر بیلفاسٹ میں ایک بہت بڑا، مضبوط اور لگژری مسافر بحری جہاز بنایا۔ ٹیکنالوجی اور انسانی صناعی کے شاہکار اس دخانی سفینے کا نام ٹائی ٹینِک رکھ کر خوب تشہیر کی گئی۔ اسے ناقابل غرقابی یعنی اَن سِنک ایبل بتایا گیا۔ جہاز میں ٹکٹ کی قیمت کے لحاظ سے مسافروں کے لئے تین درجے رکھے گئے تھے۔ اس وقت کے جن نمایاں افراد نے فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے ٹکٹ حاصل کئے، اخبارات کئی روز تک ان کی تفصیلات شائع کرتے رہے۔ بالآخر 10 اپریل 1912 کو ٹائی ٹینِک انگلستان کی بندرگاہ ساؤتھ ایمپٹن سے نیویارک کے لئے روانہ ہوا۔

6 دن کے اس سفر میں سفینے کو بحیرہ اوقیانوس (اٹلانٹک) عبور کرنا تھا لیکن چوتھے روز راستے میں اچانک ایک بہت بڑے برفانی تودے سے ٹکرانے کے باعث اس کے نچلے حصے میں بہت بڑا شگاف پڑ گیا اور یہ صرف دو گھنٹے چالیس منٹ میں دو ٹکڑے ہو کر سمندر برد ہو گیا۔ اس پر سوار سوا دو ہزار افراد میں سے 1500 لقمہء اجل بن گئے۔ عین جائے وقوعہ سے دس بحری میل دور ایک جہاز کیلیفورنین لنگر انداز تھا۔ ٹائی ٹینِک سے وائرلیس پر اسے مدد کے لئے بار بار پکارا گیا لیکن اس کے عملے نے ان پیغامات پر کان نہیں دھرے۔

حادثے نے پوری دنیا بالخصوص برطانیہ اور امریکہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک طویل عرصے تک اخبارات ٹائی ٹینک پر ضمیمے شائع کرتے رہے۔ برطانوی اور امریکی حکومتوں نے اس واقعہ سے سبق سیکھنے کے لئے دو آفیشل انکوائری کا انتظام کیا جبکہ شپنگ انڈسٹری نے اپنے طور پر پورے معاملہ کی چھان بین کی۔ والٹر نے اس سانحے سے جڑے ہر شخص یا اس کے وارث کو بڑی مشکلوں کے بعد ڈھونڈ نکالا اور ان کے انٹرویو کئے۔ کتاب دراصل ان تمام تحقیقات اور گواہوں کے بیانات پر مشتمل ایک ایسا مسودہ ہے جو پڑھنے والے کے دل پر اس طرح اثر کرتا ہے جیسے حادثہ آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہا ہو۔ مسافروں کے لباس، انداز، گفتگو، رویے اور اخلاقیات کی اتنی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے کہ اس وقت کی مروجہ اقدار سامنے آ جاتی ہیں اور ہم باآسانی موجودہ اسلوب زندگی سے موازنہ کر سکتے ہیں۔

ٹائی ٹینِک پر سوار امیر افراد

والٹر لکھتا ہے کہ 1912 تک ابھی فلم، ٹی وی، ریڈیو سے نکلے ستارے آسمان پر نہیں چمکے تھے۔ کرکٹ اور فٹ بال کے کھلاڑیوں نے دلوں پر راج کرنا نہیں شروع کیا تھا چنانچہ بے پناہ دولت مند نمایاں شخصیات سے پھوٹتا گلیمر ہی عام انسانوں کی پھیکی زندگیوں میں رنگا رنگی کا سبب بنتا۔ اخبارات اس طلسم کو فروخت بڑھانے کے لئے استعمال کرنے سے بخوبی واقف تھے۔ جب ٹائی ٹینِک ڈوبا تو اگلے روز نیویارک ٹائمز کا صفحہ اول صرف صاحبِ ثروت مسافروں کی تصاویر اور تفصیلات سے بھرپور تھا جبکہ اخبار نیویارک امریکن نے سارا شمارہ ہی جاں بحق ہونے والے کروڑ پتی جان جیکب ایسٹر کو انتساب کرتے ہوئے آخر میں ایک جملے میں بتایا کہ 1800 دیگر جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت تک مرنے والوں کی مصدقہ تعداد سامنے نہیں آئی تھی۔ اسی نہج پر چلتے ہوئے نیویارک سن نے مسز وائڈنر کے قیمتی موتیوں کے ہار کی انشورنس کو یوں اجاگر کیا جیسے اس سے بڑا مسئلہ کوئی نہ ہو۔

یہ امیر ترین مسافر اپنے ہمراہ ذاتی ملازمین اور خادمائیں بھی لے چلے تھے۔ اس کے علاوہ ٹائی ٹینک کا اپنا عملہ ان کی خصوصی نگہداشت پر مامور کیا گیا تھا۔ اندازہ لگائیے کہ جب جہاز ڈوب رہا تھا تو سٹیورڈ ایچز مسٹر گوگنہائم کو ان کا پسندیدہ سویٹر پہنا رہا تھا جبکہ سٹیورڈ کرافورڈ مسٹر سٹیورٹ کے جوتوں کے تسمے باندھ رہا تھا۔

نسلی برتری

ٹائی ٹینک ڈوبتے ڈوبتے اینگلو سیکسن نسل (برطانوی-امریکی سفید فام) کی برتری کے مفروضے بھی اپنے ساتھ سمندر برد کر گیا۔ اخباروں سے سامنے آنے والی کہانیوں میں یہ گمراہ کن تاثر دیا گیا کہ جہاز سے جان بچا کر بھاگنے والوں میں چینی، جاپانی آگے آگے تھے۔ اور جن لوگوں نے عرشے سے سب سے پہلے چھلانگیں لگائیں وہ آرمینیائی، فرانسیسی اور اطالوی تھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ پاکستان میں ہر خرابی کا ذمہ دار احمدی یا افغانیوں کو ٹھہرا دیتے ہیں۔ نسلی ہذیان اس قدر زور پکڑ گیا کہ امریکہ میں متعین اطالوی سفیر کو مداخلت کر کے یاد دہانی کروانی پڑی کہ بزدل اور اطالوی دو ہم معنی الفاظ نہیں اور ایسا کہنے والوں کو معافی مانگنی چاہئیے۔ سفینے پر آخری چند گھنٹوں میں ہوئی لڑائی مار کٹائی کے واقعات جب منظر عام پر آئے تو کوشش کی گئی کہ کسی طرح خیالی سیاہ فام کردار بیچ میں ڈال کر انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور اینگلو سیکسن نسل کی اخلاقی برتری کا بھرم قائم رکھا جائے۔ ویسے اس سفینے پر موجود عملے کے کوئی 900 ارکان سب کے سب اینگلو سیکسن تھے۔

عورتوں کے محافظ مرد

عورتوں کی نزاکت اور مردانہ بہادری کے وکٹورین نظریے کے تحت ڈوبتے جہاز پر اعلان کر دیا گیا کہ 'صرف عورتیں اور بچے لائف پوٹس پر بیٹھیں گے'۔ جان بچانے کے لئے عملے کی منتیں کرنے والے مردوں کو نا صرف نامردی کے طعنے دیے گئے بلکہ فائرنگ کر کے انہیں ڈرایا بھی گیا۔ یہ احمقانہ طرز فکر مردوں کی غیر ضروری اموات کا باعث بنا۔

طبقاتی تفریق

ٹائی ٹینک نام کے اس تیرتے قصبے پر صنفی تفاوت سے کہیں زیادہ طبقاتی حد بندی مستحکم تھی جو اس وقت کے معاشرے کی عکاسی کرتی تھی۔ اعداد و شمار اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

فرسٹ کلاس کی 143 میں سے صرف 4 خواتین موت کی آغوش میں گئیں۔ ان میں سے بھی 3 نے اپنی مرضی سے لائف بوٹ کے بجائے فنا ہوتے ٹائی ٹینک کے ساتھ ڈوبنا پسند کیا۔ سیکنڈ کلاس کی 93 میں سے 15 لقمہء اجل بنیں جبکہ تھرڈ کلاس میں سوار 179 میں سے 81 بناتِ حوا کو موت کا فرشتہ ساتھ لے گیا۔ پورے پورے خاندان صاف ہو گئے۔

بچوں کی تعداد کو دیکھیں تو ایک کو چھوڑ کر فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے تمام بچوں کو بچا لیا گیا لیکن تھرڈ کلاس میں سوار 76 بچوں میں سے محض 23 نونہال بچائے جا سکے۔

یوں لگتا ہے کہ مردانہ شاونزم کے سارے ڈرامے فرسٹ اور سیکنڈ کلاس میں ہی سٹیج ہونے تھے۔

عملے نے بوٹ کی طرف جانے والے راستوں کو مسدود کیا۔ تھرڈ کلاس کے انسانوں کے وجود کو مکمل طور پر نظر انداز اور فراموش کر کے ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ لیکن نچلے طبقے کے مسافروں کے ساتھ امتیازی سلوک کا سارا کریڈٹ وائٹ سٹار لائن کمپنی نے اکیلے نہیں لیا بلکہ بعد میں ہونے والی سرکاری انکوائریوں، اخبار نویسوں اور خود تھرڈ کلاس پسنجر اور ان کے ورثا سب کے سب اس طبقاتی تمیز میں شریک کار رہے۔

اخبارات نے فرسٹ کلاس کے باقی ماندہ مسافروں کی کہانیوں کو نمک مرچ لگا کر شائع کیا۔

بمشکل اکا دکا تھرڈ کلاس مسافروں سے ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ آفیشل انکوائری تک میں انہیں نہیں بلایا گیا۔ 1912 میں موجود طبقاتی شعور کے تحت کچھ تھرڈ کلاس مسافر یہ کہتے سنے گئے کہ 'جان بچانے والی بوٹ تک رسائی ایک مراعت تھی جس پر فرسٹ کلاس اور سیکنڈ کلاس کا زیادہ حق بنتا تھا'۔

ٹائی ٹینِک حادثے کے بعد ہونے والی بحری اصلاحات

ٹائی ٹینک کے حادثے نے کبھی نہ ڈوبنے والی کشتی (ان سنک ایبل شپ) کے تصور کو پاش پاش کردیا۔ 1913 میں لندن میں انٹرنیشنل کانفرنس فار سیفٹی آف لائف ایٹ سی یا سمندر میں موجود انسانی جانوں کی حفاظت کی پہلی بیٹھک کا انعقاد ہوا۔ جس کے تحت بین الاقوامی آئس پیٹرول کا شعبہ قائم کر دیا گیا جو سمندر میں موجود تودوں کی موجودگی کا سراغ لگا کر وہاں سے گزرتے جہازوں کو مطلع کرتا ہے اور اپنے اوزاروں سے ان تودوں کے ٹکڑے بھی کرتا ہے۔

تمام سفینوں میں 24 گھنٹے ریڈیو واچ لازمی کر دیا گیا۔

مرد و زن اور فرسٹ یا تھرڈ کلاس کے امتیاز کو ختم کرتے ہوئے ہر شخص کے لئے لائف بوٹ کی موجودگی کا حکم دیا گیا۔ یہی وہ روایات ہیں جن کا تسلسل اور ارتقا بعد میں مقبول ہوئے فضائی سفر میں نظر آتا ہے۔