’خوش قسمت ملاح‘: جو ٹائی ٹینک اور آرایم ایس لوزیتانیا کے حادثات میں بھی محفوظ رہا

’خوش قسمت ملاح‘: جو ٹائی ٹینک اور آرایم ایس لوزیتانیا کے حادثات میں بھی محفوظ رہا
لندن: چودہ اور پندرہ اپریل کی درمیانی شب سنہ 1912ء کو عالمی شہرت یافتہ بحری جہاز ' ٹائی ٹینک' اپنے سفر پر روانہ ہوا۔ ' ٹائی ٹینک' کا یہ پہلا سفر تھا جس میں حادثہ پیش آیا اور بڑی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔

بحر اوقیانوس میں ' ٹائی ٹینک' اس وقت ایک المناک حادثے کا شکار ہوا جب جہاز ایک برفانی تودے کے ساتھ جا ٹکرایا۔ برفانی پہاڑ سے ٹکرانے کے بعد ' ٹائی ٹینک' تین گھنٹےتک سمندرمیں لڑکھڑاتا رہا اور آخر کار اپنے ساتھ 1500 لوگوں کو لے کر ڈوب گیا۔

بیسویں میں صدی ٹائی ٹینک کے علاوہ بھی ایک حادثہ پیش آیا جب آر ایم ایس لوزیتانیا ڈوب گیا تاہم ان دونوں حادثات میں ایک قدر مشترک تھی کہ دونوں واقعات میں ایک ملاح بچ گیا ۔

جارج کو ٹائی ٹینک سمندری حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے برطانیہ میں ہونے والی انکوائری میں گواہی کے لیے بلایا گیا۔ ان کا بیان تحریری شکل میں ریکارڈ کا حصہ ہے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ دعویٰ اس ملاح کے رشتہ داروں کی جانب سے سامنے آیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ جارج بوکیمپ نامی مذکورہ ملاح نے وائٹ سٹار لائن نامی جہاز راں کمپنی کو اپنی عمر کے بارے میں جھوٹ بول کر ٹائی ٹینک پر فائرمین کی ملازمت حاصل کی تھی۔ ان کا کام جہاز کی بھٹی میں آگ روشن رکھنا تھا۔

تحریری شکل میں موجود جارج کے بیان کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ’بحری جہاز کے برفانی تودے سے ٹکرانے پر میں نے ایک گرج دار آواز سنی۔ انجن روم چھوڑنے کی اجازت ملنے تک سمندر کا پانی میری کمر تک پہنچ چکا تھا۔‘

بعدازاں جارج جہاز کے عرشے پر پہنچے اور مسافروں کو جان بچانے والی کشتی پر سوار ہونے میں مدد دی۔ اس کے بعد وہ خود بھی کشتی میں بیٹھ کر محفوظ مقام کی طرف روانہ ہوگئے۔

جارج نے تفتیش کاروں کو بتایا: ’میں بحری جہاز کے عرشے کی دائیں جانب پہنچا۔ میرا ایک پاؤں عرشے اور دوسرا ہنگامی حالت میں جان بچانے والی کشتی پر تھا۔ میں عورتوں اور بچوں کو کشتی میں سوار ہونے میں مدد دے رہا تھا۔ ہمیں کشتی کو جہازسے دور رکھنے اور پانی کو اندر داخل ہونے سے روکنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔‘

جارج کے مطابق انہوں نے سب سے پہلے جہاز کے اگلے حصے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا، انہیں جہاز کا پچھلا سرا بھی نظر آرہا تھا جو کچھ ہی دیر بعد ڈوب گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب جہاز ڈوبا تو ایک زوردار آواز سنائی دی، اُس وقت مجھے لوگوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، ہم دوسروں کی مدد کیلئے واپس جاتے لیکن کشتی میں گنجائش نہیں تھی۔

جارج کہتے ہیں کہ لائف بوٹ نمبر 13 میں سوار افراد کو مسافر بردار بحری جہاز آر ایم ایس کارپاتھیا نے بچایا، اس بحری جہاز نے مشکل حالات میں ٹائی ٹینک کے  705 مسافروں کو بچانے کیلئے بڑی ہمت کا مظاہرہ کیا تھا۔

بیوکیمپ کے خاندان کے مطابق وہ پہلی عالمی جنگ کے دوران ڈوبنے والے بحری جہاز آر ایم ایس لوزیتانیا پر بھی سوار تھے۔ لوزیتانیا اپنے وقت میں دنیا کا سب سے بڑا مسافر بردار بحری جہاز تھا، جسے 1915ء میں جرمنی کی بوٹ نے تارپیڈو مار کر غرق کردیا تھا۔

دوسرے سمندری حادثے کے بعد جارج بیوکیمپ نے مبینہ طور پر کہا کہ میرا دل بڑے بحری جہازوں سے بھرگیا ہے، میں چھوٹے جہازوں پر کام کرنے جارہا ہوں۔

مشرقی یارک شائر سے تعلق رکھنے والے جارج بیوکیمپ کے خاندان نے انہیں انتقال کے 75 سال بعد خراج عقیدت پیش کیا۔ بیوکیمپ 1944ء میں 72 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ سوزین نارٹن (بیوکیمپ کی پوتی) کہتی ہیں کہ انہیں اپنے دادا کے اس کردار پر فخر ہے جو انہوں نے تباہ ہوتے بحری جہاز کے مسافروں کو بچانے میں ادا کیا