Get Alerts

حیدرآباد؛ خواتین ووٹرز کی توقعات انتخابات کے 6 ماہ بعد بھی پوری نہ ہو سکیں

یہ کہانی صرف زینب بی بی ہی کی نہیں، بلکہ حیدرآباد کی ہزاروں خواتین ووٹرز ایسے ہی جذبات رکھتی ہیں۔ انتخابات کے دنوں میں ان خواتین نے بہتر مستقبل کی امید میں ووٹ دیا، لیکن آج 6 ماہ بعد بھی وہ اپنے شہر کے انفراسٹرکچر میں بہتری کی منتظر ہیں۔

حیدرآباد؛ خواتین ووٹرز کی توقعات انتخابات کے 6 ماہ بعد بھی پوری نہ ہو سکیں

لطیف آباد، حیدرآباد کی رہائشی زینب بی بی کو انتخابات 2024 کا دن آج بھی یاد ہے۔ وہ صبح سویرے جاگیں، دل میں امید کی ایک کرن لیے تیار ہوئیں اور اپنی ہمسائیوں کے ساتھ ووٹ ڈالنے کے لیے روانہ ہوئیں۔ زینب بی بی کو انتخابات سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کا ووٹ شہر کے بہتر مستقبل کی بنیاد بنے۔ وہ ایک ایسے شہر کا خواب دیکھ رہی تھیں جہاں عوامی سہولتوں کا فقدان نہ ہو، ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہو، اور ہر محلے میں سرسبز و شاداب پارک ہوں جہاں خواتین اور بچے سکون سے وقت گزار سکیں۔

زینب بی بی بتاتی ہیں کہ اس دفعہ انتخابات میں انہوں نے پوری دل جمعی سے حصہ لیا تھا، اس اُمید کے ساتھ کہ حیدرآباد کا مستقبل بہتر ہو گا۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ شہر کا انفراسٹرکچر بہتر ہو، کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ سڑکوں کی خستہ حالت اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی شہریوں کی زندگی کو مشکل بنائے ہوئے ہے۔

حیدرآباد میں اس وقت پیپلز بس سروس کے منصوبے کے تحت 12 بسیں فعال ہیں، جن میں روزانہ 10 سے 15 ہزار مسافر سفر کرتے ہیں۔ تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سروس صرف مرکزی سڑکوں اور مخصوص پوائنٹس تک محدود ہے۔ لطیف آباد اور قاسم آباد جیسے رہائشی علاقوں کے لیے یہ بسیں قابل رسائی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ، خاص طور پر خواتین، رکشہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ رکشہ ایک مہنگا ذریعہ ہے اور اکثر ورکنگ ویمن اور طالبات کے لیے یہ بجٹ سے باہر ہو جاتا ہے، جس سے ان کی نقل و حرکت مزید مشکل ہو جاتی ہے۔

زینب بی بی اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں، 'ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر جو بس سروس ملی ہے، وہ ہمارے رہائشی علاقوں تک نہیں پہنچتی۔ ہمیں مرکزی سڑکوں تک جانے کے لیے بھی کوئی دوسرا ذریعہ چاہیے ہوتا ہے، اور رکشہ ہی ایک قابل عمل آپشن ہوتا ہے، جو مہنگا ہے اور ہر کسی کے بس میں نہیں'۔

پہلے حیدرآباد میں خواتین کے لیے پنک بس سروس بھی متعارف کرائی گئی تھی، لیکن کچھ عرصے بعد یہ سروس بند کر دی گئی کیونکہ ایک سروے کے مطابق اس کی رائیڈرشپ بہت کم تھی۔ لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو پنک بس کا روٹ بھی پیپلز بس سروس کی طرح مخصوص تھا، جو کہ صرف مرکزی علاقوں تک محدود تھا۔ خواتین کو وہاں تک پہنچنے کے لیے بھی کسی اور ٹرانسپورٹ کا سہارا لینا پڑتا تھا، اور ایسے میں زیادہ تر خواتین رکشہ کو ہی مناسب سمجھتی تھیں۔

زینب بی بی اور دیگر شہریوں کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں۔ اگر بات کی جائے بس سروس کو رہائشی علاقوں تک لے جانے کی، تو اس میں بھی کئی چیلنجز ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ سڑکوں پر قبضے یعنی تجاوزات اور سڑکوں کے خستہ حال انفراسٹرکچر کا ہے، لیکن اس کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ اور میونسپل کارپوریشن پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ان مسائل کا حل نکالیں۔

زینب بی بی کی دیگر شکایات میں سڑکوں کی حالت بھی شامل ہے۔ حیدرآباد کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اور بارش کے بعد اکثر سڑکوں پر پانی جمع ہو جاتا ہے، جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 'ہمیں سڑکوں کی مرمت اور ٹرانسپورٹ سسٹم چاہیے، لیکن ہمیں کہاں سے یہ سہولت ملے گی؟'

یہ کہانی صرف زینب بی بی ہی کی نہیں، بلکہ حیدرآباد کی ہزاروں خواتین ووٹرز ایسے ہی جذبات رکھتی ہیں۔ انتخابات کے دنوں میں ان خواتین نے بہتر مستقبل کی امید میں ووٹ دیا، لیکن آج 6 ماہ بعد بھی وہ اپنے شہر کی بہتری کی منتظر ہیں۔ زینب بی بی کہتی ہیں، 'ہم نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا، لیکن اب ہمیں وہ تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نمائندے اپنی ذمہ داری نبھائیں اور ہمارے مسائل حل کریں، تاکہ ہمارا شہر ایک بہتر جگہ بن سکے'۔

حیدرآباد میں صوبائی اسمبلی کی6 جبکہ قومی اسمبلی کی 3 نشستیں ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے منتخب نمائندے، ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے صابر قائم خانی اور پیپلز پارٹی کے جبار خان، دونوں سے ہم نے متعدد بار بات کرنے کی کوشش کی، خاص طور پر خواتین سے متعلق ان کے مخصوص اقدامات کے حوالے سے، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

زینب بی بی کی کہانی ایک تلخ حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ انتخابی وعدے اکثر پورے نہیں ہوتے اور عوام ان وعدوں کی تکمیل کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اور منتخب نمائندے اپنے وعدے پورے کرتے ہیں یا یہ امیدیں بھی وقت کی دھول میں کہیں گم ہو کر رہ جائیں گی۔

ثوبیہ سلیم کا تعلق حیدر آباد سے ہے اور وہ ملٹی میڈیا پریکٹیشنر ہیں۔