جیکب آباد؛ 75 فیصد پولنگ سٹیشن بنیادی سہولیات سے محروم

ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن کے سینیئر آفیشل نصر اللہ سومرو کے مطابق پورے ضلع میں 325 پولنگ سٹیشنز میں سہولیات کا فقدان ہے۔ وہاں باتھ روم ہیں اور نہ ہی سکول کی چاردیواری بنی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں یہاں پانی اور بجلی بھی دستیاب نہیں ہے۔ چار سو سکول ایسے ہیں جن میں معذور افراد کے لیے ویل چیئر کے ریمپ نہیں لگے ہوئے۔

جیکب آباد؛ 75 فیصد پولنگ سٹیشن بنیادی سہولیات سے محروم

سندھ کے شمالی ضلع جیکب آباد کی آبادی 1174097 ہے، جہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 497578 ہے۔ ضلع میں مرد ووٹرز کی تعداد 266015 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 231563 ہے۔ جیکب آباد ضلع سے ایک رکن قومی اسمبلی جبکہ 3 ارکان صوبائی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں جو ضلع کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں، لیکن حالات اس کے برعکس ہیں اور اس بار الیکشن کے موقع پر ووٹرز پولنگ سٹیشنز پر پینے کے صاف پانی پانی، واش رومز اور دیگر بنیادی سہولیات کے بغیر ہی امیدواروں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچائیں گے۔

اس بار انتخابات کے لیے ضلع جیکب آباد میں 434 پولنگ سٹیشنز بنائے جائیں گے، جن میں سے بیشتر پولنگ سٹیشنز خستہ حال سکولوں سمیت دیگر سرکاری عمارتوں میں بنائے جائیں گے، جہاں عام ووٹرز کے ساتھ ساتھ معذور اور بزرگ ووٹرز کے لیے بھی سہولیات فراہم نہیں کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق این اے 190 جیکب آباد میں ٹوٹل 434 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئی ہیں، 116 میل اور 116 فیمیل جبکہ 202 یکجا (combine) پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔ ان پولنگ سٹیشنز میں 5086 اہلکاروں پر مشتمل عملہ تعینات ہو گا۔ ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن کے سینیئر آفیشل نصر اللہ سومرو کے مطابق پورے ضلع میں 325 پولنگ سٹیشنز میں سہولیات کا فقدان ہے۔ وہاں باتھ روم ہیں اور نہ ہی سکول کی چاردیواری بنی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں یہاں پانی اور بجلی بھی دستیاب نہیں ہے۔ چار سو سکول ایسے ہیں جن میں معذور افراد کے لیے ویل چیئر کے ریمپ نہیں لگے ہوئے۔

نصر اللہ سومرو کے مطابق ہم نے تمام مسائل کے متعلق ڈپٹی کمشنر کو لکھ دیا ہے، ڈپٹی کمشنر کی جانب سے فنڈز دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کام کروانے کی معذرت کر دی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں الیکشن کمیشن افسر نے کہا کہ کسی بھی عملے کو ہم سرکار کی جانب سے کھانا پینا نہیں دیا جاتا، انہیں تین دن کے پیسے دیے جاتے ہیں۔ کھانے کے لئے پریذائیڈنگ آفیسرز کو چھ چھ ہزار اور اے پی اوز کو پینتالیس سو روپے تین دن کے دیے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے نصر اللہ نے بتایا کہ کچھ سکول جو بارش کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں وہاں سے کسی بہتر حالت والے سکول میں پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔

الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو تمام امیدوار اپنے اپنے حلقوں کی گلیوں، چوراہوں اور اپنے اپنے بنگلوں کو جھنڈے، بینرز اور لائٹیں لگا کر سجاتے ہیں۔ اگر کوئی حامی شخص اپنے من پسند امیدوار کو دعوت، چائے پارٹی یا کارنر میٹنگ میں بلاتا ہے تو بھی شاندار نمونے سے علاقے کو سجاتا ہے۔ تمام پولنگ سٹیشنز سکول کی عمارت میں یا ضرورت پڑنے پر کسی دوسرے سرکاری دفتر کی عمارت میں قائم کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیکب آباد سمیت مختلف علاقوں کے سکولوں کی حالت زبوں حالی کا شکار ہے۔

دیہی علاقوں میں تو سکولوں کی حالت بہتر نہیں ہوتی مگر شہر کے کئی سکول بھی اپنی زبوں حالی کی داستان خود بیان کرتے ہیں۔ ان زبوں حال سکولوں میں قائم کردہ پولنگ سٹیشنز میں سے بہت سارے پولنگ سٹیشنز میں سہولیات کا فقدان ہوتا ہے۔ ایک تو سکول کی زبوں حالی، اوپر سے وہاں سہولیات کا فقدان، ووٹر کو تو مشکلات ہوتی ہی ہیں مگر پولنگ عملہ بھی پریشانی سے دوچار ہوتا ہے۔ گذشتہ سال تیز بارشوں اور سیلاب کے باعث متعدد دیہاتوں میں پانی جمع ہو گیا تھا۔ پانی جمع ہونے کے باعث لوگوں کے گھر، سکول و دیگر عمارتیں پانی جمع رہنے کے باعث مکمل کمزور ہو چکی ہیں۔ اگر ان کمزور اور زبوں حال سکولوں میں پولنگ سٹیشنز قائم کیے جاتے ہیں تو نہ فقط عملے کو بلکہ ووٹرز کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ اس کمزور عمارت کے گرنے کا خدشہ بھی ہو سکتا ہے اور کمزور عمارت کے چھاپڑ بھی گر سکتے ہیں۔ زخمی ہونے کا خدشہ تو ہو گا ہی، اوپر سے جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

جیکب آباد میں کئی دیہات ایسے بھی ہیں جہاں بجلی ہوتی ہی نہیں ہے۔ واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث متعدد دیہاتوں کی بجلی کاٹ دی گئی ہے۔ سالوں سے یہ لوگ بجلی جیسی سہولت سے محروم ہیں۔ دیہاتی داد محمد بروہی کا کہنا ہے کہ سالوں سے ہمارے ہاں بجلی نہیں ہے، ہمارے گاؤں والے بل نہیں دیتے اس لیے بجلی کاٹ دی گئی ہے۔ ایسے اور بھی بہت سارے دیہات ہیں جہاں بجلی بس نام کی چلتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے اگر ان علاقوں میں پولنگ سٹیشنز قائم کیے جائیں تو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بہت دشواری پیش ہو سکتی ہے۔ سولر کے سہارے بادلوں کو بھی روکنا ممکن نہیں۔ آٹھ فروری کے دن اگر آسمان پر بادل چھائے رہے تو ممکن ہے سولر کام نہ کرے اور سردیوں میں ویسے بھی دھوپ کی تپش کم ہونے کی وجہ سے سولر کم بجلی پیدا کرتا ہے۔ بیٹری بیک اپ کی بات کی جائے تو درجنوں پولنگ سٹیشنز پر بیٹریاں لگانا ناممکن تو نہیں مگر بہت مشکل ضرور ہے۔

پولنگ کا وقت صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک ہوتا ہے۔ پولنگ کے بعد گنتی کے عمل میں بھی کچھ پولنگ سٹیشنز میں ایک دو گھنٹے تو کئی پولنگ سٹیشنز میں آٹھ دس گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہاں ووٹ خارج زیادہ نکلتے ہیں تو بار بار گنتی میں تاخیر ہوتی ہے۔ صبح سے رات تک گیارہ سے پندرہ گھنٹے مسلسل بیٹری بیک اپ ہونا ممکن نہیں۔ کئی بار پولنگ سٹیشنز میں بجلی بند ہونے کی صورت میں ووٹ کاسٹنگ اور دیگر عملے کے معاملات موم بتی کی روشنی سے پورے کیے جاتے ہیں۔ اکثر فوج کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں موبائل فون بھی پولنگ سٹیشن کے اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کمزور عمارت والے پولنگ سٹیشنز کی طرف جانے والی سڑکیں بھی بارش اور سیلاب کی وجہ سے خستہ ہو چکی ہیں۔ وہاں کے لوگوں کو آنے جانے میں بہت زیادہ دشواری ہو گی۔ امیدواران ووٹرز کو گھر سے پولنگ سٹیشن تک پہنچنے کے لئے چنگچی رکشے مہیا کر کے دیتے ہیں۔ سڑکیں خراب ہونے کی وجہ سے چنگچی رکشے الٹ بھی سکتے ہیں اور خواتین کو تکلیف کے ساتھ سفر کرواتے ہیں۔

اگر ضعیف مرد و خواتین پیدل بھی سفر کریں تو بھی ان کو بہت زیادہ دشواری ہوتی ہے۔ راستے خراب ہونے کی وجہ سے خواتین اور ضعیف لوگ ووٹ دینے گھروں سے نکلتے ہی نہیں۔ انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے اکثر لوگ اپنے ووٹ کے حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سکول کی عمارت خستہ ہونے کے ساتھ ساتھ سکول میں فرش بھی نہیں لگا ہوا ہوتا۔ کچی زمین پر سرد موسم میں گھنٹوں لائن میں کھڑے لوگ اور خواتین بیزار ہوتے ہیں۔ ان دور دراز دیہاتوں میں خستہ حال عمارتوں میں اگر کسی خواتین عملے کی ڈیوٹی لگتی ہے تو انہیں آنے جانے میں تو دشواری ہوتی ہی ہے مگر وہاں بعض اوقات مچھر بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ عملے کو ملیریا مرض ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ وہاں دور دراز علاقوں میں عملے کو رات رہنا بھی پڑ جاتا ہے۔ انہیں صاف بستر بھی میسر نہیں ہوتے۔ سرد راتوں میں رہنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اگر گرمی کے دنوں میں انتخابات ہوتے ہیں تو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پنکھا چلانا ممکن نہیں ہوتا اور گرمی میں دس پندرہ گھنٹے گزارنا انتہائی مشکل عمل ہوتا ہے۔ کچھ علاقے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں آلودہ پانی پینے کے باعث الیکشن عملے کو پیٹ خرابی سمیت دیگر کئی مسائل پیش آتے ہیں۔ وہاں پر قریب اسپتال بھی نہیں ہوتے۔ ان دور دراز علاقوں میں قائم پولنگ سٹیشنز پر فرسٹ ایڈ باکس بھی مہیا نہیں کیے جاتے۔

ہر ایک حلقے میں ہزاروں کا عملہ بہت ہی مشکل سے الیکشن کے آخری تین دن گزارتا ہے۔ جتنا امیدوار پریشان ہوتے ہیں اتنا یہ عملہ بھی پریشان ہوتا ہے۔ ریٹائرڈ ٹیچر خیر محمد سومرو نے بتایا کہ میری ڈیوٹی اوستا بھلیڈنو آباد گاؤں کے ایک پولنگ سٹیشن میں تھی، رات دیر ہو گئی اور ہمیں لینے کے لئے گاڑی نہیں پہنچ رہی تھی کیونکہ اکثر گاڑی مختلف دیہاتوں سے عملے کے لوگ جمع کر کے آتی ہے۔ رات کے گیارہ بج گئے مگر گاڑی آنے کا نام بھی نہیں لے رہی تھی۔ اتنے میں وہاں کا پانی پینے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے میرا پیٹ بہت خراب ہو گیا۔ وہاں کوئی ڈاکٹر تھا نہ کوئی دوا اور سکول کا باتھ روم بھی انتہائی خراب تھا۔ خیر محمد سومرو کے مطابق یہ رات میرے لئے ایک امتحان سے کم نہ تھی تو اس نے اپنے بھائی کی مدد سے گاڑی منگوائی اور پرائیویٹ گاڑی پر واپس گھر پہنچا۔

یہی حال اور کئی لوگوں کا ہوتا ہو گا جو ظاہر نہیں کر سکتے ہوں گے۔ ان پولنگ سٹیشنز میں تعینات عملے کو ایک وقت کا بھی کھانا نہیں دیا جاتا۔ انہیں پیسے تو ملتے ہیں مگر ان ہزاروں کے عملے کو ہوٹل میسر ہوتے ہیں نہ ہی کوئی کھانے کے لئے چیز جو خرید کر کھا سکیں۔ الیکشن کے آخری تین دن یہ عملے کے لوگ دیہاتیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کسی امیدوار نے دھاندلی کے لالچ میں یا انسانیت کی خاطر پولنگ ڈے پر اپنے ایجنٹس کو بھیجا گیا کھانا انہیں بھی فراہم کر دیا تو ٹھیک ورنہ کئی سارے لوگ گھنٹوں بھوک برداشت کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ضلعی افسران فرسٹ ایڈ کٹ اپنے ذمے نہیں ڈالتے، وہ ڈپٹی کمشنر کو لکھ کر ڈاکٹرز مہیا کرنے کا کہہ دیتے ہیں مگر چار سو چونتیس پولنگ سٹیشنز پر ڈاکٹرز تعینات کون کر سکتا ہے؟ عملے کے لوگوں کو صاف پانی تو ملنے سے رہا مگر گرمیوں میں ٹھنڈا پانی بھی نصیب نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ گرمیوں میں ٹھنڈا پانی پیتے ہیں، مگر الیکشن کے تین دن تک انہیں بغیر برف والا پانی پینا نصیب ہوتا ہے۔ ووٹر اور عملہ سالوں سے ان پریشانیوں اور عدم سہولیات سے دوچار ہے مگر مجال ہے کہ کسی نے ان پولنگ سٹیشنز پر دھیان دیا ہو۔ کہا یہ بھی جا سکتا ہے کہ الیکشن جیتنے والے نمائندے اپنی قوم اور ووٹر کی تعلیم پر دھیان نہیں دیں گے تو انہی بنجر سکولوں میں ہی پولنگ سٹیشنز قائم ہوں گے۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان پولنگ سٹیشنز پر ہر قسم کی سہولیات میسر کی جائیں اور الیکشن میں کامیاب ہونے والے نمائندے ان زبوں حال سکولوں و دیگر سرکاری عمارتوں کی مرمت کرائیں۔ یہ امیدوار سینکڑوں پولنگ سٹیشنز پر گاڑیاں کیسے دیں، اسی لئے وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا حکم بتا کر کم خرچ ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے زیادہ خرچ کرنے والے امیدوار کو نا اہل بھی کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا کے سامنے بیان دینے سے مکرنے والے سیاست دان اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود کبھی نا اہل ہوئے ہیں اور نا ہی ان سے کوئی سوال کیا گیا ہے کہ کتنا خرچ کیا ہے۔