Get Alerts

دستور پاکستان کے 50 سال؛ بنیادی انسانی حقوق کے وعدے اور ثمرات

دستور پاکستان کے 50 سال؛ بنیادی انسانی حقوق کے وعدے اور ثمرات
وفاق اور عدالت عظمیٰ کی حالیہ باہمی کشمکش کا دھارا نہ جانے کیا رخ اختیار کرے مگر دستور پاکستان کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے اپنی اہمیت کے باوجود قومی سطح پر بہت کم زیر بحث لایا جاتا ہے اور وہ پہلو ہے دستور پاکستان میں انسانی حقوق کے مندرجات، ان کی اہمیت اور اطلاق۔ تاہم اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے اجمالاً دستوری نظریے اور اغراض و مقاصد کا ذکر کرنا اشد ضروری ہے۔

عمومی طور پر کوئی بھی دستور کسی بھی ملک میں حکمرانی کے بنیادی اصول بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کا سیاسی اور قانونی وژن بھی طے کرتا ہے۔ معروف امریکی ماہر آئین و قانون جیمز میڈیسن نے ایک بار کہا تھا؛ 'اگر انسان فرشتے ہوتے تو انہیں کسی دستور اور شاید کسی نظام حکمرانی کی کبھی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ چونکہ انسان فرشتہ نہیں ہے اور ہر قسم کی طاقت اور وسائل کو سلب کرنے کا شیدائی رہا ہے، اسی لئے دستور ہی یہ متعین کرتا ہے کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے نمائندہ انسان کس طرح کام کریں گے اور خاص طور پر تینوں حکمران اداروں کے مابین طاقت کا توازن اور تعلق کیا ہو گا'۔

باوجود اپنی وفاقی، پارلیمانی اور جمہوری خصوصیات اور بڑی حد تک بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت کے، ترقی پذیر ملکوں میں شاید ہی کسی ملک کا دستور اس قدر ناقدری کا شکار ہوا ہو گا اور یکے بعد دیگرے راندہء درگاہ بنا ہو گا جس قدر مملکت خداداد پاکستان کا دستور رہا ہے۔ 75 سال مجموعی طور پر اس ملک کی تخلیق کو، اور عرصہ 50 سال اس اعلیٰ ترین دستاویز کو بنے ہو چکے ہیں، اگر شمار کیا جائے تو آئینہ عکس و انعطاف میں ہماری نگاہ ایک نگاہ افسوس کے طور پر ہی ہمارے دلوں میں لوٹتی ہے۔

اپنی اہمیت اور نئی ریاست کے روشن خیال خدوخال مقرر کرنے کی غرض سے ہی دستور سازی بستر مرگ پر بھی جناح صاحب کے حواس پر سوار تھی۔ جناح صاحب کو ادراک تھا کہ دستور نا صرف ملک کی اعلیٰ و ارفع بیاض قانون و عمل ہوتی ہے بلکہ یہ ایک ایسا نظام وضع کرتا ہے جو کسی بھی ریاست کو چلانے، آگے بڑھانے اور بہت سے انتظامی، سیاسی اور قانونی مسائل حل کرنے میں بھی اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ اور یہ دستوری دائرہ کار ہی ہوتا ہے جو عوام، اداروں اور ریاست کے مابین ایک طرح سے اہم ترین معاشرتی و اخلاقی معاہدہ تشکیل دیتا ہے۔

1956 اور 1962 کے آئینی تعطل اور آمرانہ شخصی رحجانات کے باعث منسوخ ہونے کی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو گوناگوں سیاسی اختلافات اور تقاضوں کے باوجود 1973 کے آئین کی تشکیل اور دو تہائی اکثریتی رائے سے منظوری، پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کا ایک عہد ساز کارنامہ ہی شمار کرنا چاہئیے۔ لیکن عائشہ جلال کی رائے میں 'جہاں بھٹو صاحب کی بے مثال کامیابی دستور پاکستان کا وضع کرنا ہے، وہیں بھٹو صاحب کی سب سے بڑی ناکامی بھی 1973 کے آئین کا من و عن اطلاق نہ کرنا ہے'۔ لیکن یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ ایک بار پھر دستور پاکستان کا اپنی درست ترین روح کے ساتھ، درست ترین سمت میں اطلاق بھی پیپلز پارٹی نے ہی 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے کیا۔ اور بلاشبہ یہ اٹھارہویں ترمیم ہی ہے جس نے نا صرف صوبائی خودمختاری کو ممکن بنایا بلکہ وفاقیت اور پارلیمانی کردار کی پژمردہ رگوں میں جان ڈال کر آمریت کے پھر سے پنپنے کے امکانات کم و بیش ختم کر ڈالے۔

یہاں یہ اشارہ کرنا بھی ماورائے موضوع نہیں ہو گا کہ درج بالا ترمیم کے تحت نا صرف 150 کے لگ بھگ دفعات اور شقوں کو صوبائی دائرہ اختیار و عمل میں لایا گیا ہے بلکہ اس کے فوراً بعد 'عالمی معاہدہ برائے سیاسی اور شہری حقوق' اور 'عالمی معاہدہ برائے سماجی، ثقافتی اور معاشی حقوق' پر دستخط اور توثیق کر کے کم از کم نظریاتی سطح پر انسانی حقوق کے احترام اور عمل درآمد کے لئے راستہ بھی ہموار کر دیا گیا ہے۔

اپنی مبادیات میں دستور پاکستان جس کی 280 دفعات اور 12 حصے ہیں، ایک جامع، مؤثر اور جدید نظر دستور ہے۔ بعد کی بہت سی آئینی اور سیاسی قدغنوں کے باوجود بھی انسانی اور بنیادی شہری حقوق آج بھی اس کا خاصہ ہیں۔ فی الحال اگر باقی نکتوں کو چھوڑ کر صرف انسانی حقوق کی بات کی جائے تو ایک آزاد اور مہذب ملک کی حیثیت سے آئین پاکستان بنیادی شہری حقوق کو کسی بھی مرد، عورت اور بچے کا فطری اور بدیہی حق تصور کرتا ہے۔ اور تاکید کرتا ہے کہ 'ایسا کوئی بھی قانون، ضابطہ یا اقدام جو یا تو براہ راست آئین سے متصادم ہو یا باہم مطابقت نہ رکھتا ہو، غیر آئینی، غیر قانونی اور ناقابل عمل تصور ہو گا'۔

دستور پاکستان ہر شہری کو اس کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے (دفعہ9)؛ کسی بھی شخص کو بلا جواز اور اس کی معلومات اور قطعی جواز کے بغیر نہ تو حراست میں لیا جا سکتا ہے اور نہ ہی حبس بے جا میں رکھا جا سکتا ہے اور قرار واقعی شبہ کے تحت گرفتار ہونے والے فرد کو بھی 24 گھنٹوں کے اندر اندر ضلعی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے اور ملزم کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے، اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے اور ایسے کسی بھی شخص کو جب تک جرم ثابت نہ ہو، معصوم تصور کیا جائے گا (دفعہ10)؛ جبری مشقت اور غلامی کی کوئی بھی شکل یا انداز، گھر کے اندر یا مقام کار پر، قابل قبول نہیں ہے اور 14 سال سے قبل کسی بھی طفل سے ایسا کوئی بھی کام نہیں لیا جا سکتا جو اس کی جسمانی یا ذہنی صحت کیلئے مضر ہو (دفعہ 11)؛ کسی بھی شخص کو ماضی میں کئے گئے کسی بھی ایسے اقدام پر واجب سزا نہیں ٹھہرایا جا سکتا جو اس وقت جرم قرار نہ دیا گیا ہو اور کسی بھی شخص کو ایسے کسی اقدام کے سبب جسے قابل سزا تصور کیا گیا ہو، ایک سے زیادہ مرتبہ سزا بھی نہیں دی جا سکتی (دفعہ 12)۔

فرد کے ساتھ ساتھ چادر اور چار دیواری کی تکریم (ماسوائے امر نا گزیر کے) تمام اداروں، بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی فرض ہے (دفعہ 14)؛ الا ماشاللہ، کوئی بھی شخص پاکستان کے کسی بھی علاقے میں آزادی سے گھوم پھر سکتا ہے اور جہاں چاہے سکونت اختیار کر سکتا ہے۔ اسی طرح پبلک انفراسٹرکچر یا روزمرہ کی زندگی کو متاثر کئے بغیر، کوئی بھی غیر مسلح گروہ، پارٹی، یونین یا پیشہ ورانہ تنظیم اپنے شہر یا ملک کی کسی بھی جگہ پر ہر طرح کے پرامن احتجاج اور مطالبات کیلئے آزاد ہے۔ کوئی بھی شہری یا پیشہ ورانہ تنظیم اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کیلئے تنظیم سازی یا رابطہ کاری کی بھی مجاز ہے اور ایسا کوئی بھی شخص جو سرکاری ملازمت پر نہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈال سکتا ہے بشرطیکہ اس کے ذرائع آمدنی اور پارٹی اخراجات واضح اور شفاف ہوں (دفعہ 15، 16 اور 17)؛ اسلامی حمیّت، پاکستان کی خود مختاری اور دفاع کے منافی اقدامات کو چھوڑ کر ہر شہری کو آزادی فکر و اظہار، لکھنے، پڑھنے اور سوچنے، بولنے کی آزادی حاصل ہے اور یہی آزادی پاکستان کے تمام ذرائع مواصلات اور ذرائع ابلاغ کو بھی حاصل ہے۔ اسی تناظر میں تمام شہریوں کو عوامی مفادات کے تمام پروجیکٹس، تمام پالیسیوں اور منسلکہ یا مجوزہ ترجیحات، تخمینہ جات اور اخراجات تک رسائی دینا اور کسی بھی میڈیا چینل یا متوّشش شہری کو درکار معلومات فراہم کرنا بھی ضروری ہے (دفعہ 19اور 19اے)۔

اخلاقی اور قانونی دائرے کے اندر، دستور پاکستان ہر شہری کو نا صرف اپنے دینی وظائف اور تہوار سرانجام دینے کی مکمل آزادی اور تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں اپنے عقائد کے فروغ و اشاعت کی آزادی بھی حاصل ہے۔ کسی بھی شخص سے ایسا کوئی بھی ٹیکس، جزیہ یا معاوضہ نہیں لیا جا سکتا جو اس کے فرقے یا عقیدے کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی ترویج و تعلیم کیلئے استعمال کیا جائے (دفعہ 20 اور 21)؛ آرٹیکل 22 کے مطابق کسی بھی فرد (بالخصوص زیر تعلیم اطفال) کو کسی بھی حوالے سے ایسی کوئی تعلیم یا ہدایات فراہم نہیں کی جا سکتیں اور اسے ایسی کسی سرگرمی، تہوار یا عبادات میں حصہ لینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو اس کے عقیدے کے خلاف ہوں۔ کوئی بھی شہری کسی بھی عوامی تفریحی، علمی و تعلیمی، تاریخی و ثقافتی مقام پر اپنی ذات، برادری، صنف، عقیدے اور شناخت سے ماورا جانے کے لئے آزاد ہے (دفعہ 26)۔

دفعہ 25 کے مطابق ملک کے تمام شہری بلا تفریق رنگ، ذات، مذہب اور صنف مساوی ہیں۔ کسی بھی شہری سے درج بالا کسی بھی حوالے سے کوئی بھی تفریق یا امتیاز روا نہیں رکھا جا سکتا۔ اور یہ دفعہ عورتوں اور بچوں کے تحفظ، مساوات اور ترقی کیلئے پارلیمان کی حسب ضرورت مزید قانون سازی کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر دفعہ 25، ریاست کو 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کا پابند بناتی ہے۔ اور یہ کہ میرٹ کی بنیاد پر ریاست کے تمام شہری ہر طرح کی ملازمت اور عہدے کیلئے مطلوبہ پروسیجر کا حصہ بننے کا حق رکھتے ہیں، جس کیلئے وہ اہلیت رکھتے ہوں اور انہیں رنگ، ذات، مذہب، صنف، علاقہ اور کسی بھی دوسری شناخت کی بنیاد پر نا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا (دفعہ 27)۔

اور یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی تمام قومیتوں، ثقافتوں اور زبانوں کے بولنے والوں کو اپنی زبان، تاریخ اور ثقافت کو پڑھنے پڑھانے اور بڑھانے پھیلانے کا حق اور اختیار حاصل ہے اور انہیں متعلقہ ادارے بنانے اور اپنی زبان و ثقافت کو عام کرنے کا مکمل حق اور اختیار حاصل ہے۔ بلکہ صوبائی، لسانی اور ثقافتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے صوبوں یا علاقوں میں متفرق زبانوں اور ثقافتوں کی افزائش اور ترقی کے لئے کام کریں (دفعہ 28)۔

جیسا کہ واضح ہے کہ اپنی روح اور مندرجات میں دستور پاکستان ایک روشن خیال اور ترقی پسندانہ دستور ہے لیکن عملی طور پر انسانی اور بنیادی شہری حقوق کے حوالے سے شاید ہی کوئی ایسی دفعہ یا شق ہو گی جس کے احترام اور اس پر عمل درآمد کو ہمارے ملک اور معاشرے میں ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہو۔ دیگر بہت سی وجوہات کے اس دستاویز کی عسکری قوتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً جزوی یا کلی معطلی اور غیر فعالیت بھی ایک اہم وجہ ہے۔ جبکہ دوسری بڑی وجہ ارباب اختیار و انصاف کی جانب سے درج بالا تمام دفعات کا منتخبہ یا شکستہ استعمال، خلاف ورزی اور خودپسندانہ حوالہ جاتی رویہ بھی ہے۔ آئینی طور پر نہیں تو عملی طور پر ضرور اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ پاکستان ایک کثیر قومی، کثیر لسانی اور کثیر مذہبی ملک ہے جو تنوّع اور یگانگت کے بطن سے جنم پذیر ہوا ہے۔

سب سے بڑھ کر تین بنیادی اقدار یعنی 'آزادی فکر و اظہار، شہری و انسانی مساوات، بشمول مساوی مواقع اور وقار کے، اور جان و مال کے تحفظ' کو مسلسل پامال کیا جاتا ہے۔ یہ تینوں اقدار دساتیر عالم کا قلب و دماغ ہیں جنہیں پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے جمہوری ممالک نے انقلاب فرانس اورامریکی دستور سے مستعار لیا ہے۔ اور آج بھی مستقبل پسند دساتیر کا جزو بدن ہیں۔ بات موضوع سے ذرا ہٹ جائے گی لیکن آمرانہ جھکاؤ اکثریتی جمہوری حکومتوں کا بھی رحجان رہا ہے چہ جائیکہ جس ملک میں 32 سال براہ راست فوجی آمریت مسلط رہی ہو۔ اسی لئے سماجی انصاف پر مبنی متناسب جمہوری اور سرمایہ دارانہ معیشت کی بجائے وسائل کی منصفانہ تقسیم کار کا نظام اپنانے کی ضرورت ہے۔

اگر دستور کو قانون سازی اور روّیوں کی تشکیل و تعمیر کا مبدا اور منبع تصور کیا جائے تو ریاست کے بہت سے سیاسی، سماجی، حتیٰ کہ معاشی معاملات کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ یورپ کے بہت سے ملک اس ڈگر پر چلنے کی اچھی مثال ثابت ہوئے ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں انقلاب فرانس، امریکی خود مختاری اور بالاستعیاب بیسویں صدی کے وسط و اوّاخر میں دوسری عالمی جنگ کے اثرات کے تحت یورپی نو آبادیاتی استعماریت سے آزادی کے بعد جن ایشیائی ریاستوں نے، جن میں پاکستان، ہندوستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور بہت سے افریقی ممالک شامل ہیں، اپنے دساتیر کی بنیاد بڑی حد تک عالمی چارٹر اور عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق پر رکھی۔ ان کے دساتیر، ماسوائے کچھ داخلی خدشات اور ترجیحاتی دفعات اور شقوں کے، عمومی طور پر ترقی پسندانہ اور جدت پسندانہ ہیں۔ مگر ان کی موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال میں واضح فرق صرف اور صرف اپنے دستور کا عملی طور پر احترام کرنے اور نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔

دراصل آئین کو غیر اہم اور غیر متعلقہ دستاویز تصور کرنے کی بجائے اگر ایک زندہ اور متحرک بیاض عمل سمجھا جائے تو اس میں عصر حاضر کی متقاضی رد و بدل کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہئیے۔ چونکہ دستور کی حتمی غرض شہریوں کے جان و مال، عزت و آبرو، اور فکری و سماجی آزادیوں کا تحفظ ہوتا ہے اس لئے عوامی امنگوں اور متغیر حالات و واقعات کے تحت اس میں مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں، کرنی چاہئیں اور ایسے ہی اقدامات کسی آئین کو ایک شجر برگ و بار کی طرح زندہ اور کارآمد رکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اٹھارہویں ترمیم پاکستان کی دستوری تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس نے نا صرف ہمارے نسبتاً اچھے دستور کو جلا بخشی بلکہ کم و بیش پون صدی پر مشتمل صوبائی اور قومیتی تقاضوں کو بھی پورا کیا ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے خلاف کسی قسم کا اقدام پاکستان کے کثیر قومی، کثیر لسانی اور کثیر مذہبی وفاق کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہو گا۔ آئینی اہمیت (بشمول اٹھارہویں ترمیم کے) اس بات کی غماز بھی ہے کہ اگر 1971 سے پہلے ایسا ہی جمہوری، وفاقی اور پارلیمانی آئین تشکیل دیا جا چکا ہوتا تو شاید مشرقی پاکستان ہمارے وجود سے الگ نہ ہوتا۔ مگر یہ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ گذشتہ کچھ دہائیوں میں کنزرویٹو مذہبی ترامیم نے آج تک ہمارے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہی کیا ہے۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جینے کے حق، بنیادی شہری آزادیوں اور حق وراثت کی ضمانت مرکزی وفاقی حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے لیکن ترقی یافتہ ملکوں کے تجربے سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ بنیادی شہری حقوق، ضروریات، سہولیات اور روزمرہ کی خدمات صرف اور صرف صوبائی اور مقامی حکومتیں ہی فراہم کر سکتی ہیں۔ اس لئے آرٹیکل 140 اے کو عملی جامہ پہنانا، دوری انتخابات کروانا اور مقامی حکومتوں کو ان کے وسائل اور اختیارات عطا کرنا بھی اشد ضروری ہے تاکہ شہریوں کا معیار زندگی بہتر کیا جا سکے۔ مگر شومئ قسمت کہ مؤخر الذکر دفعہ، اوّلذکر سے بھی زیادہ ارباب بست و کشاد کی ناپسندیدہ رہی ہے۔ بصد افسوس یہی سبب ہے کہ ایک عام آدمی کی روزمرہ زندگی گلگت سے گوّادر تک اجیرن ہے۔

چونکہ ہمارے ہاں عدل و انصاف کا ترازو (مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح پر) طرح طرح کی مصلحتوں، تاویلات، توجیحات اور ترغیبات کا شکار رہا ہے اس لئے عوام الناس اور سائلین کو انصاف فراہم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی شقوں اور دفعات پر مستند اصولوں اور عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق کے مطابق عمل کیا جائے۔ جبکہ وفاقی سیاسی معاملات، مسائل اور غیر تاریخی معاملات میں پارلیمان کی بالا دستی کو تسلیم کیا جائے کیونکہ وہی عوام کا نمائندہ فورم اور آئین کا سرچشمہ ہے۔ اداروں کے مابین باہمی تعلق اور توازن کی شرح دستوری اصولوں کے مطابق کی جائے جبکہ ججوں کو پروسیجرل احکامات اور من پسندانہ ازخود نوٹسوں اور غیر ضروری سماعتوں سے گریز کرنا چاہئیے تاکہ ملتوی کیسز کی تعداد میں کمی لائی جا سکے۔ تمثیل کیلئے ترقی یافتہ اور بعض معاملات میں اپنے مشرقی ہمسایہ ملک سے سیکھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئیے۔

ہرچند کہ عالمی آئینی ماہرین، عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کو بڑی حد تک متفرق دفعات اور شقوں کی تشریحات اور اطلاق کی اجازت دیتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ مثبت سمت میں شہریوں کے حقوق کا کوئی نیا باب کھول رہی ہوں، نا کہ پہلے سے موجود حقوق کو بھی رجعت پسندانہ ذہنیت کی وجہ سے کسی تنگنائے لایعنی میں ڈال رہی ہوں۔ دوسرا نکتہ نظر دستور کی لفظ بہ لفظ شرح اور تعبیر کی اجازت دیتا ہے، جسے بعض اوقات معبدی دستوری نظریہ بھی کہا جاتا ہے اور آئین کی صرف اسی زاویے کے ساتھ شرح کی اجازت دیتا ہے جس نکتہ نظر سے اوریجنل آتھرز نے اسے لکھا تھا اور وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے باوجود کسی بھی لچک کی کوئی گنجائش نہیں دیتا۔ مگر ایک بار پھر وہ بھی ایسی صورت میں جب متبادل شرح سے شہری اور انسانی حقوق کی مزید کمیابی یا استحصال کا خدشہ ہو یا پھر اداروں کے درمیان تعلقات میں مزید بگاڑ کا احتمال ہو۔ پہلا نکتہ نظر مقصدی کہلاتا ہے جبکہ دوسرا لغوی یا ساختیاتی نکتہ نظر کہلاتا ہے۔

ہر دو صورت میں ایک ہی عبارت کی ایک سے زیادہ شرحیں ممکن ہیں کیونکہ وقت بدلتا ہے، حالات بدلتے ہیں اور ایک ہی سٹیٹمنٹ کو کئی پہلوؤں اور پس منظر سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی آرٹیکل سے دو مختلف اوقات میں، دو مختلف منصفین دو سے زیادہ مطالب اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا لغوی، ساختیاتی اور معبدی شرح کے ساتھ ساتھ دستور کی نظریاتی، افادہ جاتی اور اخلاقی تفسیر بھی ممکن ہے۔ بعض اوقات دستور کے دو چار تار و پود کا منطقی یا غیر منظقی سمبندھ بنا کر بالکل نئے اور اختراعی معانی بھی نکال لیے جاتے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ آئینی متن سے مشابہت بھی رکھتے ہوں۔ ایسے انداز و اسلوب کو دستوری رحجان اور مزاج بلکہ مثالیت سے ہٹ کر اصل رنگ و بیان پر نیا رنگ و بیان چڑھانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔

آئین کے ترقی پسندانہ شارحین کی رائے میں آئینی شرح کے بنیادی اور مسلمہ اصولوں سے ہٹ کر شرح کرنا آئینی روح کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ مگر متفرق شرحات کے اسباب بعض اوقات سماجی اور سیاسی پس منظر میں پیوست ہوتے ہیں کیونکہ ججز اور جیورسٹ لاہوت سے وارد نہیں ہوتے بلکہ انہی سیاسی اور سماجی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں جن حالات سے ملک گزر رہا ہوتا ہے اور دونوں متغیّرات کا تعلق جدلیاتی بھی ہو سکتا ہے۔

دستور پاکستان کو اگر انسانی اور شہری حقوق، بالخصوص اقلیتی حقوق کی پامالی کے حوالے سے دیکھا جائے تو کچھ دستوری ترامیم اور مستزاد اس پر شرحیں زیادہ تر، اکثریت پسندانہ، غیر منصفانہ اور قدامت پسندانہ رہی ہیں اور اقوام متحدہ کے اقلیتی حقوق کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتیں۔ یہی سبب ہے کہ ضلعی عدالتوں سے لے کر عدالت عظمیٰ تک ہماری عدالتیں انسانی اور بنیادی شہری حقوق کی بالادستی ثابت کرنے اور انہیں مزید تقویت دینے کے لئے 'کیس لاء یا پریسیڈنٹ' بنانے میں ناکام رہی ہیں۔

قصہ مختصر دستور کی تخلیق ایسی حکومت بنانے کیلئے کی جاتی ہے جو نا صرف وفاقی اور صوبائی سطح پر شہریوں کے حقوق، آزادیوں اور ضروریات و سہولیات کے لئے کام کر سکے اور ایسا کوئی اقدام نہ کرے اور نہ ہونے دے جس سے مندرجہ بالا حقوق کے استحصال اور خلاف ورزی کے امکانات یا رحجانات بڑھ جائیں اور دستور ہی پارلیمان کو سپریم قرار دیتا ہے اور سپریم کورٹ کو صرف ایسے پارلیمانی اقدامات یا ترامیم کو سٹرائیک ڈاؤن کرنے کی اجازت دیتا ہے جو کسی بھی ملک کے بنیادی جمہوری ڈھانچے کو منہدم کرنے یا بنیادی شہری آزادیوں یا حقوق کو سلب کرنے کے مترادف ہوں۔ سپریم کورٹ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی جس سے پارلیمان ایک ثانوی اور غیر اہم ادارہ بن کر رہ جائے۔ دوسرے معنوں میں پارلیمان ہی دستور میں سیاسی اور سماجی مفاد یا وسیع تر قومی افادے کی خاطر تغیر و ترامیم کرنے کی مجاز ہے۔ عدالت عظمیٰ و عالیہ کو آئین کی شارح ہونے کے باوجود رجعت پسندانہ، متنازع یا ممکنہ منفی اثرات کی حامل شرحات سے گریز کرنا چاہئیے تاکہ کوئی بھی جمہوری ملک شاہراہ ترقی پر گامزن رہ سکے۔

تاہم تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ کوئی بھی آئین اور قانون جملہ افراد اور شہریوں کو مہذب اور باوقار نہیں بنا سکتا جب تک معاشرے کی بنیاد عالمی انسانی تہذیب و اقدار اور بلا تفریق ذات، رنگ، صنف، مذہب اور زبان کے مساوات اور باہمی وقار پر نہ رکھی جائے۔

مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراق) سے وابستہ ہیں