سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائرصدارتی ریفرنس پرسماعت، چیف جسٹس نے واضح ریمارکس دیے کہ عدالت ازخود نوٹس کسی کی خواہش پرنہیں لیتی، ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کےمعاملے پر12ججزایک ساتھ بیٹھے آئینی بحران کوبھانپتے ہوئے نوٹس لینے کی ججزکی متفقہ رائے تھی چاہے عدالت پرتنقید ہو ہم ہنس کرآئینی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کے دائرہ اختیارکوریگولیٹ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کا کہ جلد ازخود نوٹس لینے کے رولزطے کر لیںگے، ق لیگ کے وکیل نے صدارتی ریفرنس واپس لینے کی افواہوں کا ذکرکیا تو چیف جسٹس بولے، وفاقی حکومت ریفرنس کی اہمیت سے واقف ہوگی تشریح کے راستے میں نہیں آئے گی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے سماعت کی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس اورآئینی درخواستیں عدالت کے سامنے ہیں، قانونی سوال پرعدالت اپنی رائے دینا چاہتی ہے آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، پارلیمانی جمہوریت کیلئے آرٹیکل63 اے کی تشریح ضروری ہے ،ازخودنوٹس کسی کےکہنے پرنہیں بلکہ بنچ کی مرضی سےلیاجاتا ہے،ڈپٹی اسپیکررولنگ پرازخود نوٹس آئین کو سامنے رکھتے ہوئے لیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح وفاق پرلاگوہویا صوبوں پریہ ہمارا مسئلہ نہیں، عدالتی رائے کے تمام فریق پابند ہوںگے، ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق بولے کہ سینٹ الیکشن پرعدالتی رائے کا احترام نہیں کیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ 63 اے کے تحت نااہلی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیرالتواء ہے، ایک فریق سپریم کورٹ اپیل میں آئےگا،
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ازخود نوٹس لینے کے دائرہ اختیارکوریگولیٹ کرنے جارہے ہیں جس کیلئے رولزطے کرلیںگے۔
بابر اعوان نے دلائل میں عدالتی احترام کا ذکر کیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آپکی ادب کی بات کی قدرکرتے ہیں، کاش یہ ادب احترام لوگوں میں بھی پھیلائیں، لوگوں کوبتائیں کہ عدالت رات کوبھی کھلتی ہے، بلوچستان ہائیکورٹ رات ڈھائی بجے بھی کھلی، بابراعوان بولے اس کام کیلئے وزارت اطلاعات ہے تاہم وہ اس بحث میں نہیں جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ منحرف ارکان کیخلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس فائل ہوچکے ہیں تاہم ریفرنس کےباوجود آرٹیکل 63اے کی تشریح کرسکتے ہیں، پارلیمانی جمہوریت کیلئےآرٹیکل 63اے کی تشریح کا سوال بڑااہم ہے ، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ کیا الیکشن کمیشن انحراف رکن کوجھوٹا اوربددیانت قراردے سکتا ہے؟
بابراعوان نے کہاکہ الیکشن کمیشن کااختیارہے کہ کسی رکن کوبدیانت یا ایماندارقراردے سکے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو25 منحرف اراکین سے کوئی غرض نہیں، آئین کی تشریح آج کیلئے نہیں آئندہ نسلوں کیلئے کرنی ہے،ہم نے آئین کی ان شقوں کے مقصد تک پہنچناہے، آئین کے اصولوں کودیکھنا انفرادی لوگوں کے عمل کونہیں، عدالت واقعہ کے رونما ہونے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ ٹھیک ہوایاغلط، چیف جسٹس نے مزید کہاکہ ریکوڈک میں ایگزیکٹواپنی زمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوئی۔
اگرکوئی معاملہ عدالت کے سامنے لانا چاہتے ہیں تودرخواست دیں،بابراعوان بولے کہ سینٹ الیکشن پرصدارتی رائے پرعملدرآمد الیکشن کمیشن کی کوتاہی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ سینٹ انتخابات سے متعلق ایک درخواست دکھا دیں آپکی جماعت کی طرف سےآئی ہو ، عدالت نے سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔