پارلیمان آزادی اظہار سے متعلق آئین کے آرٹیکل 19 کی تشریح کرے

کیا آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار کے جدید تقاضے پورے کرتا ہے یا آئین کی مذکورہ شق کا سہارا محض اچھا اظہاریہ بنانے کے لئے لیا جاتا ہے؟ سوشل میڈیا کی ہنگامہ خیزی میں پارلیمان کی طاقت کو مضبوط کیا جانا چاہیے تاکہ پارلیمان آرٹیکل 19 کا جائزہ لے کر اسے مکمل جمہوری بنائے۔

پارلیمان آزادی اظہار سے متعلق آئین کے آرٹیکل 19 کی تشریح کرے

ہم 75 برس سے جس سیاسی اور مارشلائی نظام کے نیم نفسیاتی حالات کا شکار ہیں، اس نے ہماری نسلوں کو ایک ایسی الجھن کا شکار بنا دیا ہے کہ نسل جدید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد بھی 'سیاست اور آئین' کی بحث کو غیر سنجیدہ سمجھتی ہے اور اسے اپنے ذہن کا 'فضول ڈسٹ بن' سمجھ کر آئین اور قانون کی بحث کو غیر ضروری سمجھتی ہے، جبکہ آج بھی گاؤں دیہات کے ڈھابوں اور جھونپڑ پٹی چائے خانوں میں آمر جنرل ضیاء کی دین 'سیاسی گفتگو کرنا منع ہے' کو جلی حروف سے لکھوایا جاتا ہے اور کالج یونیورسٹی کے ایڈمیشن فارم میں 'سیاست میں حصہ نہ لینے' کا حلف نامہ بھروا کر آئین کے آرٹیکل 19 کی صریح خلاف ورزی کی جاتی ہے جس کو باوجود کوشش کے بظاہر جمہوری کہلانے والی کوئی حکومت آج تک ختم نہیں کر سکی۔ ایسے ماحول میں سپہ سالار کی آزادی اظہار پر گفتگو اور عمران خان کے عالمی جریدے میں چھپنے والے اور مضمون کہلوائے جانے والے اظہاریے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں اسے حسن اتفاق ہی کہیں گے کہ 'عالمی یوم آزادی اظہار' کے موقع پرعالمی میڈیا The Telegraph میں عمران خان کے مضمون 'All that's left for them now is to murder me, but I'm not afraid to die' کے ذریعے اظہار کی آزادی اور قانون کی بالادستی کی آزادی وہ افراد بھی مانگ رہے ہیں جو چند سال قبل اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے عوام کو درس دے رہے تھے کہ ملک کی مضبوطی کے لئے 'ہائبرڈ نظام' وقت کی ضرورت ہے اور حکومت کو طاقتور اداروں کے ساتھ 'ایک پیج' پر ہونا ملک کی سلامتی و بقا کے لئے ضروری ہے، جبکہ آر ٹی ایس سسٹم کے بطن سے جنم لینے والی حکومت کے روح رواں عمران خان عوام کو انصاف اور قانون کی وہی تشریح بتا رہے تھے جو عدالتی نظام موصوف کو مکمل سہولت کاری دے رہا تھا یا جو کہ کسی نہ کسی شکل میں اب بھی عمران خان کی سہولت کاری کے لئے جاری و ساری ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وقت کا جبر ان قوتوں کو بھی 'اظہار کی آزادی' کا احساس دلا رہا ہے کہ جن کے ماضی کے مارشلاؤں نے ہمیشہ انسانی حقوق اور اظہار کی آزادی کو من مرضی سے ملک کو سلامتی کے نام پر چلایا اور عوام کے ووٹ کے تقدس اور جمہوری آزادی کو تہہ تیغ کیا۔ سوال یہ ہے کہ دیر آید درست آید کے مصداق مذکورہ جمہوریت مخالف قوتیں کیا واقعی اپنا احتساب کرنے میں سنجیدہ ہیں یا اظہار کی آزادی کا مطالبہ کرنا طرفین کی جانب سے صرف زبان و بیان کی حد تک عوام کو مزید لالی پوپ دینے کی 'واردات ہوشیاری' ہے؟

اگر ' دی ٹیلی گراف' برطانیہ میں عمران خان کے مضمون 'مجھے قتل کر دینے کے سوا کچھ نہیں بچا، مگر میں مرنے سے نہیں ڈرتا' کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہیں سے بھی عمران خان کا لکھا ہوا مضمون نہیں لگتا بلکہ بیرون ملک تحریک انصاف کی لابی فرم کی کاوش لگتی ہے جس نے مختلف مواقع پر عمران خان کے دیے جانے والے بیانات کا تجزیہ کر کے اس کے اصل مقاصد و بیان کو بھرپور طریقے سے تحریک انصاف کے عقیدت مندوں کی مایوسی میں روح پھونکنے کی ایک اچھی کوشش کر کے پیش کیا ہے۔ ان بیانات کو ایک جگہ جمع کر کے مضمون بنانے کی ٹیلی گراف کی یہ کوشش تحریک انصاف کی پروپیگنڈہ مہم کے علاوہ کچھ نہیں لگتی۔

جہاں تک مذکورہ مضمون میں اظہار کی آزادی اور قانون کی بالادستی کا ذکر ہے تو اس سے اصولی اتفاق ہی کیا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے اقتدار کے دور میں اظہار رائے کی بہتری کے لئے کتنی کوششیں کیں؟ کیا انہوں نے اظہار رائے کو کچلنے کے لئے پیکا قانون کو مزید خوفناک بنانے یا اظہار کی آزادی کو سلب کرنے کے لئے مختلف آرڈیننسز لانے اور قانون کے ذریعے میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی MDAقائم کرنے اور اظہار رائے کا گلا گھونٹنے کی بھرپور کوشش نہیں کی؟ وہ تو بھلا ہو ملک کے صحافیوں اور ناصر زیدی کی قیادت میں صحافتی تنظیم پی ایف یو جے کا کہ جس نے اس بل کی سیاسی اپوزیشن کے ساتھ کھل کر مخالفت کی اور آخرکار ہائبرڈ نظام کی جمہوری حکومت اور عمران خان کو اظہار کا گلہ دبانے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مضمون کے آخر میں دی ٹیلی گراف نے صحافتی بد دیانتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے درج کیا ہے کہ 'تحریک انصاف کے رہنما عمران خان جو آج کل بدعنوانی کے متنازعہ کیسز کا سامنا کر رہے ہیں'۔ اس مرحلے پر ملک کے سنجیدہ فکر صحافی ضرور رہنمائی کریں کہ صحافت میں کسی عدالت میں کوئی بھی مقدمہ ثابت ہونے سے پہلے اسے متنازعہ لکھا جا سکتا ہے؟ کیا اس مرحلے پر یہ غیر واضح جملہ صحافت اور اس کے بنیادی اصول سے متصادم نہیں؟ کسی بھی مقدمے کا فیصلہ آنے سے پہلے دی ٹیلی گراف کا صحافی یہ کیسے طے کر سکتا ہے کہ یہ متنازعہ ہے یا نہیں؟ کیا یہ دی ٹیلی گراف کی صحافتی تقاضوں سے ماورا پروپیگنڈہ مہم نہیں؟

آزادی اظہار پر آئین کے آرٹیکل 19 کا حوالہ دیتے ہوئے ہمارے سپہ سالار نے بھی آئین میں درج اظہار کی آزادی پر پیغام بھری گفتگو کی ہے جو کہ حوصلہ افزا بات ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے سپہ سالار آئین کے دائرے یا حدود سمجھنے کے دعوے کے ساتھ آئندہ آئین شکنی کرنے والے ادارے کی یقین دہانی قوم کو کروا دیتے تاکہ عوام جمہوری قدروں کی سربلندی میں سپہ سالار کو تاریخی فیصلہ ساز قرار دیتی۔

اب ذرا یہ بھی دیکھتے چلیں کہ کیا آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار کے جدید تقاضے پورے کرتا ہے یا آئین کی مذکورہ شق کا سہارا محض گفتگو اور اچھا اظہاریہ بنانے کے لئے ہے؟ آئین کے آرٹیکل 19 میں ہر شہری کو اظہار رائے کی جمہوری آزادی ضرور لکھی گئی ہے مگر کیا ملک کے عوام کو 75 برسوں میں اظہار رائے کی مکمل یا کم از کم 1973 کے آئین کی روشنی میں آزادی دی گئی ہے؟ آزادی اظہار قائم کرنے اور آئینی حقوق طلب کرنے میں کیا صحافیوں اور اس ملک کے عام شہریوں کو مارشل لاء کے فوجی آمروں اور جمہوریت کے خواب دکھا کر لائے گئے جمہوری حکمرانوں نے ملک کی سلامتی کے خوش کن نعروں کی آڑ میں کوڑے مارنے سے لے کر زندان خانوں میں نہیں رکھا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ آج کے جدید تقاضوں اور شہریوں کے جمہوری حقوق کو آئین کا آرٹیکل 19 مکمل تحفظ دیتا بھی ہے یا نہیں؟

آئین کا آرٹیکل 19 کہتا ہے کہ آئین تقریر یا کہنے کی آزادی اور صحافت کی آزادی کے ساتھ شہریوں کی تقریر و تحریر یا رائے کے احترام کا ضامن ہے مگر اسی کے ساتھ اگلے جملے میں درج ہے کہ اسلام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے، ملک کی سلامتی و دفاعی قوتوں کے برعکس بیانیہ دینے، انتشار پیدا کرنے کے ساتھ عدالتی نظام پر تنقید جرم کے زمرے میں تصور ہوں گے۔

آرٹیکل 19 کو اگر مکمل پڑھا جائے تو یہاں یہ کہیں درج نہیں ہے کہ اسلام کے خلاف، دفاع کے خلاف، ملک میں انتشار برپا کرنے، یا عدالتی نظام پر عام شہریوں کی رائے کو کون طے کرے گا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے یا نہیں، یا کسی بھی شہری پر مذکورہ الزامات لگانے اور اسے قید کرنے یا مقدمہ قائم کرنے کی اتھارٹی کیسے اور کون طے کرے گا یا آیا کہ شہری کی رائے کے ضمن میں گرفتاری غیر قانونی ثابت ہو جاتی ہے تو عام شہری کے ساتھ غیر قانونی سلوک روا رکھنے والے حکام کی سزا کورٹ آف لاء میں کیا ہو گی؟ اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کی ہنگامہ خیزی میں جمہوری اصولوں کے تحت قائم پارلیمان کی طاقت کو مضبوط کیا جائے تاکہ پارلیمان آرٹیکل 19 کا جائزہ لے کر اسے مکمل جمہوری بنائے، وگرنہ اظہار رائے کی مکمل ضمانت دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ نہ ہو گی۔ اس خیال میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی ریاست میں سنجیدہ فکر اور قانون پسند ہونے کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی مادر پدر یا بے لگام آزادی پر نظر رکھی جانی چاہیے، مگر آزادی کے بے لگام ہونے میں منفی ریاستی اقدامات کا جائزہ لینا بھی وقت کی ضرورت اور انتہائی سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔

اس مرحلے پر ملک میں شہری آزادی اور عوام کے جمہوری حقوق کی ریاستی پامالی پر نظر رکھنا صحافت کی آزادی کا وہ اہم معاشرتی نشان یا تقاضا ہے کہ جس کی آزادی کو بحال رکھنا ہی بہتر اور جمہوری رویوں سے جڑا ہوا عمل ہے۔ پاکستان میں ابتدا ہی سے عوامی رائے اور بطور خاص صحافت کی آزادی کو ہر دور میں پابند سلاسل کرنے اور تحریر و تقریر کی آزادی نہ دینے کو مقدم رکھا گیا۔ صحافت کے عالمی دن پر آج بھی پاکستانی اور عالمی صحافت مختلف ریاستی پابندیوں اور پرتشدد کارروائیوں سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے صحافی دوست ضرار کھوڑو کے ایک سیمینار کے دوران اسرائیل اور حماس کے مابین غزہ کے مظالم پر عالمی صحافت پر دباؤ کے ہوش ربا انکشافات بتاتے ہیں کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے چیمپئن مغربی ممالک کس طرح غزہ میں اسرائیلی قتل و غارت کا دفاع کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ ان سب کے سامنے بے بس ہے۔

پاکستان میں صحافت ہمیشہ سے مارشل لاؤں، آمروں اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کے عتاب کا شکار رہی ہے جس میں اخبارات سے لے کر الیکٹرانک میڈیا کے ایڈیٹوریل کنٹرول کو اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری کہلائی جانے والی حکومتیں اپنی خواہشات پر چلانا چاہتی ہیں جو کسی بھی طور آئین کے آرٹیکل 19 کی پاسداری ہے اور نا ہی یہ حکومتوں کا جمہوری عمل ہے۔ اب تو عمران خان کے نوازے گئے ہائبرڈ نظام کے تحت ملک کی جمہوریت بھی پا بہ زنجیر ہی نظر آتی ہے۔

وارث رضا صحافی ہیں اور کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔