ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر وعدے سے پھرنے پر افسوس ہے، آئین کی تشریح سیاسی کام ہے: چیف جسٹس

ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر وعدے سے پھرنے پر افسوس ہے، آئین کی تشریح سیاسی کام ہے: چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ افسوس ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے ہی معاہدے سے پھر گئیں، دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت میں خفیہ طریقے کار کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا، میثاق جمہوریت کی دستاویز اب بھی موجود ہے، لیکن اس پر دستخط کرنے والی پارٹیاں اب اس پر عمل نہیں کررہیں۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل و صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل و دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سینیٹ ووٹرز کے لیے ہدایت نامہ تیار کیا ہے؟، گزشتہ انتخاب کے لیے ہدایت نامہ تیار کیا گیا تھا تاہم ہمیں ابھی الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کو یہاں ہونا چاہیے، جس پر سیکریٹری الیکشن کمیشن روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم نے ہدایت نامہ تیار کیا ہے، اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ اگر ووٹرز کے لیے ہدایت نامہ تیار کیا ہے تو دکھائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے۔

عدالت عظمیٰ کے بینچ رکنی بینچ کے سربراہ کے ریمارکس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام شفاف الیکشن کے لیے انتظامات کرنا ہے، پولنگ بوتھ میں نہ رشوت چلتی ہے نہ امیدوار سے کوئی رابطہ ہوتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا الیکشن کے نتائج کے بعد ووٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ گنتی کے وقت ووٹ کو دیکھا جاتا ہے، تاہم گنتی کے وقت ووٹ ڈالنے والے کا علم نہیں ہوتا، آئین ووٹ ڈالنے والی کی شناحت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اسی دوران ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کیا اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوجائے گی؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں،226 انتخابات کو خفیہ رکھنے کا پابند کرتا ہے، آئین کے تحت ہونے والے انتخابات خفیہ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت ترمیم چاہتی ہے، اٹارنی جنرل نے اس کی وضاحت کردی ہے، کابینہ کے پاس یہ معاملہ تھا لیکن انہوں نے بوجھ خود نہیں اٹھایا، سارا بوجھ انہوں نے عدالت پر ڈال دیا، سپریم کورٹ کا دائرہ ایڈوائزری ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ جس پر سلمان طالب الدین نے جواب دیا کہ عدالت صرف اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے سکتی ہے، اب بہت ساری باتیں ہورہی ہیں، بہت کچھ سنا جارہا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ان باتوں سے غرض نہیں، اس پر چیف ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یہ مکمل سیاسی معاملہ ہے، عدالت اس سے پہلو تہی کرے، عدالت خود کو سیاست سے بالاتر رکھے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں خود سیاسی قوانین موجود ہیں، ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔

ان کے ریمارکس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمشن کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے دیں، کرپٹ پریکٹسز کی روک تھام بھی عدالت نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا کام ہے، کرپٹ پریکٹسز، رشوت ستانی و غیر قانونی پریکٹسز نہیں ہونی چاہئیں۔