انیسویں صدی کا اطالوی لوک گیت ’بیلا چاؤ‘ اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز کیوں؟

انیسویں صدی کا اطالوی لوک گیت ’بیلا چاؤ‘ اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز کیوں؟
دنیا بھر میں اس وقت نیٹ فلکس کی سیریز La casa de papel المعروف Money Heist کی دھومیں مچی ہیں۔ یہ ہسپانوی سیریز اس وقت دنیا بھر میں ٹرینڈ کر رہی ہے اور پاکستان میں بھی اس وقت نیٹ فلکس پر نمبر ون ٹرینڈ پر ہے۔ اس کی وجہ اس کے چوتھے سیزن کی ریلیز ہے جو کہ جمعہ کی صبح جاری کیا گیا۔ اس ڈرامے کی شہرت جہاں شاندار سٹوری لائن اور کہانی کو سنانے کا اچھوتے انداز کی وجہ سے ہے، وہیں اس کی ایک بڑی وجہ مشہور اطالوی لوک گیت ’ بیلا چاؤ‘ ہے جو کہ نہ صرف دنیا بھر میں پہلے ہی فسطائیت کے خلاف ایک احتجاجی ترانے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس سیریز کی شہرت کے باعث ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں زبان زدِ عام ہو گیا ہے۔

مسولینی کے خلاف ایک باغی ترانہ بننے سے قبل بیلا چاؤ کیا تھا؟

بیلا چاؤ‘ کی تاریخ انیسویں صدی سے شروع ہوتی ہے کہ جب شمالی اٹلی میں دیہی خواتین چاول چننے کے لئے صبح سے لے کر شام تک انتہائی سخت حالات میں کھیتوں میں کام کیا کرتی تھیں۔ نہ صرف ان کے اوقاتِ مزدوری بہت سخت تھے بلکہ انہیں انتہائی قلیل معاوضے پر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا تھا۔ چاول کی فصل میں گھٹنوں تک پانی بھرا ہو اور شمالی اٹلی کی سخت سردی میں چاول چننا بے حد کٹھن تھا۔ انہی حالات نے ان کھیتوں میں ان محنت کش خواتین کے لبوں سے یہ نغمہ پھوٹا جو دیکھتے دیکھتے پورے ملک میں محنت کشوں اور کسانوں کا ترانہ بن گیا۔

ابتدا میں اس کے الفاظ وہ نہیں تھے، جو آج ہیں۔ اس کے بولوں میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ مثلاً ابتدا میں اس کے ابتدائی اشعار کے معنی کچھ یوں تھے کہ صبح میں جاگی، خدا حافظ اے حسین، صبح میں جاگی، اور مجھے چاولوں کے کھیت میں جا کر کام کرنا ہے۔ اس میں کیڑوں اور مچھروں سے جوچنے، اپنے مالکوں کی لاٹھیوں کو برداشت کرنے، اپنی کمر کے چاول چنتے چنتے دوہرے ہو جانے، اپنی جوانی کے اس محنت کے ہاتھوں ہی گزر جانے اور مشکل اوقاتِ مزدوری کا ذکر تھا۔ لیکن اس کا آخری شعر امید کی کرن دکھاتا ہے۔ ؎ لیکن ایک دن آئے گا جب ہم سب آزادی سے اپنے کھیتوں میں کام کر سکیں گے۔

دوسری جنگِ عظیم میں باغیوں کا ترانہ

دوسری جنگِ عظیم میں جس وقت ہٹلر جرمنی پر اور اٹلی پر مسولینی حکومت کر رہے تھے، تو بیلا چاؤ مسولینی کے خلاف سیاسی مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھرا۔ اس دوران جرمنی کی نازی افواج نے کچھ عرصے کے لئے اٹلی پر بھی قبضہ کیا اور اس کے خلاف مزاحمت میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران بیلا چاؤ کے بول اور معنی مکمل طور پر تبدیل ہو گئے۔

یہ نئے بول ہی تھے جنہوں نے اس گیت کو دنیا بھر میں قبولیتِ عام بخشی اور آج تک مزاحمتی تحریکوں میں بیلا چاؤ کو مختلف اندازوں میں گایا جاتا ہے اور انقلابی اس کی دھن اور پیغام پر جھوم جھوم جاتے ہیں۔

ایک صبح میں جو جاگا، میں نے اپنے ملک پر ایک غاصب کا قبضہ دیکھا۔ میرے ساتھیو، مجھے یہاں سے لے جانا کیونکہ مجھے اپنی موت قریب دکھائی دے رہی ہے۔ مجھے پہاڑ پر کہیں دفنا دینا، کسی خوبصورت پھول کی چھاؤں میں کہ جہاں سے جو بھی گزرے تو یہی کہے کہ وہ دیکھو کتنا حسین پھول ہے، یہی وہ پھول ہے، اے میرے پیارے، کہ جس نے آزادی کے لئے اپنی جان دے دی۔

موجودہ دور میں بیلا چاؤ کی اہمیت

آج دنیا بھر میں فسطائی حکومتوں کا دور دورہ ہے۔ بھارت میں مودی، برطانیہ میں بورس جانسن، امریکہ میں ٹرمپ اور ہمارے اپنے حکمرانوں میں بھی فسطائیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اور دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ ہی ایسے حکمران برسرِ اقتدار آتے رہے ہیں جنہوں نے مخالفین اور اختلاف کو کچلنے کی ہر طرح سے کوشش کی ہے۔ مگر ایسے حکمرانوں کے خلاف مزاحمتی تحریکیں بھی دنیا بھر میں چلتی رہی ہیں۔ کیونکہ انسان کبھی جبر کے سامنے مکمل طور پر جھکتا نہیں۔ آزادی اس کی سرشت میں شامل ہے۔

جب تک جبر جاری رہے گا، مزاحمت بھی جاری رہے گی۔ اور بیلا چاؤ اور اس جیسی دھنیں بھی تحریکیوں کے لبوں پر مسکراہٹ اور ان کی آنکھوں میں چمک لاتی رہیں گی۔