عمران خان کا 4 سالہ فسطائی دور، میڈیا کو کیسے بے دست و پا کیا گیا

عمران خان کا 4 سالہ فسطائی دور، میڈیا کو کیسے بے دست و پا کیا گیا
پاکستان اس وقت فریب اور نظر کو دھوکہ دینے والی سیاست کی ضد میں ہے۔ اقتدار کے سیاست، خاص طور پر تیسری دنیا کی سیاست، خالص نظریاتی اصول، اقدار اور قابل عمل سیاسی و معاشی پروگرام کی بنیاد پر کرنا اگر ناممکن نہیں تو خاصہ مشکل ترین کام ہے اور اس کی بہت سی وجوہات اور عوامل ہیں۔ خصوصاً اگر ہم اپنے ملک کے بات کریں تو یہاں بنیادی عنصر اسٹیبلشمنٹ کی نظر کرم اور اس کے بعد آپٹکس، نیشنلزم و مذہبی خوشنما نعرہ بازی کار آمد ہوتے ہیں۔

لیکن اکتوبر 2011 کے بعد عمران کی پی ٹی آئی نے اس عمل کو قابل رشک حد تک چار چاند لگا دیے۔ اس نے سنی سنائی باتوں کو بھی اپنا پالیسی بیان بنایا ۔ مثلاً اگست 2014 کے دھرنے کے دوران کسی نے ان کو ای میل بھیج دیا کہ آپ گاندھی کی طرح سول نافرمانی کیوں نہیں کرتے اور یار نے شام کو بجلی کے بل جلانا شروع کر دیے۔ ایسی بہت سی مثالیں اور بھی ہیں۔ ان کو ہر وہ بات پسند آتی ہے جس میں مبالغہ ہو، جذباتیت اور دشنام طرازی سے بھرپور ہو۔ ان کے دلائل صرف الزامات اور کردار کشی کے گرد گھومتے ہیں۔ اس لئے اس نے اسی قسم کے کرداروں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا ہے۔

یوتھ اور مڈل کلاس کا کچھ حصہ اکتوبر 2011 سے پہلے بھی ان کے ساتھ تھا لیکن نہ ان کا رویہ اتنا جارحانہ تھا نہ ان کی پارٹی کے پاس میڈیا، پراپیگنڈا اور موثر آپٹکس پیدا کرنے کی مہارت تھی اور نہ مادر پدر آزادی کہ فریب اور نظر کا دھوکہ تخلیق کر سکے اور اس کی وسیع یکطرفہ طور پر نشر و اشاعت کر سکے۔

بادی النظر میں یہ دونوں صلاحیتیں ان کو اکتوبر 2011 کے بعد مل گئیں یا عطا کر دی گئیں۔ لیکن اگست 2014 کے دھرنے کے ساتھ مین سٹریم میڈیا کے ذریعے یکطرفہ کل وقتی پراپیگنڈا کی یلغار شروع ہو گئی۔ ساتھ ساتھ نازیوں کی SS کور طرز پر ڈیجیٹل سوشل میڈیا کا ایک مربوط نظام وجود میں آیا جس کے لئے واحد اور موثر قابلیت گوئبلز کا پیروکار ہونا ضروری تھا۔

126 دنوں تک مین سٹریم میڈیا کے کیمرے دھرنے پر مرکوز تھے۔ باوجود اس کے پی ٹی آئی کے دھرنے کے شرکا شام سے آدھی رات تک ہوتے تھے لیکن میڈیا وہاں پر چوبیس گھنٹے موجود ہوتا تھا۔ اس میں سے کسی کیمرے کو پنڈال دکھانے یا شرکا کی درست تعداد بتانے کی اجازت نہیں تھی۔ جس بھی کیمرا پرسن یا رپورٹر نے ذرا سی سرخ لکیر عبور کرنے کے کوشش کی اس کو نشان عبرت بنایا جاتا۔ جو بھی سیاسی پارٹی و رہنما اُس یلغار کی مخالفت کرتا تھا ان کی سرعام پگڑیاں اچھلنا شروع کر دیا جاتا تھا، کردار کشی ہوتی تھی۔ ان کو کرپٹ، بکاؤ مال اور سٹیٹس کو کا حصہ جیسے القابات سے نوازا جاتا۔

ہر غیر جانبدار اور متبادل آواز کو دبانا شروع کیا گیا۔ حامد میر اور رضا رومی پر قاتلانہ حملے ہوئے، کئی سینیئر صحافیوں کو ٹی وی سے نکالا گیا۔

یکطرفہ میڈیا کوریج اور پراپیگنڈا 2018 کے الیکشن میں بھی جاری رہا۔ تحریک انصاف کے ہر جلسے کے سٹیج لگنے سے لے کر اختتام تک بھرپور لائیو کوریج ہوتی تھی۔ میڈیا پی ٹی آئی کی طرف سے سیاسی مخالفین پر لگائے ہر الزام اور دشنام کو بڑھا چڑھا کر نشر کرتا۔ ابلاغیات کا ہر اصول اور قاعدہ پامال کیا گیا۔

اگست 2018 میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد تو ہر حد پار ہونے لگی۔ پیمرا سٹالن کا پریس اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ بن گئی۔ اس کے ذریعے ہر ناپسندیدہ ٹی وی چینل، اینکر و صحافی کو دبانا، سنسرشپ اور سیاسی اپوزیشن کا میڈیا بلیک آؤٹ ایک معمول بن گیا۔

بادی النظر میں اگر دیکھا جائے تو 2014 سے آئی ایس پی آر نے اپنی منظم سائبر فورس پر کام شروع کیا تھا۔ اسی عرصے میں پی ٹی آئی کی بھی ایک منظم سائبر فورس سوشل میڈیا پر نمودار ہونا شروع ہو گئی جو شاید محض اتفاق نہ ہو۔

اپنی حکومت کی دوران بھی خبروں کے مطابق اس سائبر فورس کی نگرانی وزیراعظم خود کرتے تھے اور ریاستی وسائل اس پر خرچ کرتے تھے۔

یہ سائبر اور ڈیجیٹل فورس پی ٹی آئی زیادہ تر گرے اور بلیک پراپیگنڈا کے لئے استعمال کرتی ہے۔

اس کے ذریعے نظر کو دھوکہ دینے والے آپٹکس پیدا کرنا، فوٹو شاپ کرنا اور معمول کی خبر یا واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اس کو ٹرینڈ بنانا، پی ٹی آئی نے یہ مہارت حاصل کی ہے۔ انہوں نے سیکھا ہے کہ کیسے چند ہزار کے ہجوم کو جلسہ گاہ میں یوں پوزیشن کیا جائے کہ کمیرے میں وہ ایک جم غفیر نظر آئے۔ دوسرا اس کی سائبر فورس اس ہجوم کی مختلف زاویوں سے لی ہوئی تصاویر کو اس طرح فوٹوشاپ کرتی ہے کہ وہ کئی گُنا نظر آئے۔

اس طرح اگر پی ٹی آئی کی پونے چار سالہ حکومت پر نظر دوڑائی جائے تو عملاً اس نے کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام یا کوئی بڑا پرجیکٹ شروع نہیں کیا، لیکن اس کے سوشل میڈیا نے مسلسل ایسے آپٹکس اور ٹرینڈز بنائے جو ایک معمول کے کام یا واقعے کو تاریخی بنا کر پیش کرتے دکھائی دیتے۔ مثلاً عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر باہر کے ممالک سے مبارکباد کے پیغامات ملنا جو پچھلی حکومتوں کے لئے ایک معمول تھا، پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے اس کو ایسے پیش کیا جیسے یہ سب پہلی دفعہ ہو رہا ہو اور صرف عمران کے وجہ سے ہو رہا ہو۔

اسی طرح کسی باہر کے ملک سے قرضہ ملنا، خصوصاً آئی ایم ایف سے قرضے کی منظوری اور پہلی قسط ملنا پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے عمران خان کی عظیم تاریخی کامیابی کے طور پر پیش کیا تھا۔ حالانکہ پچھلی حکومتیں اس کو ضروری لیکن ناپسندیدہ عمل کے طور پر پیش کرتی تھیں۔ اور اس کے لئے مذاکرات وزارت خزانہ کے افسران کی سطح پر ہوتے تھے جو پی ٹی آئی کی دور میں وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کے لیول تک بات پہنچی۔

عمران خان اگر خواب میں بھی بڑبڑاتا یا خود کلامی کرتا تو اس کی میڈیا ٹیم اس کو دہاڑ اور للکار میں بدلتی۔ سب سے بڑی مثال 'Absolutely Not' کی ہے۔ عمران نے یہ ایک انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر امریکہ اڈے مانگے۔ اور عمران کو معلوم تھا کہ امریکہ اڈے نہیں مانگ رہا تھا اور اگر مطالبہ کرے گا بھی تو ان سے نہیں۔ لیکن ان کے میڈیا نے اس کو یوں پیش کیا جیسے امریکہ کے منہ پر نہ کہہ مارا ہو۔

دوسرا عمران خان نے اپنے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور ان کے خلاف سیاہ یا بلیک پراپیگنڈا کرنے کے لئے بے دریغ اور بلا روک ٹوک استعمال کیا۔

ستم ظریفی یہ تھی کہ مین سٹریم میڈیا بھی اتنا بے بس ہو چکا تھا کہ نہ ان سے وہ سوال پوچھ سکتا تھا نہ وہ دکھا سکتا تھا جو عمران خان کو ناپسند تھا۔

سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ ان کی سائبر فورس کا سب سے بڑا ہدف وہ صحافی تھے جو متبادل آواز اور میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے تھے۔ خواتین جرنلسٹس اس کردارکشی اور ہراسانی مہم کا خصوصی نشانہ تھیں۔ یہ سب کچھ اب بھی جاری ہے بلکہ اب تو کھلم کھلا پی ٹی آئی نے سینیئر صحافیوں حامد میر، سلیم صافی اور عصمہ شیرازی کے گھروں کے محاصرے کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔

یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عمران خان کسی کے کندھوں پر سوار ہو کر یہ سب کچھ کر رہا تھا۔ ان کے پیچھے غیر اعلانیہ مارشل لائی طاقت تھی جس کے بل بوتے پر وہ آئین، جمہوریت اور آزادی اظہار پر پہلے بھی اور اب بھی حملہ آور رہے۔

بظاہر جب ڈنڈے والی سرکار نیوٹرل ہو گئی اور عمران حکومت سے اپنی بیساکھیاں کھینچ لیں تو چند دنوں میں دھڑام سے آ گرا۔ لیکن یا تو ڈنڈے والی سرکار عجلت میں خود نیوٹرل ہو گئی اور ان کو دی ہوئی مہارت، اوزار اور اثاثے نیوٹرلائیز کیے بغیر ان کے پاس چھوڑ گئی، یا بڑے ڈنڈے والی سرکار کے اپنے ارد گرد لوگوں پر گرفت کمزور پڑی ہے۔ یا پھر خاکم بدہن وہ دس سالہ منصوبے کے سکرپٹ اور پلاٹ میں بس تھوڑی سی در و بدل کے ساتھ اب بھی اس پر قائم ہیں۔

بظاہر، تو یہ سوچ احمقانہ لگ رہی ہے کیونکہ بہت سارے احباب یہ دلیل منہ پہ ماریں گے کہ پوری ریاستی مشینری اور طاقت عمران کے پیچھے کھڑی تھی، ان کے ہر سیاسی مخالف کے منہ ہاتھ اور پیر باندھے گئے تھے پھر بھی اس نے تباہی کے سوا کچھ نہ کیا۔ اگر دو تہائی اکثریت لے آئے تو کون سا تیر مارے گا۔؟ لیکن صاحب، دودھ کا جلا ہوا ہوں۔ اس ملک میں سیاسی ڈرامے بازیوں کا سلسلہ کھبی ٹوٹا نہیں ہے۔ اس لئے سچ پر بھی یقین کرنے میں مشکلات ہیں۔

متحدہ اپوزیشن ، جو اب حکومت میں ہے، کو اپوزیشن موڈ میں ہی رہنا چاہیے، خصوصاً مریم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو ہر وقت چوکنا رہنا چاہیے۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔