’پاپ آئی کون نازیہ حسن کی سال گرہ پر تحریر‘
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرے گا کہ نازیہ حسن اور زوہیب حسن نے برصغیر میں پاپ میوزک کا آغاز کیا۔ بالخصوص نازیہ حسن کی گلوکاری نے تو انہیں پاپ آئی کون بنا دیا۔ آج کونسا ایسا گلوکار نہیں ہوگا، جو اس شعبے میں قدم رکھنے کے بعد نازیہ حسن جیسی کامیابی اور شہرت کا متمنی نہ ہو۔ زینت امان نے لندن میں نازیہ حسن کے گھر پر ان کی گلوکاری سنی اور صرف دو دن کے ہی اندر انہیں وہ گیت مل گیا جس نے ریکارڈ مقبولیت پائی۔ 1980میں ریلیز ہونے والی فلم ’قربانی‘ کے گانے ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘ نے نازیہ حسن کو فلم فیئر ایوارڈ کا حقدار بنایا۔وہ پہلی پاکستانی گلوکارہ تھیں جو اس اعزاز کو پاسکیں، جس کے بعد بھارتی اور پاکستانی فلموں میں پاپ گلوکاری کا وہ دور شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ جو البم آیا اس نے راتوں رات فروخت کے ایسے ریکارڈ بنائے، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
ایک عام رائے یا تاثر یہ ہے کہ نازیہ حسن صرف پاپ گلوکاری میں ہر گلوکار کے لیے سنگ میل ہیں لیکن کیا نازیہ صرف پاپ گلوکارہ ہی تھیں؟ اگر جو یہ تسلیم کرتے ہیں تو انہیں نازیہ حسن کے وہ گانے یقینی طور پر سننے چاہیے جو وہ مختلف البمز میں گا چکی ہیں۔ نازیہ حسن کے 1981میں آئی البم ’ڈسکو دیوانے‘ کا ایک گیت ’لیکن میرا دل، میرا دل رو رہا‘ کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے۔ جس میں نازیہ کی گلوکاری سن کر احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ گانا اُس گلوکارہ نے گایا ہے جو ڈسکو دیوانے یا بوم بوم گاچکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب انہوں نے یہ گانا لکھ کر والدہ منیزہ بصیر کو سنایا تو ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ والدہ کا کہنا تھا کہ بول بہت اچھے ہیں لیکن اس گانے نے انہیں غمگین اور اداس کردیا ہے۔ اسی لیے بہتر ہوگا کہ نازیہ حسن یہ گانا نہ گائیں۔ جس پر نازیہ نے والدہ کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا بھلا ایسی بھی کیا بات ہے، اتنا اچھا گیت ہے۔ بعد میں اس گیت کو پروڈیوسر شہزاد خلیل نے عکس بند کیا، جسے دیکھنے کے بعد منیزہ بصیر اور زیادہ رنجیدہ ہوگئیں۔
اس گانے کے بعد ’دھندلی رات کے دکھیا سائے‘ کو جیسے نازیہ حسن نے دل کی گہرائیوں سے گایا ہے۔ میر ا جی کی شاعری کے ساتھ نازیہ حسن نے اپنی گلوکاری کے ذریعے بھرپور انصاف کیا۔ درحقیقت اس گانے کو سن کر لگتا ہے، جیسے دکھی دل پر کسی نے بھاری ضرب ماری ہو۔ ایسا ہی پیار کا پیغام لاتا ایک اور گیت ’جب سے دیکھا میں نے تجھے‘ ہے۔ پھر ’سن میرے محبوب سن‘ کو کون ذہن سے نکال سکتا ہے۔ یہ سارے ایسے گیت ہیں جن میں دھیمی موسیقی ہے، وہیں نازیہ حسن کی گلوکاری میں غزل گائیکی کا انداز نمایاں رہا اور یہ کہا جائے کہ ان سب گیتوں کے بعد ’دل کی لگی‘ نازیہ حسن کا شاہکار ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ نازیہ حسن خود اس بات کا اعتراف کرتیں کہ انہیں ہلکی پھلکی اور دھیمے سُروں پر نغمہ سرائی زیادہ پسند تھی۔ ٹی وی پروگراموں میں انہیں جب بھی موقع دیا جاتا تو ان کی پوری کوشش ہوتی کہ پاپ گیتوں کے بجائے انہی رسیلے اور مدھر گیانوں کو پیش کریں، جو ان کے دل کے قریب بھی تھے۔
اس بات سے تو سبھی بخوبی واقف ہیں کہ ندیم صاحب گلوکاری کے بہت بڑے رسیا ہیں۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اگر وہ اداکاری میں اس قدر کامیاب نہ ہوتے تو ان کا انتخاب پھر گلوکاری ہی ہوتا۔ ندیم بیگ کی اسی نغمہ سرائی نے اُس وقت اور رنگ دکھائے جب انہوں نے 90کی دہائی میں پی ٹی وی کے اسٹیج شو میں کسی اور کے نہیں بلکہ نازیہ حسن کے ساتھ گلوکاری کے جوہر دکھائے۔ سلطانہ صدیقی نے ٹی وی شو کو پروڈیوز کیا تھا جبکہ ان کی معاونت عفیفہ صوفیہ الحسینی نے کی تھی۔میزبانی نازیہ حسن کے ذمے تھی۔ مہمانوں میں اسکوائش چمپئین جہانگیر خان، کرکٹر ہارون رشید، طاہرہ اور رضوان واسطی، انیتا اور امبر ایوب، خالد انعم، امجد حسین ،، مہتاب اکبر راشدی، بدر خلیل، بہروز سبزواری، یاسمین اسماعیل سمیت کئی چمکتے دمکتے ستارے شامل تھے۔
سُروں کی شہزادی نازیہ حسن نے مہمانوں میں بیٹھے ندیم صاحب کو اسٹیج پر بلایا اور اُن کے دل میں چھپی گلوکاری کی خواہش پر اظہار خیال کیا تو ندیم صاحب نے بھی مائیک تھام کر کہا کہ وہ اپنی پہلی سپر ہٹ فلم ’چکوری‘ کا یہ گیت کئی بار تن تنہا گا چکے ہیں۔ کیوں ناں ایسا ہو کہ اس بار احمد رشدی کے اس گانے میں ان کا ساتھ نازیہ حسن بھی دیں۔ جس پر نازیہ حسن بھی انکار نہ کرسکیں۔ جنہوں نے وہ گیت ’کبھی تو تم کو یاد آئیں گے‘ گایا، جو ندیم صاحب کا من پسند تصور کیا جاتا ہے۔ اس گیت میں جہاں ندیم صاحب کی گلوکاری کا معیار عروج پر رہا۔ وہیں مہمانوں نے نازیہ حسن کی آواز میں مدھر اور رس گھولتا لطف اٹھایا۔مہمانوں کو اُس وقت اور زیادہ خوشگوار حیرت ہوئی جب ندیم صاحب اور نازیہ حسن نے حسن اکبر کمال کا لکھا ہوا اور موسیقار ارشد محمود کا ترتیب دیا ہوا گانا ’مل جل کر خوشیاں بانٹیں‘ گنگنایا۔ ندیم اور نازیہ کی اس گلوکاری کو خاصا سراہا گیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=-5-r9O4jGr4