گلگت بلتستان؛ صحافی اور عام شہری سست رفتار انٹرنیٹ سےشدید نالاں ہیں

انٹرنیٹ کی سستی کا سب سے زیادہ نقصان صحافیوں کو ہوتا ہے کیونکہ ان کی خبریں رک جاتی ہیں۔ خبر اگر تاخیر کا شکار ہو جائے تو ایسے ہی ہے جیسے مچھلی شکار کے بعد پڑے پڑے سڑ جائے۔ ایسے میں کسی صحافی کی خبر رک جاتی ہے تو وہ ذہنی اذیت کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ انٹرنیٹ ایک بنیادی ضرورت بن گیا ہے اس کے باوجود انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہے۔

گلگت بلتستان؛ صحافی اور عام شہری سست رفتار انٹرنیٹ سےشدید نالاں ہیں

سیما کرن گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ پانچ سال سے میڈیا کے ساتھ وابستہ ہیں اور ہنزہ نیوز کے پلیٹ فارم سے اپنی صحافتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کی صورت حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ صرف میڈیا پرسن کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک شہری کی حیثیت سے بھی انٹرنیٹ کی کمی کا احساس بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اب ہمارے تمام معاملات انٹرنیٹ پر منتقل ہو گئے ہیں اور انٹرنیٹ ایک بنیادی ضرورت بنا ہوا ہے۔ میں نے آج نیوز کے لئے ہنزہ سے ایک رپورٹ تیار کر دی تھی لیکن جب ڈیٹا بھیجنے کی باری آئی تو میرا سکرپٹ کئی گھنٹے پہلے نیوز ڈیسک پہنچ گیا لیکن فوٹیج انٹرنیٹ کی سست رفتار کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے جس کی وجہ سے میری محنت ضائع ہو گئی اور مجھے ذہنی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ موجودہ دور میں غلط معلومات سوشل میڈیا پر بھری پڑی ہیں ایسے میں مواد کی تحقیق کرنے کے لئے بھی اچھی رفتار کے انٹرنیٹ کی ضرورت ہے اور انٹرنیٹ کی رفتار کی وجہ سے ہمیں خود بھی افواہوں کا شکار ہونے کا خدشہ اور خطرہ موجود رہتا ہے۔

گلگت بلتستان میں انٹرنیٹ کی کمی کی شکایت صرف سیما کرن ہی کو نہیں ہے بلکہ گلگت بلتستان میں کام کرنے والے تمام صحافیوں کو اور ان افراد کو ہے جن کا واسطہ روزمرہ کے امور میں انٹرنیٹ کے ساتھ پڑتا ہے۔

کرن قاسم گذشتہ 10 سال سے صحافتی شعبے میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے پہلے پرنٹ میڈیا پھر الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ کام کیا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا میں اپنے کام کے تجربے سے متعلق وہ کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ کی سستی کا سب سے زیادہ نقصان صحافیوں کو ہوتا ہے کیونکہ ان کی خبریں رک جاتی ہیں۔ خبر اگر تاخیر کا شکار ہو جائے تو ایسے ہی ہے جیسے مچھلی شکار کے بعد پڑے پڑے سڑ جائے۔ ایسے میں کسی صحافی کی خبر رک جاتی ہے تو وہ ذہنی اذیت کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ انٹرنیٹ ایک بنیادی ضرورت بن گیا ہے اس کے باوجود انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہے۔ معمولی سے کام کے لئے بھی وائی فائی کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔

گلگت بلتستان میں مواصلات اور ابلاغ کے اس شعبے کا آغاز 1976 میں ہوا جب سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن نامی کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں سہولیات فراہم کرنا تھا۔ تب سے لیکر اب تک تمام سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری ایس سی او پر عائد رہی ہے جس کے آپٹیکل فائبر کی لمبائی 4800 کلومیٹر ہے اور اس وقت گلگت بلتستان کے تمام 10 اضلاع میں فور جی سمیت ڈی ایس ایل کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔

عدنان راوٹ ڈیجیٹل ٹی وی کے عنوان سے سوشل میڈیا پر اپنی صحافتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں صرف ایس سی او کی سروس چل رہی ہیں باقی نیٹ ورکس یہاں پر کام نہیں کرتے۔ شہر سے باہر کسی بھی کام سے نکل جائیں تو وہاں پر صرف اور صرف ایس سی او (سپیشل کمیونکیشن آرگنائزیشن) کی سروس دستیاب ہوتی ہے اور اگر کسی کے پاس ایس کام کی سم نہیں ہے تو اسے واپس شہر آنے تک کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

انٹرنیٹ کی رفتار اور سہولیات پر صرف میڈیا کے نمائندگان ہی دل گرفتہ نہیں ہیں بلکہ ہرشعبہ ہائے زندگی کو اس نے متاثر کیا ہوا ہے۔ نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی گلگت بلتستان سے ممبر سوسن عزیز کہتی ہیں کہ اگر اداروں کے اندر فنڈنگ اچھی ہے تو وہاں پر انٹرنیٹ دستیاب ہو سکتا ہے لیکن اب تک انٹرنیٹ عام نہیں ہو سکا ہے۔ آئی ٹی پارکس بنائے ہوئے ہیں لیکن وہاں پر بھی جامع انٹرنیٹ نہیں ہے کہ ہر فرد وہاں سے سہولت حاصل کرے۔ کبھی ہمیں بین الاقوامی سطح پر کسی میٹنگ میں آن لائن شرکت کرنی ہو تو خطرہ ہوتا ہے کہ ہمارا انٹرنیٹ تو ہے نہیں اور جب میٹنگ شروع ہوتی ہے تو ہماری بات اکثر کٹ جاتی ہے اور اہم گفتگو انٹرنیٹ کی رفتار کی نذر ہو جاتی ہے۔ جن علاقوں میں انٹرنیٹ دستیاب ہے وہاں پر پھر انٹرنیٹ مہنگا ہے جو اس غریب نوجوان کے لئے بہت مشکل ہے جو اپنے گھر سے بیٹھ کر آن لائن اپنی آمدن بڑھانے کے لئے کام کرتے ہیں۔

وطین ڈیجیٹل سے منسلک صحافی مہتاب الرحمن کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں ایس سی او کی جانب سے انٹرنیٹ فراہم تو کیا جا رہا ہے لیکن دیگر کمپنیاں یہاں سروس کی فراہمی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ موجودہ دور میں انٹرنیٹ کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ تھری جی اور فور جی کی نیلامی ہونے کے باوجود گلگت بلتستان میں اب تک اس پر کام نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کا سارا کام انٹرنیٹ پر منحصر ہے۔ یہی صورت حال دیگر تمام شعبہ جات میں بھی ہے جس کے ذریعے لوگ اپنی آمدن بڑھا سکتے ہیں۔

سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خود سوال کھڑا کر دیا کہ ہم بھی سنتے آ رہے تھے کہ یہاں ایس سی او دوسری کمپنیوں کو کام کرنے نہیں دیتی۔ انہوں نے عدالت سے حکم امتناع لیا ہے اور فور جی کا لائسنس جاری کرنے میں یہی لوگ رکاوٹ ہیں لیکن جب ہم فور جی کے لائسنس کی نیلامی کی طرف بڑھے تو ہمیں ایس سی او نے پورا سپورٹ کیا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لائسنس چینی کمپنی جیت چکی ہے لیکن اپنی خدمات کا آغاز نہیں کر رہی۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری کمیل عباس نے بتایا کہ گلگت، غذر، ہنزہ، دیامر اور بلتستان میں ہم نے انٹرنیٹ کی سہولیات کو بہتر کرنے اور عوام کے لئے قابل رسائی بنانے کے لئے انکیوبیشن سنٹرز قائم کر دیے ہیں۔ ہمارے محکمے کے زیر اہتمام مختلف اقسام کی ٹریننگز ہوتی ہیں۔ ہم کوشش میں ہیں کہ صحافیوں کو بھی خصوصی کورسز کروائے جائیں۔ انٹرنیٹ کی فراہمی کا اختیار ہمارے محکمہ کے پاس نہیں ہے۔ ہم جدید دور کے مطابق ضروریات کی فراہمی اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کو ہنرمند بنانے پر کام کرتے ہیں۔ اب تک ہزاروں افراد ہمارے پروگرام سے مستفید ہو چکے ہیں۔

فہیم اختر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ صحافت کے شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔