دانشوروں نے رقص کو اعضا کی شاعری قرار دیا ہے۔ سوچیں کتنے بڑے لوگوں نے کتنی بڑی بات کر دی ہے۔ ایک شاعر اپنی سوچ کو قرطاس پر منتقل کرتا ہے تو وہ نظم یا غزل بن جاتی ہے۔ ن م راشد کیا خوب کہہ گئے ہیں؛
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشان پا لے میرا
اور جرمِ عیش کرتا دیکھ لے۔۔
اب اس شاعری پر کوئی رقاصہ رقصاں ہوں تو زبان سے تو خاموش ہو گی مگر اس کا بدن اعضا کی شاعری کے ذریعے یہ نظم تماشائیوں کو سنا رہا ہو گا۔ یہی رقص ہے اور یہی زندگی ہے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں فنون لطیفہ کی کسی بھی صنف کو اہمیت نہیں دی گئی۔ بنام مذہب رقص کو دبایا گیا بلکہ فنون لطیفہ کی تمام اصناف کو ہی پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ شاعری، فکشن، ڈرامہ، فلم، رقص، موسیقی؛ سب کو ہی ارباب اختیار نے نظرانداز کیا۔ یہ حکمران طبقے ایسے بد ذات تھے کہ فنون لطیفہ کو حرام اور کرپشن کو حلال سمجھتے ہوئے 75 سال گزار چکے۔ آج ہماری سنیما سکرین ویران ہے۔ ٹی وی سکرین اگر آباد ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ 24 گھنٹے ان کو اپنے تھوبڑے دکھانے ہوتے ہیں ورنہ یہ ٹی وی بھی بند کر دیتے لہٰذا یہ ان کی مجبوری ہے۔
پاکستان میں مہاراج غلام حسین کتھک، ناہید صدیقی، نگہت چوہدری، پنا بیگم اور ڈاکٹر فقیر حسین ساگا جیسے مہا سمراٹ پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر فقیر حسین ساگا نے ایک بار کہا تھا، بھارت میں اس لڑکی کا رشتہ نہیں ہوتا جس کو گانا اور ناچنا نہ آتا ہو اور پاکستان میں اس لڑکی کا رشتہ نہیں ہوتا جس کو گانے یا ناچ سے تھوڑی سی بھی دلچسپی ہو۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ایک کہاوت ہے، جو قومیں رقص نہیں کر سکتیں وہ جنگ بھی نہیں کر سکتیں۔ یہ بھی عجیب معاشرہ ہے جہاں بدمعاش کو ہیرو اور رقاصہ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ سرحد پار کرتے ہی لوگوں کی سوچ کیسے بدل جاتی ہے۔ بھارت میں رقص پوجا بن جاتا ہے، کتھک اور بھارت ناٹیم کر کے عبادت کی جاتی ہے اور یہاں رقاصہ یا رقاص کو بنام مذہب گولی مار دی جاتی ہے۔
ایک لکیر نے اور ایک سرحد کی تقسیم نے انسانی سوچ کو کیسے بدل دیا۔ 1947 سے پہلے یہ خطہ جو متحدہ ہندوستان کا حصہ تھا اب اسلامی جمہوریہ پاکستان بن کر موسیقی اور رقص چھوڑ کر خون آشام کیسے بن گیا۔ یہ صرف نام کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ انسانی سوچ کی تبدیلی تھی۔ باقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وادی سندھ کے باسیوں کی سوچ کو بدلا گیا۔ ورنہ تو وادی سندھ آج بھی موہنجوداڑو سے نکلنے والی ناچتی لڑکی کی مورتی کو اپنی تہذیب و تمدن سمجھتی ہے اور اسے اپنی ثقافت کا فخر گردانتی ہے۔
ان دگرگوں حالات میں جب فیس بک پر ایک ناچتے نوجوان ولید کامران کو دیکھتا ہوں تو خوشی بھی ہوتی ہے اور خوف بھی آتا ہے کہ یہ نوجوان نفرت اور تشدد کے خون آشام دور میں رقصاں ہے، گا رہا ہے، مسرت اور محبت کی بات کر رہا ہے اور خوف اس لیے آتا ہے کہ کہیں کوئی جنونی اٹھ کر اس کو بنام مذہب قتل ہی نہ کر دے، کیونکہ جنونی افراد عقل سے پیدل ہوتے ہیں اور یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ایک عالمگیر مذہب کسی رقاص کے ٹھمکے سے ختم نہیں ہو جاتا۔ اسلام ہمارا مذہب ہے اور رقص و موسیقی ہماری ثقافت ہے۔ یہ دونوں الگ الگ معاملات ہیں، ان کو الگ ہی رکھنا چاہیے۔
کامران ولید کہتا ہے کہ میرے اندر مادھوری ڈکشٹ کی روح آ چکی ہے۔ ٹھیک ہی کہتا ہو گا۔ روحوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب تم ناچ رہے ہوتے ہو تو تمہارا وجدان مادھوری کے ساتھ ہی ہوتا ہو گا۔ میاں یونہی رقصاں رہو، خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔