کیا پاکستان دنیا کے دیگر مسلم اکثریتی ملکوں سے مختلف ہے؟ کچھ معاملات میں یقیناً مختلف ہے لیکن بعض میں دوسروں جیسا ہی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں مذہبی تشدد دیگر اسلامی ملکوں سے زیادہ ہے، تاہم کئی معاملات میں پاکستان دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ حیرت انگیز مماثلت رکھتا ہے۔
ترکی سے تعلق رکھنے والے مصنف احمد کورو آمرانہ طرز حکومت، پسماندگی اور مسلم ملکوں میں جاری تنازعات کے وسیع تناظر میں رکھ کر پاکستان کی پوزیشن سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ احمد کورو سان ڈیاگو سٹیٹ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور سنٹر فار اسلامک اینڈ اریبک سٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ ذیل میں جو نکات بیان کیے جا رہے ہیں ان کا بیش تر حصہ احمد کورو کی ایوارڈ یافتہ کتاب 'اسلام، آمریت، اور پسماندگی - ایک عالمی اور تاریخی موازنہ' سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نکات ایسے بھی ہیں جو ایک ہفتہ قبل اسلام آباد میں سامعین کی موجودگی میں زوم میٹنگ کے ذریعے میری احمد کورو سے ہونے والے گفتگو میں سامنے آئے تھے۔
احمد کورو کا کہنا ہے کہ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں تشدد کی شرح باقی ملکوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ اس سے متعلق اعداد و شمار دلچسپ کہانی سناتے ہیں؛ دنیا بھر میں ہونے والی حالیہ جنگوں کے مرکزی کرداروں میں سے دو تہائی یعنی 12 میں سے 8 اور نسبتاً چھوٹے تنازعات میں 5 فریقین میں سے 2 یعنی 60 میں سے 24 فریقین مسلم اکثریتی ریاستیں یا مسلم گروہ تھے۔ تنازعات میں ملوث ہونے کی یہ شرح غیر متناسب ہے کیونکہ مسلمان دنیا بھر کی آبادی کا محض ایک چوتھائی جبکہ تمام مسلم اکثریتی ممالک دنیا کے ممالک کا چوتھا حصہ بنتے ہیں۔
پاکستان کا معاملہ دیکھیں تو اس تحقیق کو تقویت ملتی ہے۔ پاکستان کی قومی زندگی کا ایک مستقل اور نہ بدلنے والا جزو مسلمانوں کا مسلمانوں پر تشدد ہے۔ پچھلے ہفتے، 12 ربیع الاول کے دن، مستونگ اور ہنگو میں 60 سے زائد مسلمان دوسرے مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے خودکش بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔ نبی کریم حضرت محمدﷺ کے یہ پرجوش پیروکار صدیوں پرانی روایت کے تحت ان کی ولادت کا جشن منا رہے تھے۔ لیکن جشن منانے والوں کے قاتل، جو ان سے کم پرہیز گار نہیں تھے، ان کا تعلق ایک ایسے مذہبی فرقے سے تھا جو خوشی کے اظہار کے اس طریقے کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے۔
اگرچہ چند عجیب و غریب واقعات بعض اوقات میڈیا میں آ جاتے ہیں لیکن بہت سارے دیگر خوفناک واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔ غیر مسلموں کا حال مسلمانوں سے بھی کئی درجے برا ہے۔ اگست 2023 میں تحریک لبیک پاکستان کی سربراہی میں ہجوم نے جڑانوالا کے علاقے میں 21 گرجا گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ مندروں اور احمدی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے واقعات بلا روک ٹوک باقاعدگی سے پیش آتے رہتے ہیں۔
مصنف احمد کورو کے دیگر اعداد و شمار 48 مسلم اکثریتی ممالک کی صورت حال بیان کرتے ہیں۔ پاکستان کی پوزیشن کا اندازہ اعداد و شمار سے ہو جاتا ہے۔ اوسطاً، مسلم ممالک میں فی کس جی این پی، خواندگی کی شرح اور سکول کی تعلیم کے سال کم ہیں۔ فعال جمہوریت کی مثالیں تھوڑی ہیں، آمرانہ قیادت عام ہے، کرپشن کی شرح بلند ہے جبکہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح کم ہے۔ آخری اعشاریے کا مطلب ہے کہ مسلم ممالک میں حکومتیں اپنی آمدنی کا بڑا حصہ کرایے یعنی تیل اور جغرافیائی محل وقوع جیسے قدرتی طور پر عطا کردہ وسائل کا استعمال کر کے حاصل ہونے والی آمدنی سے حاصل کرتی ہیں۔ محدود پیمانے پر صنعتوں کے قیام کا نتیجہ ویلیو ایڈڈ پیداوار کی کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ کوئی بھی مسلم ملک اس وقت اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی تیار نہیں کر رہا۔
ان منفی رجحانات کی وضاحت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کا سبب اسلام ہے، کورو اس تجویز کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ شواہد اس تجویز کی تائید نہیں کرتے۔ درحقیقت، تشدد ایک عام انسانی مسئلہ ہے اور پچھلی دو صدیوں سے مغربی طاقتوں نے، نہ کہ مسلم ممالک نے، دنیا پر اپنا فوجی تسلط قائم کر رکھا ہے۔ جہاں تک پسماندگی کا تعلق ہے، اسلام کے سنہری دور کے دوران مسلمانوں میں پسماندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ 9 ویں سے 13 ویں صدی کے دوران لگ بھگ 400 سالوں تک بغداد سے لے کر سپین تک مسلم تہذیب قائم رہی، روشن خیالی اور علم و ادب سے وابستگی اس کی بنیادی خصوصیات تھیں۔
مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر زمانوں سے بحث ہوتی آ رہی ہے۔ منگول حملے اور 18 ویں صدی کے یورپی استعمار کی آمد اس زوال کی مقبول وضاحتیں ہیں۔ کورو جہاں ان اسباب کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے، وہیں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ کوئی اور ہے۔
اسلامی سنہری دور کا زیادہ تر انحصار آزاد دانش وروں اور عرب تاجروں پر تھا جو تجارت کی غرض سے دنیا بھر میں گھومتے تھے اور اپنے ساتھ نئے خیالات لے کر واپس آتے تھے۔ اس زمانے کے وسیع النظر خلفا ایسے افراد کو اپنے درباروں میں خوش آمدید کہتے تھے۔ شاہی دربار مسلمان، عیسائی اور یہودی علما سے بھرا ہوتا تھا۔
لیکن 11 ویں صدی کے آس پاس، حکمرانوں اور غاصبوں نے اپنی حکمرانی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے علما کو استعمال کرنا شروع کیا۔ یوں علما اور ریاست کا اتحاد قائم ہوا جس نے علمائے کرام کو بڑے پیمانے پر بااختیار بنا دیا۔ خلیفہ کے اردگرد علما کی تعداد بڑھ گئی لیکن تاجروں اور آزاد دانش وروں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ 12 ویں صدی تک علما ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکے تھے۔
مسلم معاشرے پر اس گٹھ جوڑ کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ صرف ایک مثال کے طور پر ترکی میں بااثر علما نے 1436 عیسوی میں گٹن برگ کی ایجاد کردہ پرنٹنگ پریس کو شیطانی مشین قرار دیا۔ آخرکار اسے 1727 میں شریعت کے مطابق قرار دیا گیا، پورے 293 سال بعد! نتیجتاً 18 ویں صدی میں جہاں یورپ میں شرح خواندگی 31 فیصد کے لگ بھگ تھی، وہیں سلطنت عثمانیہ میں یہ شرح قابل رحم حد تک کم یعنی 1 فیصد تھی۔ علما کی مزاحمت مسلم دنیا میں بینکنگ شروع ہونے میں بھی تقریباً تین صدیوں کی تاخیر کی باعث بنی۔ کسی مسلم ملک میں امپیریل عثمانی بینک کے نام سے پہلا بینک 1856 میں بنا، جس کے بعد 1880 میں مصری عرب لینڈ بینک کے نام سے دوسرا بینک کھلا۔
کورو کا اصرار ہے کہ علما اور ریاست کا اتحاد قرآن و حدیث کا لازمی حصہ ہے اور نا ہی یہ اسلامی تاریخ کی مستقل خصوصیت ہے۔ یہ بات ٹھیک ہو سکتی ہے۔ انڈونیشیا کی سب سے بڑی مسلم سیاسی جماعت نہداتلعلما جس کے تقریباً 4 کروڑ رکن ہیں، کا منشور تکثیری اور جمہوری اقدار کو قائم کرنے کا عہد کرتا ہے اور 'بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روکنے' کی بات کرتا ہے۔
علما اور ریاست کا یہ اتحاد اپنی سب سے بڑی شکل میں پاکستان میں موجود ہے۔ 1980 کی دہائی سے، پاکستان کے جرنیل اور علما افغان اور کشمیر جہاد کے ذریعے علامتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئے۔ پاکستان میں قائم مدارس جہاد کے کارخانے بن گئے جنہوں نے سوویت یونین کو خطے سے نکالا اور بالآخر کابل میں طالبان کو براجمان کروایا۔ مگر اس اتحاد نے پاکستانی معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد میں ہونے والی بغاوت نے اسلام آباد کو جنگی علاقہ بنا دیا جس کے دوران سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ریاست کو جب اپنی ہی پرورش کردہ قوتوں کے مدمقابل آنا پڑا تو وہ کتنی کمزور ہو چکی تھی۔
ریاست کی یہ کمزوری آج بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ پولیس کی بھاری نفری والے شہر اسلام آباد میں ہر تین میں سے دو مساجد اور مدرسے قبضہ شدہ زمین پر بنائے گئے ہیں۔ شہری حکام اس انارکی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اور جلدی جلدی میں تعمیر شدہ ڈھانچے کو مسمار نہیں کروا سکتے۔
اسلام آباد کی تمام مساجد کے لیے نماز کا ایک ہی وقت مقرر کرنے کی حکومتی کوششیں بھی ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ مدارس کی اصلاح کا کام کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔ اس کے بجائے، اب جبکہ تعلیمی اداروں میں سنگل نیشنل کریکولم نافذ کیا جا رہا ہے، عام سکول بھی مدرسے بن گئے ہیں۔
ہر مہلک متعدی بیماری کی طرح مذہبی جنونیت بھی پھیلتی ہے اور یہ اس وقت پھیلتی ہے جب اقتدار میں رہنے والے اپنے سیاسی عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے جان بوجھ کر عقیدے کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاست دان ان علما اور ان کے نفرت سے بھرپور بیانیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
دوسروں کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کو اس حکمت عملی کا فائدہ بھی ہوا لیکن اس کی قیمت معاشرے کو چکانی پڑی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کی زیادہ سے زیادہ آبادی پہلے لٹکانے اور بعد میں وجہ پوچھنے پر تیار نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ اب ہمارے دوست بھی ہم سے خوفزدہ رہنے لگے ہیں۔
**
ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔