مذہبی جنونیت کے خلاف شکیل جعفری کی نظم جو شعرا کیلئے مشعل راہ بن گئی

یہ تقابلی جائزہ شکیل جعفری کو دوسرے شعرا سے ممتاز مقام پر فائزکرنے کیلئے نہیں بلکہ ملک میں مزاحمتی شاعری کے اس نئے رویے پر توجہ دلانے کیلئے ہے جس کی ابتدا شکیل جعفری نے کی اور بعد ازاں دوسرے شعرا نے بھی اسی زمین میں اپنے خیالات کو قلمبند کیا اور خوب کیا۔

مذہبی جنونیت کے خلاف شکیل جعفری کی نظم جو شعرا کیلئے مشعل راہ بن گئی

شکیل جعفری ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی یا روایتی مدح سرائی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ وہ بیک وقت اعلیٰ پائے کے شاعر، صحافی، ہوٹل مینجمنٹ کے ماہر اور ثقافتی سرگرمیوں کے روح رواں ہیں۔ لیکن میں صرف ان کی شاعری کے اس پہلو پر گفتگو کرنا ضروری سمجھوں گا جس نے اردو شاعری میں معاشرتی مسائل پر مزاحمتی شاعری کی ایسی روش کو جنم دیا ہے جس کی تقلید اب تک کئی دوسرے بڑے شعرا بھی کر چکے ہیں۔

شکیل جعفری سے میری شناسائی 80 کی دہائی سے ہے جب ملیر کے مضافاتی علاقے میں 'بزم علم و دانش' کے نام سے ایک ادبی تنظیم بے حد سرگرم تھی اور ہرماہ باقاعدگی سے ادبی نشستوں کا اہتمام کرتی تھی۔ شہرکے مشہور ادیب، شعراء اور دانشوروں کا وہاں آنا جانا رہتا تھا جس میں سید سبط حسن، پروفیسر کرار حسین، اسماعیل یوسف، عباس مہکری، زیب ازکار حسین، اسرار شاکی، رعوف نظامانی، اسلم اظہر، فہمیدہ ریاض، عشرت آفرین، خالد معین، خالد علیگ، فاطمہ حسن، توقیر چغتائی، نجمی بابا، حسن عابدی، راحت سعید، ملک اکبر، غلام محمد وامق اور کئی ایک دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ شکیل جعفری اور ان کے بھائی ندیم جعفری بھی وہاں اکثر آیا جایا کرتے تھے۔

ان دنوں شکیل جعفری کی شاعرانہ صلاحیتیں پروان چڑھ رہیں تھیں اور وہ مختلف موضوعات کو اپنی شاعری میں بڑی خوبصورتی سے رچا بسا رہے تھے۔ پھر 90 کی دہائی میں برپا ہونے والے لسانی فسادات نے جہاں لاتعداد انسانی المیوں کو جنم دیا وہیں شہر کی ادبی سرگرمیاں بھی ماند پڑتی چلی گئیں۔ خوف و دہشت نے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا اور بزم کی علمی سرگرمیاں متاثر ہونا شروع ہو گئیں۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ بزم کے روح رواں منصف رضا کا یکایک انتقال ہو گیا۔ بزم کی تمام تقریبات ان کے گھر پر ہی منعقد ہوا کرتی تھیں اور وہ نہایت دلجوئی اور لگن سے ان تقریبات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ لیکن جب وہ نہ رہے تو بزم کا سلسلہ قائم رکھنا سوالیہ نشان بن گیا۔ بزم اجڑ گئی اور یار بچھڑ گئے۔ عرصہ دراز تک شکیل جعفری سے رابطہ نہ رہا۔ پھر سننے میں آیا کہ وہ کراچی کے سابق میئر فہیم زمان کے ہمراہ کام کر رہے ہیں۔ ملاقات کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر تھا یہاں تک کہ بیسویں صدی اپنے اختتام کو جا پہنچی۔

یار زندہ صحبت باقی کے مصداق، اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے اختتام پر ان سے ملاقات کا سلسلہ دوبارہ بحال ہوا۔ اب وہ ایک انگریزی اخبار دی فنانشل ڈیلی کے مدیر بن چکے تھے اور میں بھی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ادبی سرگرمیوں میں شامل ہو چکا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے اخبار کیلئے لکھنے کی دعوت دی جو میں نے قبول کر لی اور جب تک وہ اس اخبار سے منسلک رہے میں ان کے اخبار کیلئے کچھ نہ کچھ لکھتا رہا۔ پھر وہ اخبار چھوڑ کر ایک مشہور ہوٹل کے ساتھ منسلک ہو گئے لیکن ہمارا رابطہ ایک دوسرے سے قائم رہا۔ وہ گاہے بگاہے واٹس ایپ پر اپنی کوئی اچھوتی سی نظم میری نظر کر دیا کرتے اور میں ان کے انداز بیاں میں ابھرتی ہوئی نئی روش کو ناصرف محسوس کرنے لگا بلکہ ان کے خیالات میں آفاقیت کا ایک نیا رنگ ڈھنگ مجھے قائل کرنے لگا کہ وہ اب ملک کے اعلیٰ پائے کے شاعروں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہ ایک نہایت خوش آئند بات تھی۔

ایک روز انہوں نے مجھے ایک ایسی نظم ارسال کی جو ملک میں مذہبی جنونیت کے نام پر ہونے والی قتل و غارت گری کی بھرپور عکاس تھی۔ میں چونکہ خود ملک میں دہشت گردی اور توہین مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا تحقیقی جائزہ لیتا رہتا ہوں جس کا بظاہر ادب سے کوئی تعلق نہیں اور میرے اعداد و شمار ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے اہل علم کیلئے کسی دلچسپی اور توجہ کا باعث بھی نہیں ہوتے۔ لیکن یہ دیکھ کر مجھے ناصرف حیرت بلکہ بے حد خوشی بھی ہوئی کہ شکیل نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھایا تھا جس پر بات کرنے سے بھی لوگ کتراتے تھے۔ لیکن ظاہر ہے وہ ایک شاعر ہے جو معاشرے کا ناصرف ایک اہم حصہ ہوتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں ہونے والے واقعات پر بھرپور نظر بھی رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ بات کہ وہ نہایت حساس ہوتے ہیں۔ اپنی اس جبلتی کمزوری کے باعث وہ ظلم و بربریت کے کسی بھی عمل پر خاموش نہیں رہ پاتے۔ باوجود اس کے کہ موضوع نہایت حساس تھا لیکن شکیل جعفری نے اسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔

نظم پڑھ کر اعتبار آیا کہ ہمارے شاعر ملک میں مذہب کے نام پر بڑھتی ہوئی لاقانونیت پر بالکل ہی خاموش اور لاتعلق نہیں ہیں۔ چند ایک ہی صحیح، لیکن ہیں تو صحیح۔ قارئین کی نگاہ سے یہ نظم گزری ہو گی لیکن میں اسے حوالے کے طور پر اس لیے شامل کر رہا ہوں کہ میں اپنے اس نقطہ نظر کی وضاحت کر سکوں جو میں ان کی شاعری اور اس کے پھیلتے ہوئے اثرات کا احاطہ کرتا ہے۔

جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے

ہمارا جبر یہ ہنس کر نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ انساں کو مذاہب سے پرکھنے کا مخالف ہے

یہ نفرت کے قبیلوں میں نہیں رہتا، یہ کافر ہے

جڑا ہے ارتقاء قدرت اور انساں کی مثلث سے

ہمارے دائرے میں یہ نہیں رہتا یہ کافر ہے

اسے سنگسار کر دو جذبہء ایماں نہیں اس میں

یہ کافر کو کبھی کافر نہیں کہتا یہ کافر ہے

ہے بہت بے شرم یہ ماں مزدوری کو نکلی 

یہ بچہ بھوک اک دن کی نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ بادل ایک رستے پر نہیں چلتے یہ باغی ہیں

یہ دریا اس طرف کو کیوں نہیں بہتا، یہ کافر ہے

ہیں مشرک یہ ہوائیں روز یہ قبلہ بدلتی ہیں

گھنا جنگل انہیں کچھ بھی نہیں کہتا، یہ کافر ہے

یہ تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہے

یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافر ہے

شریعاً تو کسی کا گنگنانا بھی نہیں جائز

یہ بھنورا کیوں بھلا پھر چُپ نہیں رہتا یہ کافر ہے

( شکیل جعفری)

شکیل نے یہ نظم 2010 میں مجھے ارسال کی تھی۔ اس وقت تک مملکت پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 46 افراد کو توہین مذہب کی بنیاد پر ماورائے عدالت موت کے گھاٹ اتارا جا چکا تھا جس میں مسلمان 18، عیسائی 21، احمدی 6 اور ایک ہندو نوجوان شامل تھے۔ گرفتار شدگان کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ یہ نظم اس معاشرتی جبر کی بھرپور تصویر کشی کرتی ہے جس نے شکیل جعفری کو اس موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور کیا جو پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک مسلسل معاشرے کو بے رحم صفاکیوں کے اندھیرے غار میں دھکیلتا جا رہا ہے۔

مذہبی تقدس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات کا طے کیا جانا بے حد ضروری ہے کہ مذہب کے نام پر لاقانونیت کا ارتکاب نہ ہو۔ یہ ایک نہایت پیچیدہ اور مشکل سوال ہے اور یہ سوال کوئی اٹھانا نہیں چاہتا۔ کیا کسی کو بھی کافر قرار دے کر مار ڈالا جائے؟ کیا لوگ ہر لمحہ اسی خوف و دہشت میں مبتلا رہیں کہ انہیں کب کوئی کافر قرار دے کر مار دے گا؟ شکیل جعفری نے اس لاقانونیت کی ایسی بھرپور عکاسی کی کہ بعدازاں کئی دوسرے شاعروں کیلئے بھی یہ نظم ظلم و جبر کے خلاف اپنی آواز اٹھانے کیلئے ایک مشعل راہ بن گئی۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اس نظم کے منظرعام پر آنے کے چند برس بعد پروفیسرسلمان حیدر کی ایک طویل نظم 'میں بھی کافر تو بھی کافر' آن لائن میگزین میں شائع ہوئی جسے بعد ازاں محمد بلال غوری نے جنگ اخبار کے 14 مئی 2015 کے شمارے میں اپنے ایک مضمون کے ساتھ شامل بھی کیا۔ یہ نظم مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے لیکن ان تک رسائی آسان نہیں۔ اس نظم میں سلمان حیدر نے مذہب کے نام پر ہونے والی انتہاپسندی کے بہت سارے پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت تک توہین مذہب کے نام پر ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں 73 افراد اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔ ان میں سب سے بڑی تعداد اسی مذہب کے ماننے والوں کی تھی جس کے نام پر انہیں قتل کیا گیا تھا۔ ان میں 29 افراد مسلمان تھے، 24 افراد عیسائی، 9 افراد احمدی، ایک ہندو، ایک اسماعیلی، اور ایک بدھسٹ شامل تھے۔

مسلمان مقتولین میں 3 ایسے افراد شامل تھے جو نہایت مذہبی تھے۔ 1994 میں جماعت اسلامی کے ممبر اور حافظ قران، ڈاکٹر سجاد فاروق کو گوجرانوالہ میں قران شریف کی بے حرمتی کے الزام میں سینکڑوں لوگوں نے جیل سے نکال کر نہایت بیدردی سے شدید زد و کوب کرنے کے بعد جلا کر مار ڈالا تھا۔ 2002 میں مولوی ثناء اللہ کو قصور شہر میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا جبکہ وہ عدالتی ضمانت پر تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور مذہبی سکالر محمد یوسف کو 11 جون 2012 کو لاہور جیل میں قتل کر دیا گیا تھا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ناصرف مسلمان مذہبی عالم اس سفاکی کا نشانہ بنے بلکہ تین ایسی معصوم بچیاں بھی اس ظلم کا نشانہ بنیں جنہوں نے مذہب کی توہین کا کوئی عمل بھی نہیں کیا تھا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ احمدی فرقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ 28 جولائی 2014 کے دن یہ اندوہناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب گوجرانوالا کے ایک علاقے کے ایک مسلم نوجوان اعجاز نے مقامی پیش امام کے بیٹے زکریہ کے ساتھ مل کر یہ الزام لگایا کہ علاقے کے ایک 18 برس کے احمدی نوجوان عاقب سلیم نے فیس بک پر توہین مذہب کی پوسٹ لگائی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہزار سے زائد لوگوں کا مجمع وہاں جمع ہو گیا جنہوں نے علاقے میں بسنے والے احمدیوں کے گھروں پر حملے کرنا اور آگ لگانا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ایک خاتون بشریٰ بی بی اور ان کی دو پوتیاں ہرہ 7 برس، اور کائنات 6 ماہ دم گھٹنے کی وجہ سے موت کی گود میں چلی گئیں۔

ان کے علاوہ ان بچیوں کی پھوپھی مبشرہ بی بی جو اس وقت حاملہ تھیں، اپنا حمل گنوا بیٹھیں[1]۔ ہو سکتا ہے کہ ماں کے بطن میں موجود بچے کیلئے یہ منظر اس قدر تکلیف دہ رہا ہو کہ اس نے اس دنیا میں جنم لینے کے بجائے اپنے خالق حقیقی کے پاس واپس لوٹ جانا بہتر سمجھا ہو اور ہو سکتا ہے کہ اس نے خداوند کریم سے جا کر یہ سوال بھی کیا ہو کہ جب میری ماں کافر، میری نانی کافر، میری ماموں زاد ننھی بہنیں بھی کافر تھیں تو مجھے اس کفر میں شامل کرنے کیلئے کیوں بھیجا تھا؟ تسلیم و رضا کا یہ پہلو جو سلمان حیدر نے اپنی نظم میں پیش کیا یہ واقعہ اس کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔

سلمان حیدر نے اپنی نظم میں جس بھرپور طریقے سے ان حالات کی سنگینی کو آشکار کیا اس کے مؤثر ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ لیکن جو بات غور طلب ہے وہ ہے نظم کا اظہاریہ جو شکیل جعفری کی نظم سے بے حد مماثلت رکھتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شکیل جعفری کی نظم ایک ایسے معاشرتی جبر کا اظہار کرتی ہے جو حکم نامے کا درجہ رکھتا ہے جبکہ سلمان حیدر اس جبر کو طنزیہ طور پر تسلیم کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ وہ حالات ہیں جو مذہبی لاقانونیت کے واقعات کا سلسلہ ہے جو مسلسل بڑھتا ہی جاتا ہے۔ شکیل کی نظم لاقانونیت کے اس رجحان کی عکاسی کرتی ہے جو ہر لمحہ کافروں کی نشاندہی میں مصروف ہے اور حکم نامے صادر کرتا رہتا ہے کہ کسے کب کافر قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ جبکہ سلمان حیدر کی نظم لاقانونیت کا شکار ہونے والے مظلومین کے ان احساسات کی عکاسی کرتی ہے جو خود کو اس لاقانونیت سے نبردآزما ہونے کے قابل نہیں سمجھتے اور سر تسلیم خم کرتے ہوئے خود کو کافر قرار دیے جانے پر راضی بہ رضا دکھائی دیتے ہیں۔

سلمان حیدر کی یہ نظم کس قدر مشہور ہوئی اس کا تو علم نہیں لیکن انہیں اپنے خیالات کی پاداش میں توہین مذہب کے الزام کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سلمان حیدر شاعر ہونے کے علاوہ بلاگر بھی تھے اور اپنے خیالات کا بے باک اظہار ایک آن لائن میگزین پر بھی کیا کرتے تھے۔ یکم فروری 2017 کو انہیں اور ان کے تین بلاگر ساتھیوں کو توہین مذہب کے چھ الزامات (295، 295اے، بی، سی، 298، 298اے اور بی)[2] کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر یہ الزام حافظ احتشام احمد نے لگایا تھا جن کا تعلق مشہور زمانہ لال مسجد کی شہداء فاونڈیشن سے ہے۔[3]

تقریباً ایک سال تک یہ کیس چلتا رہا اور 23 دسمبر 2017 کو کوئی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر عدالت نے سلمان حیدر اور دوسرے بلاگرز کو بری کر دیا۔[4] اس واقعے کے بعد یہ تمام لوگ اس ملک سے نقل مکانی کر گئے جبکہ ملک میں توہین مذہب کے نام پر ہونے والے واقعات میں کوئی کمی واقع نہ ہو سکی اور آج بھی الزامات بقول شکیل جعفری 'جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے' کا سلسلہ جاری ہے اور معتوبین خاموشی سے اپنے کافر ہونے پر اقرار کرنے پر مجبور کیے جا رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اس وقت ہزاروں افراد توہین مذہب کے الزام میں جیل کی کوٹھریوں میں بند ایک دوسرے کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ 'میں بھی کافر، تو بھی کافر'۔

شکیل جعفری کی جس نظم نے اس جبر کے خلاف پہلی آواز بلند کی تھی اس کی گونج اس واقعے کے بعد بھی جاری رہی۔ حال ہی میں آزاد کشمیر کے ایک صحافی و شاعر احمد فرہاد پورے ملک میں یکسر بڑے مقبول عام ہو گئے جب انہوں نے ملک میں لاپتہ افراد کے نہ تھمنے والے سلسلے پر اپنی ایک نظم لکھی جس کے بول تھے؛ 'یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے، اسے اُٹھا لو'۔ یہ نظم بھی شکیل جعفری کی نظم کی طرح ایک حکم نامے کا تاثر لیے ہوئے ہے اور اس کے اشعار شکیل جعفری کی نظم کے اشعارسے بے حد مماثلت رکھتے ہیں۔ 'اسے اٹھا لو' کی جگہ اگر 'یہ کافر ہے' لگا دیا جائے تو نہ اس کے مضمون میں اور نہ ہی اس کے ابلاغ میں کوئی فرق پڑتا ہے۔ یہی حال شکیل جعفری کی نظم کا ہے۔ 'یہ کافر ہے' کی جگہ 'اسے اٹھا لو' لکھ دیں تو نظم کا ابلاغ اور مفہوم قطعی متاثر نہیں ہوتا۔

یہ تقابلی جائزہ شکیل جعفری کو دوسرے شعرا سے ممتاز مقام پر فائزکرنے کیلئے نہیں بلکہ ملک میں مزاحمتی شاعری کے اس نئے رویے پر توجہ دلانے کیلئے ہے جس کی ابتدا شکیل جعفری نے کی اور بعد ازاں دوسرے شعرا نے بھی اسی زمین میں اپنے خیالات کو قلمبند کیا اور خوب کیا۔ یہ تمام شعرا قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے معاشرے میں موجود ناانصافیوں پر اپنی مزاحمتی آواز بلند کی، مشکلات کا سامنا بھی کیا لیکن اپنی بات پر قائم رہے۔


[1] http://tribune.com.pk/story/741943/three-including-two-minors-dead-in-gujranwala-clash/
[2] .https://www.dawn.com/news/1356154/atc-to-indict-four-for-blasphemy-on-12th
[3] https://www.dawn.com/news/1306981
[4] https://www.dawn.com/news/1378262