Get Alerts

علمی ترقی کے بعد انسانوں کو جوڑنے کے لئے مذہب لازمی نہیں رہا؛ ڈاکٹر ہودبھائی

علمی ترقی کے بعد انسانوں کو جوڑنے کے لئے مذہب لازمی نہیں رہا؛ ڈاکٹر ہودبھائی
ڈاکٹر پرویز ہودبھائی ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں مسلسل پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی آئیڈیالوجی اور مذہبی رویوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ بالکل یہی برتاؤ ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ بھی کیا گیا۔ ہم کسی انسان کی ایک بات سے اختلاف کرنے پر اس کی باقی ساری خدمات اور پوری شخصیت کو رد کر دیتے ہیں۔ کسی انسان کی بات سننے سے پہلے ہی اس کے بارے میں ایک تاثر قائم کر لیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی سے چند سال قبل ایک انٹرویو کے دوران سائنس اور مذہب کے موضوع پر کچھ سوال پوچھے گئے تھے۔ یہ انٹرویو یوٹیوب چینل Resonance پر موجود ہے۔ یہاں ان سوالات اور ڈاکٹر ہودبھائی کے جوابات کو ترتیب دے کر راقم نے انہیں اپنی فہم کے مطابق پیش کیا ہے۔

سوال: سائنسی فکر کی مخالفت میں اکثر مذہبی طبقہ ہی کیوں سامنے آتا ہے؟

جواب: کیونکہ مذہبی طبقات عدم تحفط کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سائنس ان کے مذہب کی بنیادیں اکھاڑ رہی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر سائنسی طریقہ کار مان لیا تو ہمارے عقائد ختم ہو جائیں گے۔ اس لئے وہ صف آرا ہو کر سائنس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔

سوال: کیا سائنس اور مذہب ایک ہو سکتے ہیں؟

جواب: اکثر سائنس دان کسی مذہبی عقیدے کے قائل نہیں ہیں۔ کچھ کے ہاں خدا کا تصور ملتا ہے لیکن وہ بھی کسی خاص مذہب کے قائل نہیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی کے لئے کسی مذہبی کتاب یا عقیدے کی ضرورت نہیں ہے۔ سائنس اپنی ترقی کی راہ خود پیدا کرتی ہے اور اپنے مسائل اپنے ہی طریقے سے حل کرتی ہے۔ مذہبی کتابیں جو صدیوں پرانی ہیں وہ آج کل کی سائنس میں کوئی مدد نہیں کرتیں۔

سوال: کیا سائنس سے خدا کے وجود کا انکار یا ثبوت ممکن ہے؟

جواب: ایسے سائنس دان نہ ہونے کے برابر ہیں جو کہتے ہیں کہ سائنس خدا کے وجود سے انکار کرتی ہے۔ یہ بہت غیر سائنسی بات ہے کہ ہم خدا کے وجود کو سائنس سے دیکھیں۔ فزکس میں بھی جن چیزوں کے وجود کو مانا گیا ہے جیسے کوارکس وغیرہ تو وہ ان کے مادی مظاہر یا تجربات میں دہرا کر مانا گیا ہے۔ لیکن جنات یا فرشتے یا ایسی چیزیں جن کی عدم موجودگی ہم ثابت نہیں کر سکتے، ان کا وجود سائنس ثابت نہیں کر سکتی کیونکہ ان پر سائنسی تجربات ممکن نہیں ہیں۔

سوال: سائنس کے ہوتے ہوئے مذہب کی کیا ضرورت ہے؟

جواب: تاریخی طور پہ مذہب سے انسانوں کا اتحاد بنا اور یہ اتحاد پھر سماج کے لئے بہت کارآمد ثابت ہوا۔ جانوروں میں مذہب نہیں ہوتا۔ ہزاروں سال پہلے مذہب کی وجہ سے انسانوں کی تہذیبی زندگی نے جنم لیا۔ اب انسان کا علم بہت آگے جا چکا ہے۔ اب لوگوں کو جوڑنے کے لئے مذہب لازمی نہیں ہے۔

سوال: خالص ریاضی جو کہ مجرد خیال پر مبنی ہے، اس کی طرح خدا کے تصور کی تجرید کیوں ممکن نہیں ہے؟

جواب: بالکل ریاضی میں کبھی خالص تجرید سے کام شروع ہوتا ہے اور کبھی کبھار کافی وقت کے بعد اس کی توجیہات اور استعمال سامنے آتا ہے جیسا کہ گراسمین نمبرز وغیرہ۔ ریاضی کے بغیر تو فی زمانہ کوئی ایجاد یا ٹیکنالوجی ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن کبھی یہ تصورات حقیقی دنیا کو سمجھنے میں کام آتے ہیں اور کبھی کام نہیں بھی آتے۔ ایسا ہی حال مذہب کا بھی ہے کہ کبھی اس کے ایجاد کردہ خیالات کام آتے ہیں اور کبھی نہیں آتے۔

سوال: کیا کوانٹم فیلڈ تھیوری نے مذہب کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے؟ کیونکہ اس تھیوری سے ہم ہر شے کو سمجھ سکتے ہیں۔

جواب: نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہے۔ اس سے بہت پہلے جو کلاسیکل فزکس تھی اس نے بھی مذہب کی قائم کردہ بہت سی باتوں کو غلط ثابت کر دیا تھا۔ جیسے فلکیات نے علم نجوم وغیرہ کو رد کر دیا تھا۔ ایسے ہی کوانٹم فیلڈ تھیوری ایک بہت ہی خوبصورت ایجاد ہے لیکن اس سے ہم مذہب کی نفی یا اثبات کا کام نہیں لے سکتے۔ یہ غیر ضروری بات ہے۔

سوال: اکثر مذاہب کی مقدس کتابوں میں بعض آیات ایسی ہیں جو سائنس سے مطابقت رکھتی ہیں، کیا وہ ان مذاہب کو سچا نہیں ثابت کر سکتیں؟

جواب: کیسے کر سکتی ہیں؟ مذہب کی سچائی کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ آپ کو ایسی باتیں یونانی فلسفہ میں بھی مل جائیں گی۔ جیسے ایک یونانی فلسفی نے کہا تھا کہ زندگی کا آغاز پانی سے ہوا ہے۔ اب یہی بات کچھ مذہبی کتابوں میں بھی شامل ہو گئی۔ اس کو سچ کہہ سکتے ہیں اور نا ہی غلط کیونکہ زندگی پانی سے بنی ہے یہ بات درست ہے لیکن صرف پانی سے ہی تو نہیں بنی، اس کا ایک اور پراسیس ہے جس میں بہت سے اجزا شامل ہیں۔ ایسے ہی کچھ باتیں ہزاروں سال پہلے ایمبریالوجی سے متعلق بھی ایسی مبہم ہوتی تھیں۔ اب اگر کوئی کتاب کہتی ہے کہ یہ سب خدا کرواتا ہے تو ٹھیک ہے، اسے مان لیا جائے گا لیکن اسے سچ یا غلط جانچنے کا کوئی جواز نہیں۔

سوال: کیا سائنسی علم انسان کو الحاد کی طرف لے جاتا ہے؟

جواب: اکثر لوگ سائنس سے الحاد کی طرف چلے جاتے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر سائنس پڑھنے والا ملحد ہو جائے گا۔ کیونکہ بہت سے سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا ہوتا ہے جیسے کہ ہمارا مقصد حیات کیا ہے یا ہماری اقدار کیا ہونی چاہئیں یا مرنے کے بعد کیا ہوگا وغیرہ۔ کچھ سوالوں میں تو جواب مل جاتا ہے لیکن اکثر لوگوں کو پہلے سے موجود جواب سے تسلی نہیں ملتی اور سائنس بھی ان سوالوں پر زیادہ کچھ نہیں کہہ پاتی۔ اس لئے نفسیاتی تقاضا پورا کرنے کے لئے ماورائی قوتوں کی ضرورت موجود رہے گی۔

سوال: سائنس دان اور پیغمبر میں کیا فرق ہوتا ہے؟

جواب: پیغمبر کے معنی ہیں پیشین گوئی کرنے والا یا خبر لانے والا۔ اس کا مطلب ہے کہ پیغمبر مسقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرتا ہے۔ جیسے آئن سٹائن کے نظریہ نسبیت نے بھی کچھ پیش گوئیاں کیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ آئن سٹائن نے یہ نہیں کہا کہ وہ نیوٹن کے نظریاتِ حرکت کو رد کر رہا ہے۔ بلکہ اس نے کہا کہ ایک حد تک نیوٹن کے قوانین کام کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ درست نتائج نہیں دیتے۔ اس لئے آئن سٹائن کے نظریات بھی اس حد کے اندر رہ کر نیوٹن ہی کے نظریات بن جاتے ہیں۔ لہٰذا آئن سٹائن نے نیوٹن ہی کے کام کو آگے بڑھایا ہے اور پھر بار بار کے تجربات میں اس کی پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئی ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ سائنس دان عقلی دلائل جیسے کہ ریاضی سے سمجھنا چاہتا ہے۔ مذہبی باتیں اپنی جگہ پر درست ہو سکتی ہیں لیکن ان کا ایسا کھلا ثبوت نہیں مل سکتا۔ اس لئے ان پر صرف اعتماد ہی کیا جا سکتا ہے۔

سوال: سائنس نے تخلیقی قوت سے دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے، تو کیا سائنس نے اب انسان کو قدرت کے مدمقابل لا کھڑا کیا ہے؟

جواب: سائنس نے انسان کو ہزاروں سال کے غلط فلسفوں سے آزاد کرایا ہے۔ انسان نے فطرت کی قوتوں کو ہی سمجھ کر ان سے نئی نئی ایجادات کی ہیں۔ کسی بھی ایجاد میں کوئی فطرت کا قانون نہیں توڑا گیا۔ مثلاً ہوائی جہاز جب زمین سے اوپر اڑتا ہے تو وہ گریویٹی کے قانون کو نہیں توڑتا بلکہ ایئروڈائنیمکس کی مدد سے گریویٹی کے خلاف قوت پیدا کرتا ہے جس سے دونوں کے بیچ توازن قائم کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی آواز اور ویڈیو کا ایک سے دوسری جگہ تک جانا بھی خلاف عقل نہیں بلکہ عقل کے اصولوں کے مطابق ہے۔ پچھلے دور میں جب لوگوں کو ان اصولوں کی سمجھ نہیں تھی تو ان کے لئے ہوائی جہاز اور دور دراز ویڈیو ملاقات وغیرہ خلاف عقل باتیں لگتی تھیں۔ یہ ایک مغالطہ ہے کہ نئی سائنس پرانی سائنس کو باطل کر دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ پرانی سائنس ناکافی ہو جاتی ہے لیکن غلط نہیں ہوتی۔ جیسا کہ نیوٹن کی سائنس آج بھی تمام کی تمام انجینئرنگ اور دیگر ٹیکنالوجی میں ویسے ہی استعمال ہوتی ہے جیسے کہ کوانٹم میکینکس سے پہلے ہوتی تھی۔

سوال: سائنس وقت کے ساتھ اپنے قوانین کو بہتر بناتی ہے لیکن مذہب میں ایسا کچھ کیوں ممکن نہیں ہے؟

جواب: میرا خیال ہے کہ مذہب میں بھی ایسی باتیں ہیں جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر جن مذاہب میں غلام رکھنے پر پابندی نہیں تھی وہ کیا آج غلام رکھنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا ایسا کرنے والوں کو جیل میں نہیں ڈالا جائے گا؟ آپ دیکھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی غلام موجود تھے لیکن وہ ایک عظیم انسان تھے اور فراخدل تھے تو انہوں نے کچھ غلاموں کو رہا بھی کر دیا۔ لیکن یہ اس زمانے کا دستور تھا۔ بعد میں اس میں تبدیلی آئی۔ ایسے ہی دیگر مذہبی قوانین بھی ابدی یا اٹل نہیں ہیں کہ ان کو تبدیل نہ کیا جا سکے۔

سوال: ایک ریاضی دان اور پیغمبر کی پیش گوئی میں کیا فرق ہے؟

جواب: ریاضی دان کوئی پیش گوئی نہیں کرتا۔ خالص ریاضی دان ایک مجرد جہان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا کام تھیورمز کا ثبوت تلاش کرنا ہوتا ہے۔ ریاضی میں نئی دریافتوں سے زیادہ نئے ثبوت مہیا کرنا زیادہ اہم ہوتا ہے۔ جیسے فرمیٹ کے آخری تھیورم کو ثابت کرنے میں بے بہا ریاضی دان گزر گئے لیکن آخرکار اس کو ثابت کر لیا گیا۔ اس لئے آپ ریاضی کی بجائے فزکس کے حوالے سے سوال کر لیں۔ اب پیغمبر تو حیات بعد الموت کی بات کرتے ہیں جبکہ فزکس اس مادی دنیا کی بات کرتی ہے۔ یہی فرق ہے کہ جن کو اس دنیا کے مسائل کا حل چاہئیے وہ فزکس کی بات کو اہمیت دیں گے جبکہ جن کو آخرت کی فکر زیادہ ہے وہ پیغمبر کی بات پر زیادہ توجہ دیں گے۔

سوال: مذہب کا ہماری زندگی میں کیا اثر ہے؟

جواب: مذہب کا اثر ہماری زندگی میں بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں تو جگہ جگہ اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔ ہر طرح کی قدغنیں ہیں۔ ہمارا سماج اس سے بھرا پڑا ہے۔ سائنس آپ کے سماجی کردار پر کوئی قید نہیں لگاتی۔ آپ جو چاہیں کھائیں، پئیں یا پہنیں، اس سے سائنس کو کوئی سروکار نہیں۔ سائنس آپ کو ان کاموں سے نہیں روکتی۔ رہن سہن اور اقدار آپ کو اس جگہ سے ہی ملتے ہیں جہاں آپ پیدا ہوئے یا رہتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنے آپ کو اپنے اردگرد کے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوال: کیا سائنس کو ایک مذہب کہا جا سکتا ہے؟

جواب: کچھ لوگ سائنس کو بھی مذہب کہتے ہیں مگر سائنس ہر وقت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ سائنس دان تو اس امید میں رہتے ہیں کہ کوئی نیا سائنسی تجربہ یا ثبوت آئے گا کہ ہم اگلے مرحلے کی طرف جا سکیں۔ جیسے کہ پارٹیکل فزکس میں ہزاروں سائنس دان سٹینڈرڈ ماڈل کو ناکافی ثابت کر کے مزید آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ سائنس کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ اگر کوئی نظریہ زیادہ دیر تک آگے نہ بڑھے تو اس سے مایوسی پھیلتی ہے۔ جیسا کہ عبدالسلام اور وائنبرگ اور گلاشو کا نظریہ کافی دیر سے قائم ہے تو اب اس سے مایوسی پھیل رہی ہے۔ سائنس اس بات سے خوش ہوتی ہے کہ ثابت ناکافی ہو اور پھر آگے بڑھنے کے رستے تلاش کئے جائیں۔

سوال: کیا ایک مذہبی انسان سائنس کر سکتا ہے؟

جواب: اس کا جواب تو سب کے سامنے ہے۔ چین میں کوئی مذہب نہیں ہے۔ امریکہ میں بھی مڈویسٹ میں ٹرمپ کے سپورٹرز کچھ مذہبی ہیں، باقی سب اتنے مذہبی نہیں ہیں۔ یورپ میں جہاں سب سے اچھی سائنس ہوتی ہے وہاں بھی اتنا زیادہ مذہب نہیں ہے۔ تو یہ سب سامنے کی باتیں ہیں ان کو دیکھ کر اندازہ ہو جانا چاہئیے۔

سوال: کوانٹم فزکس کے قوانین ہماری کلاسیکل دنیا کی وضاحت کر سکتے ہیں؟

جواب: منطق کا قاعدہ ہے کہ کُل اپنے اجزا کا مرکب ہوتا ہے۔ یعنی چھوٹی چیزوں کو جوڑنے سے بڑی چیزیں بنتی ہیں۔ لیکن بڑی چیزوں کی صفات چھوٹی چیزوں سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کلاسیکل فزکس میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ مثلاً ایک جہاز کے پرزے الگ الگ کر کے دیکھیں تو کیا یہ سوچا جا سکتا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے پرزے مل کر ہوا میں اڑ سکتے ہیں؟

سوال: کیا خدا ہے یا نہیں؟

جواب: یہ سائنس کا سوال نہیں ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ خدا ہے تو ان میں سے اکثر ایسے ہیں کہ انہیں بچپن سے ماننے کے لئے کہا گیا تھا اس لئے مانتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو خود اس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد نسبتاً بہت ہی کم ہے۔ شاید ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ جو جس مذہب میں پیدا ہوتا ہے اسی میں دم توڑتا ہے۔ مذہب تبدیل کرنے والے بھی نہایت کم ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ انسان جس مذہب میں پیدا ہوتے ہیں اسی کو صحیح اور سچا مانتے ہیں۔

محمد علی شہباز فزکس کے طالب علم ہیں اور امریکہ کی یونیورسٹی آف نیواڈا رینو سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔