Get Alerts

تحقیق اور سائنس سے دوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے؛ پرویز ہودبھائی

تمام مسلم ممالک میں تقریباً 600 کے قریب یونیورسٹیاں ہیں جبکہ صرف امریکہ میں 5758 یونیورسٹیاں ہیں۔ دوسری طرف ڈیلی ٹائمز کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 300 کے قریب مذہبی جماعتیں کام کر رہی ہیں جن میں سے 28 سیاسی مذہبی جماعتیں ہیں جبکہ 124 نے اپنا ٹارگٹ جہاد بنا رکھا ہے۔

تحقیق اور سائنس سے دوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے؛ پرویز ہودبھائی

گزشتہ ہفتے سندھی سٹوڈنٹ سوسائٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام سٹڈی سرکل کے گیسٹ سپیکر عصر حاضر کے سقراط یعنی ڈاکٹر پرویز ہودبھائی صاحب تشریف فرما ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب عصر حاضر کے قد آور اکابر سے چونچ لڑانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، علمی اور ادبی حوالے سے ان کا تعارف لکھنا سورج کے آگے دیا رکھنے کے مترادف ہے لیکن پھر بھی مختصراً بیان کرتا چلوں کہ ڈاکٹر صاحب دنیا کی بہترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ، حساب اور نیوکلیئر فزکس کے مضامین میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کی ابتدا کچھ اس طرح کی کہ کوئی بات شروع کرو، وہاں سے کوئی اور بات نکلے گی، تو میں نے سوال کر لیا کہ ہمارے معاشرے میں دن بدن بڑھتی انتہا پسندی کا کیا سبب ہے؟

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر ہم اس کا تاریخی پس منظر دیکھیں تو ہمیں مذہبی تشدد سے بھری ہوئی تاریخ ملتی ہے اور ریاست آج کی طرح ہمیشہ خاموش رہی۔ انتہا پسندی سے زیادہ جہالت دکھائی دیتی ہے اور شدت پسند کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی تعداد مٹھی بھر ہوتی ہے اور وہ پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتے ہیں۔ تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ انتہاپسند سوچ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے یا سبھی مسلم ملکوں کا؟

معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ دینے میں سب سے بڑا کردار دگرگوں معاشی صورت حال کا ہے۔ جس ملک کے 39 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، وہاں والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کروانے کے لئے کیسے بھیج سکتے ہیں؟ لہٰذا بچوں کو ابتدائی تعلیم کے لئے دینی مدارس میں داخل کروا دیا جاتا ہے اور بہت سے دینی مدارس ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب دینی مدارس پر چھاپے مارے جاتے ہیں تو وہاں سے اسلحہ برآمد ہوتا ہے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والا لٹریچر بھی ملتا ہے جو کہ انتہا پسندی کے فروغ میں بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔

انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے میں ایک اور انتہائی اہم کردار مذہبی اور مسلکی منافرت کا بھی ہے۔ دنیا کے ہر مذہب اور ہر قوم میں مسالک پائے جاتے ہیں مگر جو شدت پسندی ہمارے ہاں موجود ہے وہ دنیا کے کسی خطے میں موجود نہیں۔ ہمارے ہاں چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر قتل و غارت کا ایسا بازار گرم کر دیا جاتا ہے کہ جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔

انتہا پسندی کے عفریت نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پتہ نہیں چلتا کب کوئی کسی پہ بھی کسی وقت بھی کفر کا الزام لگائے اور لوگوں کا جم غفیر تحقیق سے قبل ہی ملزم کو مار ڈالے۔ اب تو نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ اگر کسی خاتون نے عربی رسم الخط والے کپڑے پہنے ہوں تو اسے بھی اسلامی شعائر کی توہین کا مرتکب قرار دے کر لوگ مارنے چل پڑتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ اچھرہ بازار واقعہ؛ 'معافی ہراساں کرنے والوں کو خاتون سے مانگنی چاہیے'

یونانی فلسفہ جب عرب سرزمین میں داخل ہوا تب مذہبی تشدد اپنی انتہا پر تھا۔ ہر اختلاف کو مذہبی آڑ میں دیکھا گیا اور اختلاف کو جبر و تشدد سے روکنے کا کام کیا گیا۔ مسلم فلاسفر کبھی بھی کسی بھی سیاسی نظام پر بات نہیں کر سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے اور یونانی سیاسی فکر کے اندر خلیفہ اور خلافت ڈھونڈتے نظر آئے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مسلم سائنس دانوں کے بارے میں ہودبھائی صاحب نے بتاتے ہوئے کہا کہ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے۔ ہاں وہ تھے لیکن مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ان سائنس دانوں کا جو حشر ہوا وہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

یعقوب الکندی کا کتب خانہ ضبط کیا گیا اور بعد میں انہیں سرعام کوڑے مارے گئے۔

ابن رشد کو بے دین قرار دے کر ان کی کتابیں نذر آتش کر دی گئیں۔ اس عظیم انسان پر نمازیوں نے تھوکا بھی تھا۔

ابنِ سینا کو بھی گمراہ اور مرتد قرار دیا گیا۔

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے مزید کہا کہ پاکستان کے قومی کلچر میں سائنس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ٹیلی وژن پر دن رات سیاسی شعبدے بازی تو ہوتی ہے لیکن سائنس کے بارے میں ایک بھی معیاری پروگرام ہمارے ہاں نہیں بنتا۔ تقریباً 30 سال قبل میں نے جو سائنسی پروگرام کیے تھے بس وہی ہیں۔

لاہور کے ایک سائنسی عجائب گھر کے علاوہ ملک میں اور کوئی عجائب گھر سائنس کے لئے مخصوص نہیں ہے۔

تمام مسلم ممالک میں تقریباً 600 کے قریب یونیورسٹیاں ہیں جبکہ صرف امریکہ میں 5758 یونیورسٹیاں ہیں۔ ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں امریکہ سے بھی زیادہ یعنی 8500 یونیورسٹیاں ہیں۔ دوسری طرف ڈیلی ٹائمز کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 300 کے قریب مذہبی جماعتیں کام کر رہی ہیں جن میں سے 28 سیاسی مذہبی جماعتیں ہیں جبکہ 124 نے اپنا ٹارگٹ جہاد بنا رکھا ہے۔

مسلم ممالک میں شرح خواندگی 25 سے 28 فیصد کے درمیان ہے اور بعض مسلم ملکوں میں تو محض 10 فیصد تک ہے جن کی تعداد 25 کے لگ بھگ ہے جبکہ ایک بھی مسلم ملک میں شرح خواندگی 100 فیصد نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق او آئی سی میں 76 مسلم ملک شامل ہیں اور ان میں بین الاقوامی سطح کی محض 5 یونیورسٹیاں ہیں۔ یعنی 30 لاکھ مسلمانوں کیلئے صرف ایک یونیورسٹی۔ جبکہ امریکہ میں 6 ہزار، جاپان میں 950، چین میں 900 اور بھارت میں 8500 نجی و سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ سائنس کو مسلم دنیا میں واپس لانے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟ (I)

ادھر پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ 44 لاکھ ہے اور مسلمانوں کی آبادی سوا دو ارب ہے۔ یعنی ایک یہودی تقریباً 140 مسلمانوں کے برابر ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک یہودی 140 مسلمانوں پر بھاری ہے۔ گذشتہ ایک صدی میں 71 یہودیوں کو تحقیق، سائنس اور ادب کے شعبے میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں نوبل انعام مل چکا ہے جبکہ مسلم دنیا میں صرف 7 افراد یہ انعام حاصل کر سکے ہیں۔ یہاں تک کہ کنگ فیصل انٹرنیشنل فاؤنڈیشن سعودی عرب جو ایک مسلم آرگنائزیشن ہے، ان کی جانب سے دیے جانے والے کنگ فیصل ایوارڈ کیلئے میڈیکل سائنس اور تحقیق و ادب کے شعبے میں کوئی ایک امیدوار بھی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔

کیا یہ بات نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک کے مسلمانوں کیلئے باعث شرم نہیں کہ ڈیڑھ کروڑ یہودی ہر میدان میں پیش پیش ہیں؟ 22 عرب ممالک بھی مل کر اسرائیل کی ایک اینٹ تک نہیں اکھاڑ سکے، نہ سائنس میں، نہ تحقیق و ریسرچ میں، نہ میڈیکل میں اور نہ ہی بے تیغ سپاہی کے طور پر۔ اس کے برعکس ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اختلاف و انتشار کا شکار ہیں۔

کیا مغرب کی جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے بغیر مسجد الحرام میں 30 لاکھ افراد کے لیے بیک وقت نماز پڑھنا ممکن تھا؟ حرم شریف میں بجلی کا جدید نظام، آسمان کو چھوتی عمارتیں، کیا یہ سب سائنس کی وجہ سے عالم وجود میں نہیں آیا؟ یہ سب مغربی تعلیم اور عیسائی یا یہودی سائنس دانوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔

درجنوں منزلوں پر لاکھوں نمازیوں کو چند لمحوں میں لے جانے والی جو لفٹس ہیں وہ مومنوں کی ایجاد نہیں۔ حرم میں بہترین قسم کا ساؤنڈ سسٹم ہے جس سے حرم شریف اور اس کے اطراف کی درجنوں عمارتوں میں واقع ہزاروں کمروں میں بھی امام کی آواز واضح سنائی دیتی ہے۔ یہ ساؤنڈ سسٹم بھی مسلمانوں کی ایجاد نہیں ہے۔

ہودبھائی صاحب نے بتایا کہ حال ہی میں حامد میر نے نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد میں ہونے والی سرگرمیوں پر ایک پروگرام نشر کیا تھا۔ کسی نے مجھے اس پروگرام کی ویڈیو بھیجی اور رائے طلب کی تو میں نے بذریعہ ای میل یہ جواب دیا کہ یہ ویڈیو دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں یہ مصرعہ یاد کیا کہ 'حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں'۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آغا وقار کی جانب سے 2011 میں کی گئی دھوکہ دہی کے بعد سے کچھ نہیں سیکھا گیا۔ تفریح کے لیے میں نے اپنا پرانا مضمون پڑھا اور محسوس کیا کہ میرے پاس مزید بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ پانی سے چلنے والی گاڑی کا فراڈ جسے میڈیا پھر زندہ کر رہا ہے

اظہر عنایتی صاحب نے کہا تھا؛

ہم اب تو صرف روایت میں اپنی زندہ ہیں

ہمارے معجزے سب مقبروں میں رکھے ہیں

**

نوٹ: سٹڈی سرکل کا انعقاد سندھی سٹوڈنٹ سوسائٹی اسلام آباد اور مہران چانڈیو صاحب کی کاوشوں سے ہوا۔