سائنس کو مسلم دنیا میں واپس لانے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟ (I)

موجودہ دور میں مسلم اور مغربی دنیا کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق کو زیادہ تر مسلمان غصیلے انداز میں مسترد کرتے ہیں۔ مسلمان ایسی کسی بھی بات پر خفا ہو جاتے ہیں جس میں یہ کہا جا رہا ہو کہ اسلام اور سائنس میں اختلاف ہو سکتا ہے یا کہ اسلام اور سائنس کے درمیان تنازعہ ان کی ترقی میں سستی کا باعث ہو سکتا ہے۔

سائنس کو مسلم دنیا میں واپس لانے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟ (I)

( ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون امریکی ادارہ برائے طبیعات کے معروف جریدے ’’Physics Today‘‘ میں 2007 میں شائع ہوا۔ اردو قارئین کے لئے اسے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ زیر نظر مضمون اس سلسلے کا پہلا حصہ ہے: مترجم محمد علی شہباز)

یہ مضمون میکس وان لاؤ (Max von Laue) لیکچر سے ماخوذ ہے جسے میں نے سال 2007 کے شروع میں اس نام ور طبیعیات دان کا دن منانے کے لیے دیا تھا جو مضبوط سماجی ضمیر کا حامل شخص تھا۔ ایڈولف ہٹلر کے عروج کے وقت، لاؤ ان چند جرمن طبیعیات دانوں میں سے ایک تھا جنہوں نے البرٹ آئن سٹائن اور نظریہ نسبیت (Theory of Relativity) کا دفاع کرنے کی ہمت کی تھی۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر سائنس اور تہذیب کی بابت ایک معاملہ توجہ کا مرکز بنایا جائے۔ ایک سوال میں شاید اتنا ہی اپنے آپ سے جتنا کسی اور سے کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک ارب سے زیادہ مسلمان اور ان کے وسیع مادی وسائل کے باوجود، مسلم دنیا سائنس اور نئے علم کی تخلیق کے عمل سے کیوں منقطع ہو چکی ہے؟ واضح طور پر، میں یہ سوال اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC) کے 57 ممالک جو کہ عالم اسلام کے وکیل ہیں، ان سے پوچھ رہا ہوں۔

یہ صورت حال ہمیشہ ایسی نہیں تھی۔ اسلام کے شاندار سنہری دور میں، جو کہ 9 ویں تا 13 ویں صدی عیسوی پر محیط ہے، مسلمانوں نے ریاضی، سائنس اور طب میں بڑی ترقی کی۔ اس دور میں رائج زبان عربی تھی جب الجبرا تخلیق ہوا، آپٹکس کے واضح اصول بنائے گئے، جسم میں خون کی گردش کا نظریہ قائم کیا گیا، ستاروں کے نام رکھے گئے اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔ لیکن اس عہد کے اختتام کے ساتھ ہی مسلم دنیا میں سائنس بنیادی طور پر منہدم ہو گئی۔ اب سات صدیوں سے زیادہ عرصہ ہو چلا کہ مسلم دنیا سے کوئی بڑی ایجاد یا دریافت سامنے نہیں آئی۔ مسلمانوں کی موجودہ پسماندگی، ناانصافی اور مظلومیت کے بڑھتے ہوئے احساس میں دیگر عناصر کے علاوہ ایک اہم وجہ سائنسی ترقی کا انحطاط بھی ہے۔

اس قسم کے منفی جذبات کو پہلے سے جانچ لینا چاہئیے تا کہ یہ مزید گہرے نہ ہو سکیں۔ تہذیبوں کا خونی تصادم، اگر یہ واقعتاً ہو گیا، تو یہ بھی یقیناً ہمارے سیارے پر زندگی کے لیے نہایت خطرناک دو بڑے چیلنجز یعنی آب و ہوا کی تبدیلی اور ایٹمی تابکاری کے پھیلاؤ جیسا ہی خطرناک ثابت ہو گا۔

پہلا رابطہ

سائنس کے ساتھ اسلام کا خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں طرح کا تعلق رہا ہے۔ تقریباً 610 عیسوی میں شروع کے مسلم ادوار کی عرب ثقافت میں سائنس نہیں تھی۔ لیکن جیسے جیسے اسلام نے سیاسی اور عسکری طور پر خود کو مضبوط کیا، تو اس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ آٹھویں صدی کے وسط میں، یونانی علوم کے قدیم خزانے مسلمان فاتحین کے ہاتھ آئے۔ آزاد فکر اور روشن خیال خلفاء جنہوں نے بغداد میں اپنی عدالتیں دور دراز سے آنے والے علماء سے بھر دی تھیں، انہوں نے ان علوم کو یونانی سے عربی زبان میں ترجمہ کرنے کے احکام جاری کئے۔ سیاست پر عقلیت پسند معتزلہ کا غلبہ تھا، جنہوں نے اپنے حریف راسخ العقیدہ اشعریوں کی مخالفت میں ایمان اور استدلال کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔

عمومی طور پر روادار اور تنوع پسند مسلم ثقافت نے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کو مل جل کر فنون اور سائنس کے نئے کام تخلیق کرنے کی اجازت دی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کی لبرل اور بنیاد پرست تشریحات کے درمیان مذہبی تناؤ جیسے کہ جبر و قدر کا مسئلہ وغیرہ شدت اختیار کرتے خونی حد تک چلا گیا۔ ایک نوآموز مذہبی راسخ العقیدگی نے آخرکار معتزلیوں کو عبرتناک شکست دی۔ اس کے بعد فلسفہ، ریاضی اور سائنس میں ذہنی کشادگی سے کھوج کرنے کی روش تیزی سے مسلم دنیا کے (مرکز سے نکل کر) حاشیے پر چلی گئی۔

اس کے بعد ایک طویل مدت کی تاریکی چھا گئی جس میں کبھی کبھار ہی روشنی کی کوئی شاندار جھلک دکھائی پڑتی۔ سولہویں صدی میں عثمانی ترکوں نے فوجی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک وسیع سلطنت قائم کی۔ لیکن وہاں بھی سائنس اور نئے علم کے لیے بہت کم ولولہ پایا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں یورپی روشن خیالی نے جدید مسلم مصلحین میں ایک نئی لہر کو ابھارا۔ مصر کا محمد عبدہ، شام سے اس کا پیروکار راشد ردا، اور ہندوستان میں ان کے ہم مشرب جیسے سر سید احمد خان اور جمال الدین افغانی نے اپنے ساتھی مسلمانوں کو روشن خیالی اور سائنسی انقلاب کے تصورات کو قبول کرنے کی تلقین کی۔ ان مصلحین کی مذہبی فکر کو مجموعی طور پر اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ 'قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جنت میں کیسے جانا ہے، یہ نہیں کہ فلکی اجسام کیسے حرکت کرتے ہیں'۔ یہ دراصل گیلیلیو ہی کی بازگشت ہے جو پہلے پہل یورپ میں سنی گئی تھی۔

بیسویں صدی عیسوی میں یورپی نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ بہت سی نئی آزاد مسلم ریاستیں ظہور پذیر ہوئیں جو کہ تمام کی تمام ابتدائی طور پر سیکولر قومی قیادت کے تحت آزاد ہوئیں۔ اس کے بعد جدیدیت اور ٹیکنالوجی کے حصول کی طرف تیزی آئی۔ بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ اب مسلم سائنسی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہو گا لیکن واضح طور پر ایسا نہیں ہوا۔

مسلم دنیا میں سائنس کمزور کیوں ہے؟

یہ دیکھتے ہوئے کہ فوجی طاقت اور اقتصادی ترقی اب ٹیکنالوجی سے پرورش پاتی ہے، آج کے مسلم رہنما تیز رفتار سائنسی ترقی اور علم پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اکثر یہ مطالبہ محض بیان بازی پر مبنی ہوتا ہے، لیکن کچھ مسلم ممالک جیسے قطر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، پاکستان، ملائشیا، سعودی عرب، ایران اور نائجیریا وغیرہ میں حالیہ برسوں میں سائنس اور تعلیم کے لیے سرکاری سرپرستی اور فنڈنگ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کچھ روشن خیال حکمران بشمول شارجہ کے سلطان بن محمد القاسمی، قطر کے حماد بن خلیفہ الثانی و دیگر اپنی وسیع ذاتی دولت میں سے کچھ رقم تعلیم کے لیے بھی وقف کر دیتے ہیں۔ لیکن کوئی مسلمان لیڈر ایسا نہیں جو سائنس کو مذہب سے الگ کرنے کا عوامی سطح پر مطالبہ کرے۔

کیا وسائل کی فراہمی کو بڑھانا سائنس کو متحرک کرنے کے لیے کافی ہے؟ یا مزید بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟ انیسویں صدی کے سکالرز، جیسے کہ ماہر سماجیات میکس ویبر وغیرہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام میں 'فکری نظام' کا فقدان ہے جو کہ جدت، نئے تجربات، مقداری تعین اور تجرباتی تصدیق پر مبنی سائنسی ثقافت کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہے۔ ان علماء کے مطابق تقدیر پرستی اور ماضی کی جانب رجحان نے ترقی کو مشکل، یہاں تک کہ ناپسندیدہ بنا دیا ہے۔

موجودہ دور میں مسلم اور مغربی دنیا کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق کو زیادہ تر مسلمان غصیلے انداز میں مسترد کرتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ الزامات مسلمانوں کی آبادی پر ثقافتی اور فوجی حملوں میں ملوث مغرب کو جواز فراہم کرنے میں ایک اور عذر کا اضافہ کرتے ہیں۔ مسلمان ایسی کسی بھی بات پر خفا ہو جاتے ہیں جس میں یہ کہا جا رہا ہو کہ اسلام اور سائنس میں اختلاف ہو سکتا ہے یا کہ اسلام اور سائنس کے درمیان تنازعہ ان کی ترقی میں سستی کا باعث ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ قرآن، خدا کا غیر تبدیل شدہ کلام ہے اس لئے غلطی پر نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ لازمی طور پر قرآن کی الہامی ہدایات کی صحیح تشریح اور ان پر عمل درآمد کرنے میں ان کی اپنی نااہلی کی وجہ سے ہے۔

سائنس اور اسلام کی مطابقت کے دفاع میں مسلمانوں کا استدلال یہ ہے کہ اسلام نے یورپ کے پورے تاریک دور میں ایک متحرک فکری ثقافت کو برقرار رکھا تھا اور یوں اسی کی توسیع کرتے ہوئے آج بھی ایک جدید سائنسی ثقافت کے قابل ہے۔ فزکس کے نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام اپنے سامعین کو اس بات پر زور دیتے تھے کہ قرآن کا آٹھواں حصہ مسلمانوں کو کائنات میں اللہ کی نشانیوں کو تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے اور اس لیے سائنسی انداز میں سوچنا مسلمانوں کے لیے دنیاوی کے ساتھ ساتھ ایک روحانی فریضہ بھی ہے۔ شاید سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم حضرت محمدﷺ نے اپنے پیروکاروں کو نصیحت کی تھی کہ 'علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے'۔ اور یہ کہ اس کا مطلب ہے کہ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ سیکولر علم کی تلاش کرے۔

ایسے دلائل پر بہت بحث ہو چکی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن یہاں ان پر مزید بات نہیں کی جائے گی۔ اس کے بجائے آئیے ہم عصری مسلم دنیا میں سائنس کی حالت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے دستیاب معلومات کی حد تک میں مقداری طور پر سائنس کی موجودہ حالت کا جائزہ لوں گا۔ پھر میں مسلم ممالک میں سائنس، ٹیکنالوجی اور جدیدیت کے حوالے سے مسلمانوں کے ان مروجہ رویوں کو دیکھوں گا کہ جو ترقی کے خلاف مخصوص ثقافتی اور سماجی چال چلن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آخر میں پھر ہم بنیادی سوال کی طرف رجوع کر سکتے ہیں کہ سائنس کو مسلم دنیا میں واپس لانے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟

سائنس کے میدان میں مسلمانوں کی ترقی کی پیمائش

سائنسی ترقی کی پیمائش نہ تو دقیق ہے اور نہ ہی منفرد ہے۔ سائنس ہماری زندگیوں پر بے شمار طریقوں سے اثر انداز ہوتی ہے۔ مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی رکھتی ہے اور تاریخی عمل کے دوران اس کا مواد اور دائرہ کار یکسر تبدیل ہوتا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، قابل اعتماد اور موجودہ اعداد و شمار کی کمی کی وجہ سے مسلم ممالک میں سائنسی ترقی کا اندازہ لگانا اور بھی مشکل ہے۔ میں مندرجہ ذیل چار معقول پیمانوں کا استعمال کروں گا؛

1۔ سائنسی پیداوار کا حجم، جس کو موجودہ دنیا سے مطابقت اور اس کی اہمیت کے حوالے سے دیکھا جائے گا۔

2۔ قومی معیشتوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے کردار کو درکار وسائل اور قومی سائنسی سرمایہ کاری کے حوالے سے دیکھا جائے گا۔

3۔ اعلیٰ تعلیم کے معیار اور وسعت کے اعتبار سے دیکھا جائے گا۔

4۔ عمومی ثقافت میں سائنس کی موجودگی و غیر موجودگی کے حوالے سے دیکھا جائے گا۔

1۔ سائنسی پیداوار کا حجم

سائنسی پیداوار کا ایک مفید، اگرچہ نامکمل، اشاریہ جریدوں میں شائع ہونے والے سائنسی تحقیقی پرچوں کی تعداد بمعہ ان کے دوسرے مقالوں میں حوالہ جات کے طور پر استعمال ہونا ہے۔ جدول 1 میں سب سے زیادہ سائنسی پیداوار والے 7 مسلم ممالک کے یکم جنوری 1997 سے 28 فروری 2007 تک کے طبیعات کے پرچوں کی تعداد بمعہ جملہ سائنسی شعبوں میں اشاعتوں کی کل تعداد کو ظاہر کیا گیا ہے۔ برازیل، بھارت، چین اور امریکہ کے ساتھ موازنہ نمایاں طور پر ایک چھوٹی تعداد کو ظاہر کرتا ہے۔

بین الاقوامی اسلامیہ یونیورسٹی ملائشیا کے ماہرین تعلیم کی جانب سے کئے گئے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ او آئی سی ممالک میں فی 1000 آبادی پر 8.5 فیصد سائنس دان، انجینیئرز اور تکنیکی ماہرین پائے جاتے ہیں جبکہ عالمی اوسط 40.7 فیصد ہے اور اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (OECD) کے ممالک کے لیے یہ شرح 139.3 فیصد ہے۔

46 مسلم ممالک نے دنیا بھر میں شائع ہونے والے سائنسی مواد میں صرف 1.17 فیصد حصہ ڈالا جبکہ اکیلے بھارت سے 1.66 فیصد اور سپین سے 1.48 فیصد حصہ ہے۔ 20 عرب ممالک کا حصہ 0.55 فیصد جبکہ اسرائیل اکیلے کا حصہ 0.89 فیصد ہے۔

امریکی ادارے نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (NSF) کے مطابق 2003 میں سب سے کم سائنسی مضامین چھاپنے والے ممالک کی فہرست مرتب کی گئی اور ان میں سے آدھے او آئی سی میں سے تھے۔

صورت حال شاید اس سے بھی سنگین ہو اگر اشاعتوں کی تعداد اور حتی کہ ان کے حوالہ جات (Citations) کی تعداد معلوم کی جائے۔ اشاعتوں کی سائنسی قدر معلوم کرنا کبھی آسان کام نہیں رہا۔ اس میں اور پیچیدگی تب آتی ہے جب نت نئے عالمی سائنسی جریدے نمودار ہوتے ہیں جو کہ پست درجے کا کام بھی شائع کر دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی ادارتی پالیسیاں اور آزاد تجزیے کا عمل گھٹیا ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک کے سائنس دان جن کو پرچے شائع کرنے کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے یا جنہیں ڈھیروں سرکاری آسائشوں سے دلچسپی ہوتی ہے وہ ان جریدوں کی بڑھتی ہوئی تجارتی پالیسیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سب سے آسان رستہ اپناتے ہیں۔ ممکنہ مصنفین کو اندازہ ہوتا ہے کہ مدیروں نے ہر مہینے ایک بھاری بھرکم شمارہ شائع کرنا ہی ہوتا ہے۔

ان سرگرمیوں کے کھلے ثبوتوں کے علاوہ کچھ منظم تحقیق سے بھی نتائج پیش کئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایرانی سائنس دانوں کی کیمسٹری کے شعبہ میں اشاعتیں پانچ سالوں میں پانچ گنا ہو گئیں۔ یعنی1998  میں اشاعتوں کی تعداد 1040 سے بڑھ کر 2003 میں 3277 ہو گئی۔ ایران کے کیمسٹری کے مصنفین کے جو کام عالمی جریدوں میں شائع ہوئے تھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے یہی پرچے دو دو بلکہ کبھی تین تین مرتبہ ایک ہی نام یا ملتے جلتے ناموں سے شائع ہو چکے تھے۔ مزید کچھ پرچے ایسے تھے جنہیں کوئی بھی آزاد تجزیہ کر کے ثابت کر سکتا تھا کہ یہ سب سرقہ ہے۔

اسی طرح نئی ایجادات میں بھی صورت حال مایوس کن ہے۔ او آئی سی کے ممالک میں یہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے 43 سالوں میں صرف 8 پیٹنٹ (patent) شائع کیے۔

مسلم ممالک میں ثقافتوں کا ایک عظیم تنوع ہے اور اسی مناسبت سے جدیدیت کی مختلف سطحوں سمیت سائنسی پیداوار میں بھی تنوع دکھائی دیتا ہے۔ آبادی اور سیاسی اہمیت کے لحاظ سے بڑے ممالک ترکی، ایران، مصر اور پاکستان سائنسی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ چھوٹے ممالک میں، جیسے وسط ایشیائی ریاستیں ازبکستان اور قازقستان وغیرہ کا درجہ کافی حد تک ترکمانستان، تاجکستان اور کرغزستان سے اوپر ہے۔ ملائشیا جو کہ 40 فیصد غیر مسلم اقلیت کے ساتھ ایک غیر معمولی مسلم ملک ہے، پڑوسی ملک انڈونیشیا سے بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے باوجود زیادہ پیداواری ملک ہے۔ کویت، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور دیگر ریاستیں جن میں بہت سے غیر ملکی سائنس دان موجود ہیں، سائنسی اعتبار سے دیگر عرب ریاستوں سے بہت آگے ہیں۔

جاری ہے)

مصنف اسلام آباد میں مقیم ایک ماہرِ طبیعیات اور لکھاری ہیں۔