پانی سے چلنے والی گاڑی کا فراڈ جسے میڈیا پھر زندہ کر رہا ہے

سائنسی فراڈ کو پاکستان میں شاندار کامیابی ملنے کی وجہ کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہمارے رہنما اندھیرے میں گم ہیں اور کسی معجزے کے لیے بے چین ہیں۔ ہمارا میڈیا سچ نہیں بلکہ تماشے کے تعاقب میں رہتا ہے اور ہمارے عظیم سائنس دان ثبوت کی تلاش سے زیادہ اپنی ذات کی اہمیت جتانے کی فکر میں رہتے ہیں۔

پانی سے چلنے والی گاڑی کا فراڈ جسے میڈیا پھر زندہ کر رہا ہے

عرضِ مترجم

حال ہی میں جیو نیوز کے معروف اینکر حامد میر نے نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد میں ہونے والی سرگرمیوں پر ایک پروگرام نشر کیا ہے۔ جب مترجم نے پرویز ہودبھائی صاحب کو اس پروگرام کی ویڈیو بھیجی اور رائے طلب کی تو انہوں نے بذریعہ ای میل یہ جواب دیا؛

"ہیلو شہباز، میں نے آپ کی بھیجی ہوئی ویڈیو دیکھی اور دل ہی دل میں یہ مصرعہ یاد کیا کہ 'حیراں ہوں دل کو رؤوں کہ پیٹوں جگر کو میں'۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آغا وقار کی جانب سے 2011 میں کی گئی دھوکہ دہی کے بعد سے کچھ نہیں سیکھا گیا۔ تفریح کے لیے میں نے اپنا پرانا مضمون پڑھا اور محسوس کیا کہ میرے پاس مزید بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ نیک خواہشات، پرویز ہودبھائی"۔

پرویز صاحب کا جواب میرے لئے تو کافی تسلی بخش ثابت ہوا۔ اس لئے ارادہ کیا کہ ان کے مضمون کا ترجمہ اردو قارئین کے لئے پیش کیا جائے تاکہ اس ضمن میں دلچسپی رکھنے والے دیکھ سکیں کہ میڈیا نے کیسے 12 سال پہلے کا مردہ دوبارہ زندہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے مضمون کا ترجمہ درج ذیل ہے:

*

آغا وقار احمد قوم کی عظیم خدمات پر پاکستانی عوام کی طرف سے تمغہ کے مستحق ہے۔ چند ہی دنوں میں اس نے بے نقاب کر دیا ہے کہ پاکستان جہالت اور خود فریبی کے گڑھے میں کس حد تک گر چکا ہے۔ کوئی عملی جوکر ہمارے ملک کے سیاسی رہنماؤں، مشہور ٹی وی اینکرز اور نامور سائنس دانوں کی اصلیت کا اس سے زیادہ ڈرامائی انداز میں مظاہرہ نہیں کر سکتا تھا۔

پہلے پہل، یہ ایک مذاق لگتا تھا کہ خیرپور کے پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ میں تربیت یافتہ ایک خود ساختہ انجینئر نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ایک ' واٹر کٹ' ایجاد کی ہے جو کسی بھی کار کو پانی پر چلنے کے قابل بناتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ باقی دنیا پانی سے توانائی نہیں نکال سکتی مگر اس نے یہ کر دکھایا۔ اس نے لامحدود توانائی کے ساتھ نئے پاکستان کا وعدہ کیا جس میں نہ پیٹرول اور گیس کی ضرورت ہو گی اور نا ہی مزید لوڈشیڈنگ ہو گی۔ توانائی سے محروم قوم کے لیے یہ جنت کا نظارہ تھا۔

وزیر مذہبی امور خورشید شاہ کی بدولت آغا وقار احمد اب ایک مشہور قومی شخصیت بن چکا ہے۔ وفاقی وزرا میر ہزار خان بجرانی اور قمر زمان کائرہ نے بھی اس کی تعریفیں کی ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ پانی سے چلنے والی گاڑی پر بات کرنے کے لیے کابینہ تین بار میٹنگ کر چکی ہے اور چوتھی میٹنگ طے ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ 'واٹر فیول کٹ پروجیکٹ' پر لاکھوں روپے خرچ کیے جا سکتے ہیں۔

میڈیا نئے قومی ہیرو کو سراہنے کے لیے دوڑ میں شامل ہے۔ ٹی وی اینکر طلعت حسین کے مطابق، آغا وقار احمد کی ایجاد کی بدولت پاکستان کا امیج دہشت گردی سے تباہ شدہ ملک سے تبدیل ہو کر بے پناہ امکانات کے حامل ملک تک جا سکتا ہے۔ اینکر حامد میر اور سینیٹر پرویز رشید نے 'موجد' کے ساتھ بیٹھ کر اسلام آباد کے گرد چکر لگائے اور انہیں فکر تھی کہ مغربی تیل کمپنیوں سے اس اہم انسان کی جان کیسے بچائی جائے۔ اینکر ارشد شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان تیل کی درآمد پر 14 ارب ڈالر کی بچت کرے گا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستان کے نامور سائنس دان بھی پیچھے نہیں رہے۔ اینکر ارشد شریف کے پوچھے جانے پر کہ کیا گاڑی صرف پانی پر چل سکتی ہے، ایٹمی ہیرو ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا؛ 'جی ہاں، بالکل ہو سکتا ہے'۔ اپنی طرف سے حامد میر نے ڈاکٹر اے کیو خان سے پوچھا کہ کیا اس میں فراڈ ہونے کا کوئی امکان ہے؟ جواب واضح تھا؛ 'میں نے اپنے لیول پر تفتیش کی ہے اور انہوں نے کوئی فراڈ وراڈ نہیں کیا ہے' ۔ پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر شوکت پرویز نے کہا؛ 'ہم نے بھی اس پر کام کیا تھا'۔

تو مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ طبیعیات کے قوانین، خاص طور پر ایک بنیادی سائنسی اصول جسے حر حرکیات یا تھرموڈینامکس کا دوسرا قانون کہا جاتا ہے، اس پر ناقابل تسخیر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ کہیں بھی بنائی گئی ہر مشین حر حرکیات کا دوسرا قانون استعمال کرتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو میں نے اپنے پہلے سال میں MIT میں ایک طالب علم کے طور پر سیکھی تھی اور 40 سال تک پڑھائی ہے۔ کوئی سنجیدہ سائنس دان دوسرے قانون کو چیلنج کرنے کا خواب نہیں دیکھے گا۔ اگر کوئی سائنس کو درست مانتا ہے تو اس کے مطابق آغا وقار احمد کی ' واٹر کٹ' کام نہیں کر سکتی۔ ٹی وی پر نام نہاد موجد، وزیر، اینکر اور سائنس دان جو دعویٰ کررہے ہیں وہ سراسر غلط ہے۔

ٹی وی پر بولنے والوں میں واحد شخص جو اس بنیادی اصول کو جانتا تھا، وہ ڈاکٹر عطاء الرحمان ہیں جو ایک کیمسٹ اور ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ہیں۔ ماضی میں، میں ان کے تمام اعمال اور خیالات سے متفق نہیں رہا ہوں لیکن وہ واحد ہیں جنہوں نے اس نئی مشین کے بارے میں دعوؤں کو مسترد کر دیا۔ افسوس کہ وہ بھی توانائی کے فقدان سے پریشان قوم کو سمجھانے سے قاصر رہے جو اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کیلئے بے چین ہے۔

پانی کی گاڑی کا دھوکہ بہت جلد بے نقاب ہو جائے گا اور بدبو کی طرح وقت کے ساتھ غائب ہو جائے گا۔ مگر ایک سادہ تجربہ اس عمل کو تیز کر سکتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے؛ ہنگامی بجلی پیدا کرنے والا ایک جنریٹر لیں جو کہ اسلام آباد میں ہزاروں مل جاتے ہیں۔ اس کا انجن گاڑی کے انجن جیسا ہوتا ہے۔ ایندھن کے ٹینک کو ہٹا دیں اور یقینی بنائیں کہ آغا وقار کی ' واٹر کٹ' میں صرف پانی ہے۔ پھر موجد سے کہیں کہ اس پانی والی کٹ کو جنریٹر سے جوڑ کر چلا کر دکھائے۔ ساتھ یقینی بنائیں کہ ذہین اور دیانت دار باریک بین گواہ موقع پر موجود ہوں۔ (اس سے پانی والی کٹ کا بھانڈا فوری پھوٹ جائے گا، مترجم)

بہرحال یہ واقعہ بڑے سوالات اٹھاتا ہے۔ سائنسی فراڈ دوسرے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ان کو شاندار کامیابی ملنے کی وجہ کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہمارے رہنما اندھیرے میں گم ہیں اور کسی معجزے کے لیے بے چین ہیں۔ ہمارا میڈیا سچ نہیں بلکہ تماشے کے تعاقب میں رہتا ہے اور ہمارے عظیم سائنس دان ثبوت کی تلاش سے زیادہ اپنی ذات کی اہمیت جتانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ان سب کے لیے اس سے بچنا آسان ہے۔ بحیثیت قوم ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم عقل، شکوک و شبہات، ثبوت کے مطالبے اور حتیٰ کہ بنیادی سائنس کو سمجھنے کے لیے ضروری محنت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ یقین کرنا آسان ہے کہ دنیا جادو اور سازشوں سے چل رہی ہے اور ہم الہٰ دین کے جادوئی چراغ کی تمنا اور انتظار کرتے رہیں۔ ہم عہد جاہلیت میں رہ رہے ہیں۔

***

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون 3 اگست 2012 کو انگریزی اخبار The Express Tribune میں شائع ہوا تھا جسے محمد علی شہباز نے اردو قارئین کے لیے ترجمہ کیا ہے۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم ایک ماہرِ طبیعیات اور لکھاری ہیں۔