شدت پسند کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد مٹھی بھر اور پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔ وہ اپنے اصولوں پر زندگی بسر کرتے رہتے ہیں اور اپنی درسگاہوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہمیں آج کے ترقی یافتہ یورپ میں بھی مل جائیں گی کہ جہاں کچھ لوگ سیکولر معاشروں میں جہاں شخصی آزادی اپنی انتہا پر ہے، وہاں بھی سختی سے اپنے شدت پسند خیالات پر کاربند ہیں۔ ہاں وہ ریاست اور نظام سے متصادم نہیں بلکہ اپنے مذہبی مقامات تک ہی محدود ہیں۔ انتہا پسندی کے جذبات ہمیں قدیم عہد میں بھی دکھائی دیتے ہیں جب لوگ دیوی دیوتاؤں پر ایمان رکھتے ہوئے ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ انہیں خوش رکھنے کے لیے نذرانے دیتے تھے اور ان کی بے حُرمتی برداشت نہیں کرتے تھے۔
تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر نظام پر اثرانداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق ایک خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ پاکستان گذشتہ چند دہائیوں سے اسی طرح کی صورت حال سے دوچار دکھائی دیتا ہے کہ یہاں شدت پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس کے نظام کو کھل کر چیلنج کر رہی ہے۔ یہاں شدت پسندی نے جنرل ضیاء کے زمانے میں ترویج پائی، اس سے پہلے بھی پرائم منسٹر بھٹو کے زمانے میں نظام مصطفیٰ کی پر تشدد تحریک چلی اور کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس تحریک کے پیش نظر ہی قادیانیوں کو غیر مسلم قرا ر دینا، شراب پر پابندی اور حکومت کا سربراہ ایک مسلمان کا ہونا لازمی قرار دیا گیا۔
ہمارا یہ خطہ مذہبی رواداری کی ایک پوری تاریخ رکھتا ہے اور یہ سماج صدیوں سے کسی مذہبی و مسلکی تفریق کے بغیر ایک ساتھ رہتا چلا آیا ہے۔ موریہ خاندان کے تیسرے فرمانروا مہاراجہ اشوک اور مغلیہ سلطنت کے بھی تیسرے ہی فرمانروا شہنشاہ اکبر کا نام اس حوالے سے تاریخ نے خصوصی طور پر محفوظ رکھا ہے کہ انہوں نے مذہبی رواداری کی خصوصی مثالیں قائم کیں، لیکن بعد کے زمانے میں آخر وہ کون سے اسباب تھے کہ یہ خطہ، خصوصاً پاکستان، اپنے شدت پسند تشخص کی وجہ سے دنیا میں جانا جانے لگا۔ ہم اگر قیامِ پاکستان کے وقت سے ان اسباب و عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں صدیوں سے موجود مذہبی رواداری کی روایت برصغیر کی تقسیم کی وجہ سے بھی متاثر ہوئی اور وہ روایت اس وقت مزید کمزور ہوئی جب تقسیم کے بعد قیام میں آنے والی ریاستوں نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
تقسیم سے قبل ہندوستان میں مذہب کے سیاسی استعمال سے شدت پسند طبقے مضبوط ہونا شروع ہوئے اور انہوں نے تقسیم کا جواز بھی مذہبی اختلافات میں ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ قومی اور سیکولر ریاست کے تخیل کے مقابلے میں مذہبی حکومت کے تصور نے اکثریت کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور یوں آج تک پاکستان میں اٹھنے والی ہر شدت پسند تحریک اپنے مقاصد کے لیے مذہب کا نام استعمال کرتی ہے تاکہ اکثریت کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ بیرونی طاقتیں بھی پاکستان میں اپنے مقاصد اور اہداف کے لیے مذہب ہی کو آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک پوری معیشت وجود میں آ چکی ہے۔ اب یہ جنگ محض نظریاتی دائروں کی جنگ نہیں رہ گئی، بلکہ مفادات اور اپنی اپنی بقا کی جنگ بن چکی ہے۔
پاکستان میں انتہاپسندی کی بنیادی وجوہات
کسی معاشرے کی تعلیمی پالیسی اور اس کو بروئے کار لانے والے اساتذہ نئی نسل کی ذہن سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، پاکستان میں پہلے دن سے ہی کوئی قومی، سائنسی اور انسان دوست تعلیمی پالیسی نہیں بن سکی، ہمارے ہاں بیک وقت کئی طرح کے نصابِ تعلیم ایک ہی طرح کے نتائج پیدا کرتے رہے ہیں۔ ہمارے قومی نصاب میں مستقبل کی نسبت ماضی کو زیادہ زیر بحث لایا گیا ہے، اور ہندو مسلم اختلافات، فرقہ وارانہ تعصبات اور دنیا پر حکومت کرنے کے خواب نے ایسی جنگجویانہ نفسیات کو جنم دیا جس نے معاشرے میں موجود شدت پسند عناصر کے حق میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔
سوویت-افغان جنگ میں جس طرح ریاست نے اپنا حصہ ڈالا اور شدت پسندوں کی نرسریاں بنائی گئیں اس کے ساتھ ساتھ شدت پسند نظریات کو جس طرح سے پروان چڑھایا گیا، نتائج کی پرواہ کیے بنا اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مذہب کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
نائن الیون کے بعد حالات اور نتائج آپ سب کے سامنے ہیں، جو کل کے نور نظر تھے آج انہیں سے برسر پیکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک سول اور فورسز کے 80 ہزار لوگ جانیں گنوا چکے ہیں اور معیشت کو تقریباً 150 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ لیکن معاملہ یہاں بھی نہیں تھمتا اور ہم تاریخ سے کچھ بھی سیکھنے کو تیار نہیں۔ عوامی اور بیرونی دباؤ کے باعث جب طالبان کے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے اور جیسے ہی حالات کچھ نارمل ہونے لگتے ہیں تو سماج میں شدت پسندی کا ایک اور روپ توہین مذہب/ رسالت کی شکل میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے اور 2011 میں ایک صوبے کا گورنر اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں ملک کے دارالحکومت میں توہین رسالت کے نام پر مارا جاتا ہے اور یہیں سے ملک میں شدت پسندی ایک نیا رخ لیتی ہے جس میں تحریک لبیک پاکستان جیسی شدت پسند نظریات رکھنی والی جماعتیں نمودار ہوتی ہیں اور تب سے جتھہ کلچر کا آغاز ہو جاتا ہے جس میں نہ اقلیت محفوظ ہے نہ اکثریت!
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 1990 سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں 85 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 1987 سے 2024 تک 1855 افراد پر توہین مذہب کے الزامات عائد کر کے ان کو توہین مذہب کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ حقیقی تعداد زیادہ بتائی جاتی ہے کیونکہ توہین رسالت کے تمام کیسز پریس میں رپورٹ نہیں ہوتے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 70 فیصد سے زیادہ کیسز کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اس کے ساتھ اسلام آباد، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر، سندھ اور بلوچستان میں بھی آئے دن توہین کے نام پر قتل اور مقدمات کا سلسلہ شروع ہے۔
توہین مذہب قانون ہے کیا؟
توہین مذہب قانون کہتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کسی بھی قسم کے توہین آمیز کلمات، بولے یا لکھے گئے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا کسی بھی الزام، طعن و تشنیع کے ذریعے، بالواسطہ یا بلاواسطہ موت، یا قید کی سزا دی جائے گی اور جرمانے کے لیے بھی ذمہ دار ہوں گے۔
یہ قانون 1970 کی دہائی تک بہت کم استعمال ہوا تھا، جب اسے 1980 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے دوران ریاست کو اسلامی بنانے کی مہم کے ایک حصے کے طور پر مضبوط کیا گیا تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس قانون کی حمایت کی اور 2021 میں مسلم اکثریتی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلام کے پیغمبرﷺ کی توہین کو جرم قرار دینے کے لیے مغربی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے اکٹھے ہوں۔
اس ساری صورت حال کے پیش نطر توہین مذہب کے قانون پر انسانی حقوق کی تنظیموں، عالمی اداروں اور ملک کے ترقی پسند حلقوں کا خیال ہے کہ اس پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مختلف کیسز میں اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ذاتی عناد پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا کر اپنا بدلہ لیا جاتا ہے۔ آسیہ بی بی کیس سمیت کئی مثالیں موجود ہیں۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق اب بھی 215 افراد ملک کے مختلف شہروں میں اس قانون کے تحت زیر حراست ہیں۔ اس کے علاوہ غیر مسلم اور احمدیہ اقلیتوں کے علاوہ، پاکستان کے اقلیتی شیعوں پر بھی عقائد کی توہین کا الزام ہے۔ 2001 سے اب تک پاکستان میں پرتشدد حملوں میں 2600 سے زیادہ شیعہ مسلمان مارے جا چکے ہیں۔
انتہاپسندی کی اس آگ میں کوئی محفوظ نہیں رہا۔ پچھلے مہینے ستمبر 18 کو سندھ کے شہر عمر کوٹ میں ڈاکٹر شاہنواز کنبھار کو سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹس کرنے کے الزام میں پولیس نے جعلی مقابلہ دکھا کر ماورائے عدالت قتل کر دیا۔ ورثا کو لاش تک دفنانے نہیں دی گئی اور اس کے مردہ جسم کو جلا دیا گیا۔ اس عمل کے خلاف سندھ کے عوام نے زبردست ردعمل دیا۔ اس کے بعد قتل میں ملوث پولیس افسران اور اہلکاروں پر قتل کی ایف آئی آر کاٹی جا چکی ہے لیکن ابھی تک کسی بڑے افسر یا قتل پر اکسانے والے پیر سرہندی کی گرفتاری ممکن نہیں ہو سکی۔
سندھ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا اور سندھ ہزاروں سالوں سے اپنے سیکولر تشخص کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی انتہاپسندی کا بیج بویا جا رہا ہے۔ سندھ میں ابھی تک ڈاکٹر شاہنواز کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف سندھ رواداری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری ہے۔ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے مجموعی طور پہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی معاشرے کے اتحاد کو ختم کرتی ہے اور لوگوں میں نفرت اور تعصبات کو پیدا کرتی ہے جو مسلسل فسادات کا باعث ہوتے ہیں۔ پاکستان کو تاریخ سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ انتہا پسندی اشتراک کے جذبات کو ختم کرتی ہے، اور سماج کو گھٹن زدہ بنا دیتی ہے جہاں سانس لینا بھی مشکل بن جائے گا۔ ایسے میں پالیسی ساز اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ماضی سے سبق حاصل کریں اور ملک میں رواداری، ہم آہنگی اور سیکولر روایات کو پروان چڑھا کر معاشرے میں جاری اس اضطراب کو کم کیا جائے۔