’برائلر‘ قیادت معاشی بحران حل نہیں کر سکتی

’برائلر‘ قیادت معاشی بحران حل نہیں کر سکتی
سوموار 3 دسمبر کو کراچی سٹاک ایکسچینج نے ایک بار پھر حالیہ تاریخ کا بدترین نقصان برداشت کیا۔ سٹاک مارکیٹ کے انڈکس میں 1355 پوائی نٹس کی ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔ سٹاک مارکیٹ کے حصص میں یہ بدترین کمی سٹیٹ بنک کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آئی جس کے مطابق مالی سال 2019 میں اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہو کر 4 فیصد رہ جائے گی۔ اس پر جلتی کا کام وزیراعظم عمران خان کے اس بیان نے کیا کہ ملک میں قبل ازوقت انتخابات منعقد کروائے جا سکتے ہیں۔ اس سے قبل جمعہ کے روز پاکستانی کرنسی نے ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ قدر کھوئی اور روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 142 روپے کی سطح تک پہنچنے کے بعد دن کے اختتام پر 139 روپے پر جا پہنچا۔ جمعہ کے روز سے لیکر اب تک وطن عزیز میں بدترین مالی و معاشی بحران کی لہر چل رہی ہے۔ روپے کی قدر میں عوام اور کاروباری طبقے کو اعتماد میں لئے بغیر بے پناہ کمی نے ایک بے یقینی کی صورتحال پیدا کر دی جس کا اثر ہمیں سٹاک مارکیٹ کے کریش کی صورت میں دکھائی دیا۔

پاکستانی کرنسی کی قدر میں 10 سے 12 فیصد کمی کر ڈالی ہے

ملک کے کاروباری طبقات بشمول مختلف شہروں کے چیمبرز آف کامرس کے اعلیٰ عہدیداروں نے حکومت کے اس اقدام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سرمایہ کار طبقہ اس وقت موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی انوسٹمنٹ کرنے سے گریزاں ہے۔ کسی بھی ملک کی کرنسی کا مستحکم ہونا اس کی معیشت کے مستحکم ہونے کا اشارہ ہوتا ہے اور اسی کو دیکھتے ہوئے اندرونی و بیرونی سرمایہ کار اپنا سرمایہ کسی ملک میں لگاتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں کرنسی بالکل غیر مستحکم ہے۔ تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے بعد سو دنوں کے اندر ہی پاکستانی کرنسی کی قدر میں 10 سے 12 فیصد کمی کر ڈالی ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی کی بڑی وجہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کی شرائط پر عملدرآمد ہے۔

مہنگائی کی نئی لہر نے سفید پوش طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے

وزیر خزانہ اسد عمر کے مطابق مسلم لیگ نواز کی گذشتہ حکومت نے مصنوعی طریقے سے روپے کی قدر کو ڈالرز کے قرضوں کی مدد سے بڑھایا تھا اور اس کی قدر میں کمی ایک قدرتی بات تھی۔ لیکن جس قدر عجلت اور غیر داننشمندانہ طریقے سے سرمایہ کاروں اور عوام کو اعتماد میں لیے بغیر روپے کی قدر کو گرایا گیا اس قدم نے معیشت کی ناؤ کو ڈگمگا دیا ہے۔ مہنگائی کی نئی لہر نے سفید پوش طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ دوسری جانب روپے کی قیمت میں کمی بین الاقوامی قرضوں کی قسط کی شرح سود اور اصل قرضے کی رقم میں بھی اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ جبکہ ہمارے وزیراعظم اور ان کی کابینہ معاشی بحران کے تدارک کیلئے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنے کے بجائے اپنی ہی شان میں قصیدے پڑھنے اور سیاسی کرتب دکھانے میں مصروف ہیں۔

وزیر خزانہ مسلم لیگ نواز پر روپے کی قدر میں مصنوعی اضافے کا الزام دھرتے وقت یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ۔۔۔

وزیر خزانہ اسد عمر پریس کانفرنسوں میں کوئی بھی ٹھوس حکمت عملی پیش کرنے کے بجائے سارا وقت ماضی کی مسلم لیگ نواز کی حکومت کو معاشی بحران کا مرتکب ٹھہرانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ اب انہیں کون یہ سمجھائے کہ محض سیاسی مخالفین پر بہتان تراشیوں اور ماضی کے قصوں کہانیوں کو دہرانے سے نہ تو سرمایہ کاروں کے خدشات دور کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی مدد سے معاشی بحران کو ٹالا جا سکتا ہے۔ وزیر خزانہ مسلم لیگ نواز پر روپے کی قدر میں مصنوعی اضافے کا الزام دھرتے وقت یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے روپے کی قدر کو محض قرضوں کی مدد سے ہی مستحکم نہیں رکھا تھا بلکہ پاور اینڈ انرجی اور انفراسٹرکچر کے شعبہ جات میں مسلم لیگ نواز ڈالرز کی بھاری انوسٹمنٹ ملک میں لانے میں کامیاب ہوئی تھی جو روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی بہت بڑی وجہ تھی۔ جبکہ تحریک انصاف کی حکومت ابتک بین الاقوامی سرمایہ کاری وطن میں لانے کیلئے اقدامات تو کجا بلکہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس حکمت عملی بھی ترتیب دینے میں ناکام رہی ہے۔

’پاکستان میں حالیہ معاشی و اقتصادی ابتری کا باعث حکومت کا عالمی مالیاتی بنک سے قرضے کیلئے رجوع کرنے میں تاخیر نہیں‘

حال ہی میں امریکہ کےانڈر سیکرٹری آف سٹیٹ برائے مالی امور ڈیوڈ ملپاس (David Malpas) نے امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کو پاکستان کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان میں حالیہ معاشی و اقتصادی ابتری کا باعث حکومت کا عالمی مالیاتی بنک سے قرضے کیلئے رجوع کرنے میں تاخیر نہیں بلکہ اس کی وجہ حکومت کا پہلے سو دنوں کے اندر کسی بھی قسم کی ٹھوس اور جامع معاشی پالیسی ترتیب نہ دے پانا ہے۔ دوسری جانب عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست کا سارا محور سیاسی کرتب دکھانے کے گرد گھوم رہا ہے۔

اب تان ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن اور گورنر ہاؤس پنجاب کی دیواریں گرانے پر آن ٹوٹی ہے

کفایت شعاری کی مہم میں بھینسوں کی فروخت کے بعد اب تان ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن اور گورنر ہاؤس پنجاب کی دیواریں گرانے پر آن ٹوٹی ہے۔ ناجائز تجاوزات کے دوران آپریشن کی زد میں محض غریب سبزی فروش، دکاندار اور ڈھابوں والے ہی آئے ہیں جبکہ ملک ریاض اور علیم خان جیسے لاتعداد بااثر افراد جن کی ساری کی ساری پراپرٹی کی سلطنت ہی سرکاری و نجی اراضی پر دھونس دھاندلی سے قبضے کی بدولت بنی ہے وہ اطمینان سے نئے تعمیری منصوبے بنا کر مزید اراضیاں ہتھیانے کا پلان ترتیب دے رہے ہیں۔ رسمی طور پر بحریہ ٹاؤن کے ایک چڑیا گھر کو ناجائز تجاوزات میں شمار کرتے ہوئے اسے گرانے کا عندیہ دے کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جیسے تجاوزات کی یہ مہم سب کے خلاف یکساں طور پر چلائی جا رہی ہے جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔

سٹے آرڈر دیکر تحریک انصاف کو مزید خفت سے بچا لیا

گورنر ہاؤس پنجاب کے بیرونی احاطے کی دیواروں کو گرا کر اس کے گرد حفاظتی جنگلہ تعمیر کرنے کے احمقانہ قدم کے خلاف عدالت نے سٹے آرڈر دیکر تحریک انصاف کو مزید خفت سے بچا لیا وگرنہ اس احمقانہ منصوبے کے باعث سرکاری خزانے کو دیواریں گرا کر ان کی جگہ باڑیں اور جنگلے لگانے کے عمل مہں آٹھ کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا۔

شعبدہ بازی کا مقصد وقت گزاری ہے

خیر یہ تمام شعبدہ بازیاں محض اس لئے کی جا رہی ہیں کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے وقت گزار دیا جائے۔ اس اثنا میں عالمی مالیاتی ادارے سے بیل آؤٹ پیکج مل جائے گا اور مزید سال دو سال حکومتی اخراجات چلانے کا وسیلہ پیدا ہو جائے گا۔ ایف بی آر کے نظام میں اصلاحات، سرمایہ کاروں کیلئے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنا یا انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنا نہ تو تحریک انصاف کی حکومت کے بس کی بات دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی اس میں اتنی قابلیت و صلاحیت ہے کہ یہ معاشی و اقتصادی میدان میں سٹرکچرل ریفارمز لا سکے۔

برائلر سیاسی رہنما کو بے وقت بانگیں دینے کے سوا اور کچھ بھی نہیں آتا

عمران خان کا آدھا وقت بیرونی دنیا میں اپنی خوبیاں گنوانے اور پاکستان کی خامیاں بتانے میں صرف ہوتا ہے اور باقی کا آدھا وقت اپنے من پسند ٹی وی اینکرز کے ذریعے دوبارہ اپنے قصیدے پڑھنے اور سیاسی مخالفین پر بہتان تراشیوں میں صرف ہوتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ نادیدہ قوتوں نے مسلم لیگ نواز کو مات دینے کے چکر میں عجلت میں جو "برائلر سیاسی رہنما" تخلیق کیا ہے اسے بے وقت بانگیں دینے کے سوا اور کچھ بھی نہیں آتا۔ اور شاید یہ نادیدہ قوتوں کیلئے ایک سبق بھی ہے کہ من پسند صحافیوں کے دم پر پراپیگینڈے کی مدد سے اپنے تیار کردہ "برائلر سیاستدان" کو مسیحا بھی ثابت کیا جا سکتا ہے اور اسے مسند اقتدار تک بھی پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اس کی فطرت میں شامل "ککڑوں کوں" کی عادات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

معاشی بحران بیانات اور بڑھکوں کے دم پر محض ککڑوں کوں یا پنڈی کی جانب رخ کر کے بانگیں دینے سے نہیں ٹالے جا سکتے

اقتصادی و معاشی بحران بیانات اور بڑھکوں کے دم پر محض ککڑوں کوں یا پنڈی کی جانب رخ کر کے بانگیں دینے سے نہیں ٹالے جا سکتے۔ بلکہ انہیں دور کرنے کیلئے سنجیدگی اور تدبر درکار ہوتے ہیں، جامع اور ٹھوس معاشی جکمت عملیاں درکار ہوتی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے سرمائے کا زرمبادلہ کسی بھی معیشت کو بحران سے نکالنے اور اسے مستقل بنیادوں پر مستحکم رکھنے کیلئے ریڈھ کی ہڈی کا کام انجام دیتا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کے پاس اس ضمن میں سوائے آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرضہ حاصل کرنے کے کوئی بھی حکمت عملی موجود نہیں ہے۔

اگر تحریک انصاف اور عمران خان کی روش یہی رہی تو موجودہ معاشی و اقتصادی بحران آنے والے دنوں میں ایک تباہ کن سیاسی بحران کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ پراپیگینڈا کی مدد سے سادہ لوح یا کم عقل افراد کی آنکھوں پر پٹی تو باندھی جا سکتی ہے لیکن اس کی مدد سے حقائق تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ موجودہ صورتحال میں یہ حقیقت واضح ہے کہ تحریک انصاف کی "برائلر" قیادت کے پاس معاشی و اقتصادی بحران سے نبٹنے کا کوئی بھی حل یا ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔