جواب دہی پر قائل قیادت ہی پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتی ہے

جواب دہی پر قائل قیادت ہی پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتی ہے
سابق صدر ایوب خان کے زمانے میں پاکستان نے بہت تیزی سے ترقی کی منازل کو طے کیا۔ پاکستان دیگر کئی ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک مثال تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب پاکستان نے جرمنی کو بھی قرض پر رقم ادھار دی۔ لیکن آج وطن عزیز پاکستان غیر جمہوری رویوں، عدم جواب دہی کے تصوراور اشرفیہ کے طرز عمل کی بدولت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ افراط زر نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً ساڑھے 3 ارب ڈالر کی انتہائی کم سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ روپیہ اپنی قدر دن بدن کھوتا چلا جا رہا ہے۔ آج اوپن مارکیٹ میں ڈالر 270 روپے کی ریکارڈ بلند سطح کو چھو رہا ہے اور تجارتی خسارہ مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بالآخر حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے۔

حکومت ٹیکسوں کے حصول میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق وطن عزیز پاکستان کی آبادی تقریباً 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جس میں سے صرف 18 لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ملکی اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات میں ابھی تک کمی نہیں ہوئی ہے۔ یہی اشرافیہ ٹیکس دینے سے بھی گریزاں ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کے لیے اب جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔

برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے پاکستان کی معاشی صورت حال کو انتہائی تشویش ناک قرار دیا ہے۔ پاکستان کا مجموعی قرضہ 100 ملین ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ ملک کی تمام بڑی صنعتیں تباہی کے دہانے پر ہیں۔ دوسری صنعتوں کی طرح پولٹری انڈسٹری بھی انتہائی مشکلات میں گھر چکی ہے۔ فیڈز کی عدم دستیابی سے مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قیمتوں میں بھی انتہائی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ خام مال کی عدم دستیابی سے بڑی صنعتوں کے بند ہونے کا خطرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ توانائی اور زرمبادلہ کی قلت نے معاشی صورت حال کو انتہائی خطرناک بنا دیا ہے۔ ڈالر کی عدم دستیابی سے تاجروں کا مال بندرگاہ پر پھنسا ہوا ہے۔ خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بے روزگاری میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے اور ملازمتوں کے مواقع کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ خام مال منگوانے کے لیے ڈالر کی قلت نے کاروباری سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ برطانوی جریدے کے مطابق پاکستان کو سری لنکا جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آخرکار حکومت نے ڈالر کی قدر کو مارکیٹ پر چھوڑنے کی آئی ایم ایف کی شرط بھی پوری کر دی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں شاید بہت دیر کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں روپیہ سنبھل نہیں پا رہا ہے۔ روپے کی قدر گرنے سے ڈالر شاید آج بلیک مارکیٹ میں 275 روپے کا بھی دستیاب نہیں ہے۔ حکومت پھر بھی دوست ممالک سے اضافی Deposits کے لیے پرامید دکھائی دیتی ہے۔

آئی ایم ایف کی سخت شرائط پوری ہونے پر ہی پاکستان کو قرضہ جاری کیا جائے گا۔ ان شرائط میں گیس اور پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کا خاتمہ نیز مزید ٹیکسوں کا نفاذ اور انرجی سیکٹر میں ریفارمز بھی شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان شرائط کو پورا کرنے سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا۔ یاد رہے پاکستان کے کیس میں آئی ایم ایف نا صرف Balance of Payment بلکہ Fiscal and Monetary Policy کے علاوہ انرجی سیکٹر میں ریفارمز کا بھی جائزہ لے گا۔

دوسری جانب بیرون ملک سے ترسیلات زر یعنی Remittances میں ریکارڈ کمی نے ملک کی معاشی صورت حال کو مزید ابتر کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد نویں جائزہ رپورٹ کے لیے جلد پاکستان آنے والا ہے۔ قرض کے حصول کے لیے حکومت کو اب شاید بہت سے غیر مقبول فیصلے بھی کرنے ہوں گے۔ شاید اس لیے حکومت کی سیاسی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔ اب عوام پر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے جن سے نا صرف بنیادی اشیائے ضرورت بلکہ پٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ دوسری جانب دوست ممالک کے بینکوں نے قرضوں کو رول اوور کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے حکومت کو ان غیر ملکی بینکوں کو فوری قرضے واپس کرنے پڑے۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی دیکھنے کو ملی ہے۔

پاکستان کے ایک انتہائی اہم دوست ملک سعودی عرب نے بھی پاکستان کے لیے قرضے کے حصول کو معاشی اصلاحات کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اور صاف اور واضح الفاظ میں حکومت پاکستان کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کا صحیح اور مناسب استعمال دیکھنا چاہتے ہیں اور اب ماضی کی طرح غیر مشروط امداد یا قرضے کسی بھی صورت میں پاکستان کو نہیں دیے جائیں گے۔

بنگلہ دیش کی جانب دیکھیں تو آزادی کے فوراً بعد اس نے بہت جلد معاشی ترقی کی منازل کو طے کیا اور ریکارڈ برآمدات کی ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ بھی اپنے معاملات کو انتہائی احسن انداز میں حل کیا ہے۔ پاکستان کی ابتر معاشی صورت حال سے نا صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری بلکہ تمام بڑے کارخانے متاثر ہوتے ہیں اور برآمدات میں ریکارڈ کمی واقع ہو گئی ہے۔ کئی اہم کارخانے بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں جس سے بے روزگار ی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کی پانچویں بڑی انڈسٹری آئی ٹی سیکٹر بھی شدید مشکلات کا شکار ہے حالانکہ آئی ٹی سیکٹر ریفارمز کی بدولت قیمتی زرمبادلہ کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم زرعی اجناس بھی باہر سے منگوا رہے ہیں۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ اس کے علاوہ ملکی اشرافیہ کی غیر ضروری امپورٹس کی بدولت تجارتی خسارہ مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ساتھ ساتھ بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) جاری نہ کرنے سے کاروباری سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ موجودہ معاشی بحران سے ملک کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں آپس کے تمام اختلافات کو بھلا کر صرف اور صرف ملک کی سلامتی کی خاطر باہم مل بیٹھیں تاکہ وطن عزیز پاکستان کو تمام سیاسی اور معاشی بحرانوں سے باہر نکالا جا سکے۔ موجودہ معاشی صورت حال کے تناظر میں حکومت کو فوری طور پر غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا ہوگا۔

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے 11 جولائی 1948 کو حیدر آباد دکن میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا؛ 'میرا آپ کو مشورہ ہے کہ لیڈروں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کریں۔ آدھی جنگ تو لیڈروں کے صحیح انتخاب سے ہی جیت لی جاتی ہے۔' لہٰذا اب پاکستان کے عوام پر بھی یہ ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قائد اعظم کے اقوال کی روشنی میں لیڈروں کے انتخاب میں اپنی قومی ذمہ داری کو احسن انداز میں پورا کریں۔

امید واثق ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام محب وطن، انتہائی ذمہ دار اور جواب دہ قیادت کا انتخاب کریں گے تاکہ وطن عزیز کو تمام سیاسی اور معاشی مشکلات سے احسن انداز سے نکالا جا سکے۔ جمہوریت دراصل جواب دہی (Accountability) کا دوسرا نام ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے حکومتیں عوام کے سامنے جواب دہ ہوں پھر ہی ایک حقیقی خودمختار اور آزاد معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت کرے، آمین!