”نہیں معلوم جسٹس قاضی فائز عیسی کی کس حد تک جاسوسی ہوئی “

”نہیں معلوم جسٹس قاضی فائز عیسی کی کس حد تک جاسوسی ہوئی “
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواست پر سماعت۔ جسٹس فائز عیسٰی کے وکیل منیر ملک بولے جسٹس فائز عیسٰی کیخلاف ریفرنس کیلئے معلومات نہ صدر اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل بلکہ عبدالوحید ڈوگر نے فراہم کی ہیں۔ عدالت کو جج کی جاسوسی کرنے کی تحقیقات کا حکم دینا چاہیے۔ عدالت جاسوسی کی بنیاد پر جمع شدہ مواد کا جائزہ ہی نہ لے۔

صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ بینچ نے کی۔ جسٹس فائز عیسٰی کے وکیل منیر ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جج کے خلاف شکایات صدر اور سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی جاتی ہیں۔ صدر کو سب سے پہلے اپنا ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے۔ پھر اگر اس کو لگے تو معاملہ کونسل کو کارروائی کیلئے بھجوا ئے۔ اگر شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں آئے اسے بھی اپنا ذہن استعمال کرنا ہوتاہے اور اگر اسے لگے کہ جج کا کنڈکٹ درست نہیں تو وہ انکوائری کا آغاز کرے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ جب صدر اپنی رائے بنا کر معاملہ کونسل کو بھیج دے تو کیا کونسل کو ہر صورت انکوائری کرنی ہے؟ منیر ملک کا جواب تھا۔ جی بالکل! ایسی صورت میں کونسل کو اپنا ذہن استعمال کیے بغیر انکوائری کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ منیر ملک کا موقف تھا کہ شکایت میں کمزوری نہ صدر نے اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل نے دور کرنا ہے۔ جسٹس فائز عیسٰی کیخلاف ریفرنس کیلئے معلومات نہ صدر اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل نے بلکہ عبدالوحید ڈوگر نے دی ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس اتنا مواد تھا کہ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیٰسی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا۔ میری رائے میں جج پبلک سرونٹ ہوتا ہے۔ جس پر منیر ملک کا کہنا تھا کہ جج کے پبلک سرونٹ ہونے پر دو آرا پائی جاتی ہیں۔ منیر ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی خفیہ جاسوسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نہیں معلوم جسٹس قاضی فائز عیسی کی کس حد تک جاسوسی ہوئی۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی خان نے سوال اٹھایا کہ کیا ایسا کوئی قانون موجود ہے کہ فوجداری مقدمات میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی بھی شخص کا فون ٹیپ کیا جاسکتا ہے یا اس کی مخبری کی جاسکتی ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسا قانون ہے تو وہ ان کے علم میں نہیں ہے۔ منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ’قومی سلامتی کے معاملے پر کسی مشتبہ شخص کا فون ٹیپ کیا جاسکتا ہے‘۔ عدالتی استفسار پر منیر ملک کا کہنا تھا کہ نیب کو جاسوسی کیلئے متعلقہ ہائی کورٹ سے اجازت درکار ہوتی ہے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیوی کا نام معلوم نہیں تھا لیکن خفیہ ادارے ان کے موکل کی مخبری کرنے کے بعد یہ معلومات پبلک میں لیکر آئے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ سروِلنس بہت بڑا لفظ ہے، ’کیا آپ اس کا مطلب بتا سکتے ہیں آیا کسی کا پیچھا کرنا یا کسی کے بیڈ روم میں کیمرے لگانا ہے‘، جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ کسی کے نجی معاملات میں مداخلت سروِلنس کے ذمرے میں آتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال بولے جاسوسی کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔منیر اے ملک نے کہا عدالت کو جج کی جاسوسی کرنے کی تحقیقات کا حکم دینا چاہیئے۔ عدالت جاسوسی کی بنیاد پر جمع شدہ مواد کا جائزہ ہی نہ لے۔ وحید ڈوگر کو جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ کا ہسپانوی نام بھی معلوم نہیں۔ سپریم کورٹ کل ایک بجے اس کیس کی دوبارہ سماعت کرے گی۔