جسٹس (ر) رانا شمیم کے حلف نامے کی تصدیق کرنے والے وکیل اوتھ کمشنر اور نوٹری پبلک نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں عدالتوں میں پیش ہونے کیلئے تیار ہیں تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ رانا شمیم نے حلف نامے پر دستخط کیے تھے اور دستاویز پر دستخط کرتے وقت وہ پورے ہوش و حواس میں تھے۔
اس دستاویز کے حوالے سے خبر دی نیوز میں سب سے پہلے انصار عباسی نے دی تھی۔
دی نیوز اور جیو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں لندن کے نوٹری پبلک چارلس گتھری نے تصدیق کی کہ جنگ اور دی نیوز میں شائع ہونے والا حلف نامہ (جس میں صرف ایک نام کو حذف کر دیا گیا تھا) بالکل درست اور وہی حلف نامہ تھا جس پر انہوں نے دستخط کیے تھے اور مہر ثبت کی تھی اور اس پر جسٹس رانا شمیم کے دستخط تھے۔
چارلس گتھری نے کہا کہ رانا شمیم نے ان سے بات چیت میں تصدیق کی تھی کہ اپنے حلف نامے پر دستخط چاہتے ہیں جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر جج پر دباؤ ڈالا تاکہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو 2018ء کے عام انتخابات سے قبل ضمانت پر رہائی نہیں ملنا چاہئے۔
چارلس گتھری نے جسٹس رانا شمیم کے متعلق بتایا کہ وہ بہت پڑھے لکھے اور ذہین شخص ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے دور میں پاکستان کے سینئر ترین ججوں میں شامل تھے، انہوں نے مجھے واضح طور پر بتایا تھا کہ ’’ہاں‘‘ وہ جانتے ہیں کہ وہ حلف نامے کیا بات کہہ رہے ہیں۔
دی نیوز میں شائع ہونے والے حلف نامے کے حوالے سے چارلس گتھری نے بتایا کہ یہ بالکل درست اور اصل دستاویز ہے، اسی دستاویز پر میرے روبرو حلف اٹھا کر دستخط کیے گئے تھے جس شخص نے یہ تیار کیا تھا اس نے مجھے اپنا پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ دکھایا تھا، انہوں نے مجھ سے اکیلے میں ملاقات کی لہٰذا یہ آزاد انداز سے تیار کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ چاہے رانا شمیم ہوں یا کوئی اور، برطانیہ میں معیاری طریقہ کار یہ ہے کہ ہم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ جس دستاویز پر وہ حلفاً دستخط کر رہے ہیں وہ اس کے مندرجات سمجھتے بھی ہیں یا نہیں، یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کس دستاویز پر دستخط کرنا چاہتے ہیں، ہم یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا ان کے پاس دستاویز پر دستخط کی صلاحیت ہے اور یہ بھی کہ کیا وہ ذہنی طور پر ہوش و حواس میں ہیں یا نہیں اور لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ کس دستاویز پر دستخط کر رہے ہیں، یہ وہ باتیں ہیں جن کا ہم کسی بھی شخص سے حلف لیتے وقت دھیان رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس موقع پر دستخط کرنے والے شخص کو اپنی شناختی دستاویز (پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس) پیش کرنا ہوتی ہے جس کے بعد میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ سامنے والا شخص اصل ہے۔
جسٹس (ر) شمیم کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا۔ انہوں نے میرے روبرو اکیلے دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ چارلس گتھری پاکستانی ہائی کمیشن لندن کو خدمات فراہم کرتے ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ پاکستان فارن آفس بشمول نیب کیلئے دستاویزات کی تصدیق کرتے ہیں۔
انہوں نے ہی پاناما سے جڑی دستاویزات کی تصدیق کی تھی جو نیب نے لندن سے حاصل کرکے پاکستان میں 2017ء میں پیش کی تھیں۔ چارلس گتھری نے بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں کیا تنازع شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی موزوں ذریعے سے کوئی دستاویز پیش ہوگی تو وہ اس کی تصدیق کریں گے، میں آزاد اور غیر جانبدار ہوں، کوئی سیاسی آدمی نہیں، لہٰذا اگر پاکستانی ہائی کمیشن مجھ سے کہے کہ درست اور اصل دستاویزات کی تصدیق کرو ں تو میں کروں گا۔ میں نے ماضی میں بھی یہ کام کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوٹری پبلک ایک آزاد اور غیر جانبدار شخص ہوتا ہے جو دستاویزات کی تصدیق کرتا ہے اور حلف لیتا ہے۔ نوٹری پبلک ایک وکیل سے مختلف ہے کیونکہ وہ کسی مخصوص شخص کیلئے کام کرتا ہے اور مخصوص پارٹی کیلئے کام کرتا ہے۔ اس نمائندے کو معلوم ہے کہ کم از کم تین لوگوں نے چارلس گتھری کے حوالے سے ایک خفیہ آپریشن کرنے کی کوشش کی، اسے دستاویزات کی تصدیق کیلئے فیس دی اور اس کے بعد یہ خبر نکالنے کی کوشش کی کہ جیسے حلف نامہ جعلی تھا یا پھر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جسٹس شمیم پر کوئی دبائو تھا یا پھر اوتھ کمشنر نے کوئی غلط کام کیا ہے۔
تاہم، یہ اسٹنگ آپریشن کامیاب نہ ہوا کیونکہ چارلس گتھری اپنی قانونی اور حقیقی پوزیشن پر برقرار رہے۔ چارلس گتھری نے تصدیق کی کہ دی نیوز اور جنگ میں رانا شمیم کا حلف نامہ منظر عام پر آنے کے بعد انہیں کئی لوگوں سے سوالات موصول ہوئے۔ انہوں نے کہا، میں جانتا ہوں یہ خبر پاکستان میں بڑی خبر بن کر سامنے آئی، عموماً میں اس حوالے سے کچھ کہنے سے انکار کر دیتا ہوں یا پھر اس سے زیادہ نہیں کہتا کہ جس شخص نے میرے روبرو دستخط کیے میں نے اس کی شناخت کی تھی، جس وقت رانا شمیم نے حلفاً دستاویز پر دستخط کیے تھے اس وقت وہ میرے ساتھ تنہا تھے۔
خیال رہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔
گلگت بلتستان کے سینئر ترین جج نے پاکستان کے سینئر ترین جج کے حوالے سے اپنے حلفیہ بیان میں لکھا تھا کہ ’’میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف عام انتخابات کے انعقاد تک جیل میں رہنا چاہئیں۔ جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو وہ (ثاقب نثار) پرسکون ہو گئے اور ایک اور چائے کا کپ طلب کیا۔‘‘