وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی کی فزیبلٹی رپورٹ تاحال نہیں بن سکی، قیام میں چھ سال سے زیادہ عرصہ لگے گا، وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی کی فزیبلٹی رپورٹ تاحال نہیں بن سکی، قیام میں چھ سال سے زیادہ عرصہ لگے گا، وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

 ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی کو  بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میجر (ر) ڈاکٹر قیصر مجید ملک نے بتایا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں قائم ہونے والی یونیورسٹی  کے لئے   دو ارب  روپے  مختص ہوئے ہیں، یونیورسٹی کی فزیبلٹی وغیرہ پر 390ملین روپے خرچ ہونگے اور یونیورسٹی کی فزیبلٹی بن رہی ہے اور اس کے قیام میں چھ سال لگیں گے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ رقم پہلے مختص کر دی گئی اور منصوبے کی فزیبلٹی ابھی بنی ہی نہیں، یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے کوئی عملی کام نہیں ہوا ہے۔


وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کمیٹی کو بتایا کہ جب    کورونا وبا آئی تو پاکستان میں کچھ نہیں بنا رہا تھا،وینٹی لیٹرز، ماسک،سینی ٹائزر ہر چیز درآمد کر رہے تھے، آج پاکستان کورونا آلات کی برآمدات کرر ہا ہے، ہم نے دو نئی انڈسٹریز کھڑی کر نی ہیں،  بڑی کمپنیاں آکر پاکستان میں ڈائیلائسسز مشینیں بنا رہی ہیں، الیکٹرک وہیکل پالیسی ہماری بڑی کامیابی ہے، اس سال سب سے بڑی اسکالرشپ مہم شروع کررہے ہیں،سکالرشپ منصوبے کیلئے 13 ارب روپے کا منصوبہ منظور ہوا ہے۔


انہوں نے کہا جب میں نے چارج لیا تو سائنس کے اداروں کے سربراہان نہیں تھے۔ ریسرچ کا بجٹ 16 ارب روپے تک لے گئے ہیں، اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں، اداروں کے بورڈز مکمل کروائے ہیں، چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ پچھلے 33ماہ میں یہ 48واں اجلاس ہے۔227سفارشات وزارت کو دی ہیں جو وزارت کے ماتحت اداروں سے متعلق تھیں۔


اداروں کا کام سست روی کا شکار ہے،


وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ پندرہ سالوں کے بعد ہم نے اداروں کے رولز بنائے ہیں،ہم نے پہلی بار سول ملٹری انٹرفیز تیار کیا ہے،پرائیویٹ سیکٹر کے بغیر ہم پراجیکٹس کو آگے نہیں چلاسکتے۔


چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے لوگوں نے زمینوں پر قبضے کر رکھے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ صرف چار ادارے رہ گئے ہیں جن کے سربراہ ابھی لگنے باقی ہیں تاہم زیادہ تر اداروں کے سربراہان لگا دیئے گئے ہیں۔


چیئرمین کمیٹی نے کہا وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ادارے سیلری پیئنگ سنٹرز بن گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ بند بوتل کے نام پر قوم کو گندہ پانی پلایا جا رہا ہے۔


پی ایس کیو سی اے حکام نے بتایا کہ 23 کمپنیوں کے پانی کے نمونے غیر معیاری پائے گئے۔ پانچ کمپنیوں کے یونٹس سربمہر کیے گئے، 18 کمپنیوں کے سیلنگ پوائنٹس کو بند کیا گیا، پی ایس کیو سی اے اور پی سی آر ڈبلیو آر مل کر پانی کی موبائل سیمپلنگ کرتے ہیں مگر اس دفعہ مشترکہ طور پر سمپلنگ نہیں کی گئی۔سات بڑے شہروں میں پانی کی سیمپلنگ کی گئی۔ ایکشن لینے کے بعد کمپنیاں نام تبدیل کر کے دوبارہ کام شروع کردیتی ہیں۔ایڈیشنل سیکرٹری نے بتایا کہ اس چیز کو آؤٹ سورس کرنے جا رہے ہیں۔


پی ایس کیو سی اے جرمانہ بھی نہیں کرسکتا، ڈی جی پی ایس کیو سی اے نے کہا کہ ایکٹ میں ترمیم کیلئے لکھ کر بھیج دیا ہے کہ ادارے کو موقع پر جرمانے کا بھی اختیار دیا جائے جو پچاس ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے ہونا چاہئے۔


چیئرمین کمیٹی نے کہاپا نی کے اسٹنڈرڈ چیکنگ نہیں کرسکتے تو باقی 61 چیزوں کا کیا کریں گے،چیئرمین کمیٹی نے پی ایس کیو سی اے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایس کیو سی اے میں کرپشن کیسز کی انکوائری التوا کا شکار ہے، ہماری ہدایات کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔ پچھلے تین سال سے یہ معاملہ کمیٹی کے ایجنڈے پر ہے، جن افسران پر کرپشن کے کیسز ہیں ان کو معطل کیا جائے مگر کسی کو معطل نہیں کیا گیا، پی ایس کیو سی اے حکام نے بتایا کہ تین افسران کو معطل کیا جاچکا ہے۔ سنیٹر نعمان وزیر نے بتایا کہ سینٹ کا یہ عالم ہے ہم زوم میٹنگ نہیں کر سکتے۔


انہوں نے کہا کہ گرمیوں میں بجلی کی ڈیمانڈ 23000میگاواٹ ہے جو سردیوں میں کم ہو کر صرف چھ ہزار پر آجاتی ہے۔ہمارے ایئر کنڈیشنرز سردیوں میں آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی کھا جاتے ہیں جبکہ ہمارے پنکھے نو ہزار میگاواٹ بجلی کھا جاتے ہیں۔ پاکستان پنکھے 80سے 100والٹ لیتے ہیں جبکہ عالمی سطح کے بنے پنکھے صرف 20سے 30والٹ لیتے ہیں۔ ہم ایئرکنڈیشنر اور انورٹر پنکھے استعمال کر کے چھ ہزار میگاواٹ بجلی گرمیوں میں بچا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ڈی سی پنکھوں کو انونٹر کرنا ہے۔ انہوں نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی سے کہا کہ اس حوالے سے پی سی ون تیار کرے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔